وزیراعظم کے زیر صدارت سیاسی وعسکری قیادت کی بڑی بیٹھک ہوئی جس میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت قومی بیانیے کو مضبوط کرنے پر اتفاق اور روایتی اور ڈیجیٹل میڈیا پر ملک دشمن مہم کا منہ توڑ جواب دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس میںفیصلہ کیا گیا کہ جعفر ایکسپریس کے حملہ آوروں کو دنیا میں بے نقاب کرنے میں کو ئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی، ساتھ ہی روایتی اور ڈیجیٹل میڈیا پر ملک دشمن مہم کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ قومی بیانیے اور ملکی سلامتی کیخلاف کسی بھی قسم کے مواد کا سد باب کیا جائے گا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ ڈیپ فیک، دیگر ذرائع سے جھوٹی معلومات، مواد کا مستند معلومات سے جواب دیا جائے اور قومی نصاب میں دہشت گردی کے حوالے سے آگاہی شامل کی جائے۔
دریں اثناء اسلام آباد میں ”رب ذوالجلال کا احسان پاکستان” تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے دہشت گردی، معاشی مسائل اور ملک کے اندر موجود تفریق کے خاتمے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ذاتی خواہشات کے لیے قومی مفاد قربان کرنے کی سوچ قربانیوں سے بے وفائی ہے۔ ملک کی عزت اور وقار کو داؤ پر لگایا جارہا ہے، آنے والی نسلیں معاف نہیں کریں گی۔ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کا فرض ہے کہ وہ آگے بڑھ کر پاکستان کے معاشی، معاشرتی اور دہشت گردی کے مسائل حل کرنے کے لیے کردار ادا کریں۔ وزیراعظم نے کہا کہ آج بھی موقع ہے کہ فیصلہ کریں کہ پاکستان کے وسیع تر مفاد کی خاطر اپنی تمام ذاتی خواہشات اور انا کو پاکستان کے تابع کریں، اس سے بڑی پاکستان کی خدمت نہیں ہوسکتی۔
وطن عزیز پاکستان کو اس وقت اپنی داخلی سلامتی سے متعلق سنجیدہ خطرات اور چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک معاشی بحرانوں سے نکلنے کی جدوجہد کر رہا ہے اور پاکستان کی موجودہ سیاسی و عسکری قیادت کی کاوشوں سے میکرو لیول پر معیشت میں بہتری کے آثار دکھائی دے رہے ہیں، مہنگائی اگر کچھ زیادہ کم نہیں ہوئی تو ایک دو سال پہلے کی طرح بالکل بے قابو بھی نہیں ہے اور عام آدمی کا اعتماد کسی حد تک بحال ہورہا ہے، ملک کے دو اہم صوبوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں امن و امان کی ناگفتہ بہ صورت حال پوری قوم کے لیے باعث تشویش اور سوہان روح ہے۔ دونوں صوبوں میں الگ الگ نوعیت کی شورش برپا ہے اور بد قسمتی سے ہمارے قومی سلامتی کے ادارے تمام تر کوششوں اور اپنے جوانوں کی قیمتی جانوں کی قربانیوں کے باوجود حالات پر اپنی گرفت مضبوط کرنے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔ ان حالات میں اس بات کی اشد ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ اس معاملے پر قومی حکمت عملی کی از سر نو تشکیل کی جائے اور انسداد دہشت گردی کے باب میں قومی سلامتی کے اداروں کے ساتھ ساتھ ریاست کے دیگر ستونوں اور سماج کے تمام طبقات کے موثر کردار کو بھی یقینی بنایا جائے۔
