ریاست ِپاکستان کے اہم افراد کےخلاف مکروہ مہم

ایک طرف جبکہ امریکی اسلحہ خانوں میں تیار کردہ خوف ناک بم غزہ اور یمن کی شہری آبادیوں میں بچوں ، بوڑھوں اور خواتین کا قتلِ عام کررہے ہیں اور امریکا اسرائیل نامی دہشت گردی کے اڈے کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کے لیے کھلی جارحیت پر اُتر چکا ہے۔ اقوامِ متحدہ اور امریکی کانگریس میں ریاست ِ پاکستان کے اہم افراد کے خلاف اپنے ملک میں امن کو یقینی بنانے کے جرم میں انسانی حقوق کی خلا ف ورزی کے الزامات عائد کیے جارہے ہیں۔ عالمی طاقتوں کے منافقانہ کردار کی اس سے بڑھ کر اور کیا وضاحت ہوسکتی ہے کہ بچوں کے قتلِ عام میں ملوث افراد اور ادارے ایک ریاست کی عسکری قیادت کو اس وجہ سے بدنام کرنے کی کوشش کریں کہ انھوں نے اپنے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کےلئے سیاسی انارکی، مذہبی انتہا پسندی اور احتجاج کی آڑ میں دہشت گردوںکی سہولت کاری کرنے والے عناصر کا دباو قبول کرنے سے انکار کردیاہے۔
دفترِخارجہ کے ترجمان کی وضاحت کے مطابق پاکستان کےخلاف امریکی الزامات دونوں ریاستوں کے درمیان دوستانہ تعلقات کے عکاس نہیں ہیں۔ امریکی کانگریس میں پاکستان کے اہم عسکری افراد بالخصوص آرمی چیف حافظ سید عاصم منیر کےخلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام گو فی الحال شخصی کاوشوں تک محدود ہے لیکن یہ اس معنوں میں لمحہ  فکریہ ہے کہ ایسے ہی الزاما ت آگے چل کر ریاستی موقف میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور امریکا جیسی ریاستیں ان الزامات کی بنیاد پر کمزور ممالک پر چڑھ دوڑنے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی آڑ میں امریکا متعدد ممالک کے لاکھوں انسانوں کو خاک و خون میں تبدیل کرچکا ہے لیکن تاحال اس کی خون چوسنے والی طبیعت سیراب نہیں ہوئی ہے اور اب ا س پاکستان اس کی نفرت بھری نگاہوں کا ہدف دکھائی دے رہاہے ۔

