پاکستان پر الزام تراشی، نئے شکاری پرانا جال

دفتر خارجہ پاکستان کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں وضاحت کی گئی ہے کہ اقوامِ متحدہ کے بعض ماہرین کی جانب سے پاکستان پر دہشت گردی کے خلاف اقدامات کی آڑ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات میں کوئی صداقت نہیں۔ ان کے تبصرے غیر متوازن ہیں۔ الزامات پاکستان کی داخلی صورت حال کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے۔ ترجمان کے مطابق دنیا کا کوئی بھی ملک مسلح گروہوں اور ان کے سہولت کاروں کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتا کہ وہ شہریوں کے جان و مال اور ان کی آزادی کو نقصان پہنچائیں۔ اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے شہریوں کو پہنچنے والے بھاری جانی نقصانات کو نظرانداز کیا ہے۔ ترجمان کے مطابق ریاست پاکستان کا دوٹوک موقف ہے کہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو کسی بھی قسم کی گنجائش نہیں دی جائے گی۔
پاکستان کے متعلق اقوامِ متحدہ ماہرین کی رپورٹ کو اگر امریکی کانگریس میں پاکستان کی داخلی صورتِ حال سے متعلق پیش کردہ ڈیموکریٹ ایکٹ کے موازنے کے ساتھ دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نئے شکاری پاکستان کے خلاف پرانا جال استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستان پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات اور تحریک انصاف کے بانی عمران خان کے مخصوص حوالے سے کانگریس میں بل ظاہر کرتے ہیں کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ”ماہرین“ کو پاکستان میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزی پر جو ”تشویش“ لاحق ہوئی ہے، وہ بے مقصد نہیں ہے۔ تاریخی حوالوں سے ظاہر ہے کہ ایسے ہی ماہرین کی رپورٹوں پر ماضی میں کئی مسلم ریاستوں کے خلاف امریکا جارحانہ اقدامات کر چکا ہے جس کی سب سے بڑی مثال عراق اور لیبیا ہیں۔ من گھڑت اور پروپیگنڈے پر مشتمل رپورٹوں کی آڑ لے کر ہی ان ممالک کے داخلی معاملات میں امریکا اپنے لاو لشکر سمیت گھسا اور ان ملکوں کا امن، سلامتی، معیشت، عوامی مفادات اور بچوں اور خواتین کا تحفظ سب کچھ تباہ کر دیا گیا۔
اگر ان نام نہاد ماہرین کو انسانی حقوق کی ایسی ہی فکر لاحق ہوتی تو سب سے پہلے انھیں ان مظلوم لوگوں سے ملاقاتیں کرنی چاہئیں تھیں جن کے پیارے روزی روٹی کی تلاش میں بلوچستان گئے اور بلوچ روایات کے مطابق ان کی مہمان نوازی کرنے یا ان کا خیال رکھنے کی بجائے پنجاب کی شناخت رکھنے کے جرم میں انھیں گولیاں مار دی گئیں۔ ایسے انسان دشمن درندوں اور احتجاج کی آڑ میں ان کی سہولت کاری کرنے والے عناصر کے خلاف اگر پاکستان کا قانو ن حرکت میں آتا ہے تو کم از کم اس کی عمل کی مخالفت سے گریز کرنا چاہیے کجا یہ کہ اسے انسانی حقو ق کی خلاف ورزی سے تعبیر کیا جائے۔ کیا قانون شکنی، راستوں کی بندش، ریاست مخالف پروپیگنڈا، شہری املاک کی بربادی اور احتجاج کی آڑ میں ملکی فوج کو نشانہ بنانا انسانی حقوق کے مطابق ہے؟ کیا اقوامِ متحدہ کے یہ ماہرین گزشتہ رات ہی ایک مسافر بس کو نشانہ بنانے والے دہشت گردوں کے خلاف ریاست پاکستان کے ساتھ تعاون کو ضروری قرار دیں گے؟ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان کے کروڑوں باشندوں کو پہنچنے والی اذیت، دکھ اور درد اور ان کی تکلیف کو بھی عالمی سطح پر اجاگر کیا جائے لیکن اقوامِ متحدہ کے ماہرین کی توجہ اس جانب مبذول نہیں ہوتی۔ انھیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ دہشت گردوں کی کارروائیوں سے ایک صوبہ ہی نہیں پورے ملک کے عوام کرب کا شکار ہیں۔ پاکستان کو ایسے نام نہاد ماہرین کی توجہ غزہ میں شہید ہونے والے معصو م بچوں کی جانب مبذول کروانی چاہیے جو کہ امریکی بموںکا شکار ہو رہے ہیں۔ اس قسم کے ماہرین دراصل دنیا میں فتنہ و فساد کو ہوا دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتے۔ اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ انسانی حقوق، آزادی اظہارِ رائے، جمہوریت اور انصاف ایسے نعرے ہیں جن کی آڑ لے کر امریکا اور اس کے اتحادی بالادستی، غلبے، وسائل پر تسلط اور اپنے مفادات کی راہ میں رکاوٹ بننے والی ریاستوں کو تباہ و برباد کرنے کا کھیل رچائے ہوئے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی صورت حال کے حوالے سے امریکی کانگریس میں بل پیش کرنے کی حرکت بھی ایک آزاد ریاست کے معاملات میں مداخلت ہے۔ یہ حرکت ظاہر کرتی ہے کہ امریکا الزامات کی آڑ میں پاکستان کے متعلق جارحانہ پالیسی کو بتدریج عمل میں لا رہا ہے۔ اس کی وجہ چین کے ساتھ پاکستان کے اقتصادی تعلقات، سی پیک اور بعض اہم عالمی امور میں امریکی ہدایات پر عمل نہ کرنا ہے۔ بلوچستان میں جاری تشدد، فتنہ و فساد اور انارکی کو افغانستان کی سرزمین سے ہوا مل رہی ہے۔ افغانستان اور امریکا کے درمیان حالیہ قربتوں سے یہ بات کھل جاتی ہے کہ پڑوسی ملک کو پاکستان میں انتشار، انارکی اور تخریب کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ بلوچ علیحدگی پسندوں کی حالیہ تحریک ماضی کی اسی پرتشدد قوم پرستی کا ایک تسلسل ہے جسے کابل سے وسائل مہیا کیے جاتے تھے۔ یہ علیحدگی پسندی نہ تو بلو چ عوام کے حقوق کا مسئلہ ہے اور نہ ہی یہ سرداروں کی اجارہ داری کو بحال کرنے کا کوئی ہتھکنڈا ہے۔ یہ بلوچستان کو پاکستان سے توڑنے کی مہم ہے جو کہ خود بلوچ عوام بھی نہیں چاہتے۔
یہ بات ضرور اہمیت رکھتی ہے کہ طاقت صرف مسلز کی قوت کا اظہار نہیں بلکہ اس کے ساتھ علم، ذہانت، حکمتِ عملی، گہری منصوبہ بندی اور درست فیصلوں کا استعمال بھی اہمیت رکھتا ہے تبھی ایک ریاست کی قوت درست معنوں میں ظاہر ہوتی ہے جیسا کہ جعفر ایکسپریس سانحہ کے موقع پر افواجِ پاکستان نے دہشت گردوں کے سامنے جھکنے کی بجائے اپنی پیشہ ورانہ مہارت کے ذریعے قوت کا اظہار کیا تھا۔ یہی حکمتِ عملی اس وقت فتنہ¿ خوارج اور افغانستان سے ملک میں داخل ہونے والے دہشت گردوں کے خلاف اختیار کرنے کی ضرورت ہے ورنہ فسادی عناصر خارجی قوتوں کی پشت پناہی سے تقویت پاکر ریاست کو گھٹنوں کے بل بٹھانے کی کوشش کریں گے۔ پاکستان میں سیاسی انارکی، قوم پرستی کے فتنے، علیحدگی کے رجحانات اور دہشت گردی کی پشت پناہی کر کے امریکا پاکستان کو اپنی مرضی اور مفادات کے مطابق اقدامات پر مجبور کرنا چاہتا ہے۔ ریاست کو اس موقع پر اپنے اعصاب کی مضبوطی کا ثبوت دینا چاہیے اور پاکستان کے خلاف دشمن قوتوں کی ابلاغی جنگ کے مقابلے میں جارحانہ اپروچ اختیار کرنا چاہیے ۔ ہارڈ ریاست کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ دشمن کو ہر محا ذ پر منہ توڑ جواب دیا جائے۔ پاکستان کو تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی حالات میں اسی طرح خبردار اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