اس ضمن میں سب سے اہم اور قابل غور نکتہ یہ ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ دونوں صوبوں میں دہشت گردی اور عسکریت پسندی کا بیانیہ ہمارے قومی بیانیے پر غالب آرہا ہے اورپاکستان دشمن قوتوں کو وہاں اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کے لیے افرادی قوت کی صورت میںہموار زمین مل رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بحیثیت قوم ہماری بڑی ناکامی ہے کہ ہماری سرزمین پر دشمن قوتوں کا منفی بیانیہ اپنے تباہ کن اثرات دکھا رہا ہے اور ہم تمام تر قومی وسائل استعمال کرنے کے باوجود اس بیانیے کو توڑنے میں کامیاب نہیں ہوپارہے۔ اس کی وجہ اگر تلاش کی جائے تو وہ ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی سیاسی و مذہبی تفرقہ بازی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ہم بری طرح کے فکری انتشار میں مبتلا ہیں۔ یہاں ملک، ملت، قوم اور ریاست کی فکر کرنے والے لوگ بہت کم ہیں اوراپنے اپنے اپنے ذاتی، گروہی، جماعتی، لسانی ومذہبی طبقات کے مفادات کے لیے لڑنے مرنے پر آمادہ لوگوں کی اکثریت ہوچکی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ قومی سطح پر ہر جگہ ایک دھینگامشتی کی فضا قائم ہوچکی ہے۔ ایسے میں دشمن قوتوں کو اپنا کھیل کھیلنے کا پورا پورا موقع دستیاب ہے اور وہ اپنے کھیل کھیل رہی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایک قوم بن کر سوچیں اور وطن عزیز پاکستان کی سلامتی اور تحفظ کو اپنا اولین نصب العین قرار دیں کیونکہ یہ ملک ہے تو ہم ہیں۔ ملک میں امن ومان کے قیام کے حوالے سے قومی سلامتی کے اداروں سے توقعات، شکایات اور اعتراضات سب اپنی جگہ درست ہوسکتے ہیں لیکن ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ملک کی داخلی سلامتی کا تحفظ صرف قومی سلامتی کے اداروں کی ذمہ داری نہیں ہے، جنگیں صرف فوجیں نہیں بلکہ قومیں لڑا کرتی ہیں۔ ہمیں بحیثیت قوم اپنی سلامتی اور اندرونی سا لمیت کی جنگ لڑنی ہے اور ہر سطح پر لڑنی ہے۔
فی الوقت ہمیں جس محاذ پر سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہ فکری اور ابلاغی محاذ ہے۔ ہمیں اس وقت ایک ایسی جنگ کا سامنا ہے جس میں ہمارے خلاف جدید ذرائع ابلاغ بالخصوص ڈیجیٹل پلیٹ فارموں کے ذریعے پروپیگنڈے، فیک نیوز، ڈیپ فیک اور افواہ سازی کو بطور ہتھیار استعمال کیا جارہا ہے۔ اس یلغار کی شدت ہم گزشتہ دنوں جعفر ایکسپریس پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد پیدا کی جانے والی ہیجانی صورت حال کی صورت میں دیکھ چکے ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس شدت میں اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس سے یہ خطرہ محسوس ہونے لگا ہے کہ کسی بھی وقت کسی بھی واقعے کی آڑ میں افواہ کے ذریعے ملک میں بڑا انتشار پھیلانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔
اس بنا پر یہ امر ناگزیر ہوچکا ہے کہ پاکستان کے خلاف ڈیجیٹل دہشت گردی کا موثر جواب دینے کے لیے ہمارے پاس مکمل تیاری، مربوط حکمت عملی اور جدید وسائل موجود ہوں۔ اس سلسلے میں ملک کی سیاسی و عسکری قیادت کی جانب سے بیانیے کی جنگ کو موثر بنانے کے لیے اقدامات کا اعلان خوش آیند ہے۔ اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ حکومت اور ریاستی ادارے موثر قومی بیانیے کی تشکیل اور اس کے فروغ کے لیے ٹھوس بنیادوں پر منصوبہ بندی کریں۔ ملک کے پڑھے لکھے اور نوجوان پڑھے لکھے طبقے کو اس قومی مشن میں شریک کیا جائے۔ سیاسی اور مذہبی حلقوں میں سے بااثر اور مخلص افراد کا تعاون حاصل کیا جائے اور علیحدگی پسندی، انتہا پسندی، قوم پرستی اوروفاق گریزی کے رجحانات کی حوصلہ شکنی اورقومی وحدت اور اسلام اور پاکستانیت کے جذبات کی پرورش و فروغ کے لیے ہر سطح پر کام کیا جائے۔ دہشت گردی کو شکست دینے کے لیے دہشت گردوں کے بیانیے کو شکست دینا لازمی اور ناگزیر ہے۔