دفترِ خارجہ کے ترجمان کی وضاحت کے مطابق افواجِ پاکستان عوام کے تحفظ پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گی۔ ملک کے محافظ ادارے دراصل سیاسی انارکی ، دہشت گردی اور فتنہ  و فساد سے اپنے ہم وطنوں کو نجات دلانے کے لیے ریاست کی طاقت اور قانون کی قوت کا استعمال کررہے ہیں جو موجود ہ حالات میں ایک ناگزیر اقدام ہے تاہم اقوامِ متحدہ کے ماہرین اور امریکی کانگریس کے ارکان کا رویہ ثابت کرتاہے کہ عالمی او ر امریکی قوانین کو سیاسی ، عسکری، سماجی اور سفارتی عوامل کے پیچیدہ جال کے ذریعے پاکستان کے اہم افراد کےخلاف ایک سازش کے انداز میںاستعمال کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں جیسا کہ مغربی طاقتوں کا طریق واردات اور جدید نوآبادیاتی پالیسیوں کا انداز ہے۔
جدید نوآبادیاتی نظام میں ریاستوں پر جغرافیائی تسلط حاصل کیے بغیر انھیں سیاسی، سماجی، معاشی اور عسکری لحاظ سے اپنے مفادات کی خاطر استعمال کیا جاتاہے اور جو ریاست استعمال ہونے سے انکار کردے یا جدید نوآبادیاتی طاقتوں کے مفادات کی راہ میں مزاحم ہو، اسے نشانِ عبرت بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔حالیہ تاریخ میں مغرب کا انتہا پسندانہ رویہ اور جارحانہ عزائم کو اقوام عالم بچشمِ خود دیکھ چکی ہیں اور دنیا محسوس کررہی ہے کہ تعلیم ، سیاست ، معیشت اور عالمی سفارت کاری ہر غرض ہر شعبے میں مغربی طاقتیں عسکری دباو کے بل پر اپنے فیصلے منواتی چلی آرہی ہیں۔ مغرب کا سیاسی و معاشی غلبہ اس قدر گہرا اور شدید ہے کہ پڑوسی ملک افغانستان ہو یا امریکا کی دن رات مخالفت کا نعرہ بلند کرنے والا ایران، بہرحال دونوں ہی ریاستیں درپردہ یا کھلے عام اس وقت امریکا کے ساتھ مصافحہ کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔ قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ اس وقت یہ دونوں ہی ریاستیں پاکستان کے داخلی معاملات میں منفی طورپر ملوث ہیں۔ ملک میں دن، رات ہونے والے حملوں میں افغان سرزمین استعمال ہورہی ہے اور اسی ملک میں اب امریکا اپنا قونصل خانہ کھولنے والا ہے جبکہ ایسی غیر مصدقہ اطلاعات بھی گردش میں ہیں کہ امریکا کو بگرام ایئر پورٹ ایک اڈے کے طورپر دیے جانے پر غور کیا جارہا ہے ، ظاہر ہے اس ڈیل کی صورت میں امریکی ڈالروں کا بہاو ایک مرتبہ پھر افغانیوں کی جانب ہوجائے گا لیکن یہ کھیل پاکستان کے حق میں کچھ زیادہ بہتر ثابت نہیں ہوگا۔
خطے میں عالمی قوتوں بالخصوص امریکی مفادات کی تکمیل میں پاکستان کی عسکری قوت ایک بڑی رکاوٹ ہے جس کی جوہری قوت، میزائل، ٹیکنالوجی ،زبردست عزم وحوصلے کی حامل سپاہ اور ملک اور عوام کے تحفظ کا ناقابلِ تسخیر جذبہ کسی بھی عالمی طاقت کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھتے رہتے ہیں، اس لیے یہ طاقتیں اس خطرے سے نجات یا اس کا مکمل تدارک چاہتی ہیں اور ایک ایسے وقت میں جبکہ پاک فوج ملک میںہونے والی دہشت گردی، خوارج کے فتنے اور قوم پر ستی کی آڑ میں تخریب کاری کرنے والے عناصر کےخلاف ایک فیصلہ کن آپریشن کی تیاری کررہی ہے، پاک فوج کی قیادت پر الزامات اور انھیں امریکی پابندیوں او ر عالمی قوانین کے دائرے میں گھسیٹنے کی کوشش دراصل ملک کی سلامتی اور تحفظ کو خطرات میں ڈالنے کے سوا کچھ نہیں۔ پاکستان کو اس وقت دہشت گردی کی ایک بڑی لہر کا سامناہے ۔ ایسے مواقع پر آزادی اظہار یا نام نہاد انسانی حقوق کا رونا بدنیتی کا شاخسانہ ہے۔ افغان شہریوں کی جبری جلا وطنی بھی انہی ناگزیر حالات کا ردعمل ہے۔ ایسے کڑے فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے ایسے قائدانہ کردار ادا کرنے والے افراد درکار ہوتے ہیں جو حالات کی ضرورت ، وقت کے تقاضوں اور فریضے کی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ملک و ملت کے فیصلوں میں اہم کردار ادا کرنے والے افراد کو عالمی سطح پر متنازع بنانے اور ان کےخلاف قوانین کے ہتھیار کو استعمال کرنے کی سازش میں چونکہ سیاسی و عسکری دونوں نوعیت کے عوامل کارفرما ہیں, لہٰذا ایسے میں ملک کے محافظ اداروں کو پہلے سے زیادہ چوکنا، خبردار اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ۔ ملک و قوم کی توانائیوں کے تمام سرچشموں کو اس وقت ایک دھارا بننے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کو عالمی طاقتوں کی بساط بننے سے بچایا جاسکے اور داخلی معاملات میں عالمی مداخلت کا راستہ روکا جاسکے ۔

ریاست ِ پاکستان کے اہم افراد کے خلاف شروع کی جانے والی مکروہ مہم سیاسی یا سفارتی ہی نہیں دہشت گردانہ نظریات کا حوالہ بھی رکھتی ہے اس لیے اہم افراد کی حفاظت کو خاص طورپر مدِ نظر رکھنا چاہیے ۔