سائبر جاسوسی ہندوستان کی ففتھ جنریشن وارفیئر حکمت عملی کا ایک اور اہم پہلو ہے۔ ہندوستانی انٹیلی جنس ایجنسیاں، خاص طور پر ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ (را)پاکستانی حکام، فوجی اہلکاروں اور سرکاری ڈیٹا بیس پر وسیع پیمانے پر سائبر نگرانی کرتی ہیں۔ اس کا مقصد خفیہ معلومات اکٹھی کرنا اور پاکستان کی فوجی سرگرمیوں کی نگرانی کرنا ہے، خاص طور پر اس کی جوہری صلاحیتوں اور دفاعی نظام کے حوالے سے۔ مزید برآں پراکسی جنگ میں ہندوستان کی شمولیت پاکستان کے خلاف اس کے ففتھ جنریشن وارفیئر نقطہ نظر کا ایک اہم عنصر بنی ہوئی ہے۔
براہ راست تنازع میں ملوث ہونے کی بجائے ہندوستان پاکستان کے اندر باغی گروہوں، علیحدگی پسند تحریکوں اور دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کرتا ہے۔ یہ حکمت عملی اندرونی تنازعات کو فروغ دے کر اور اس کی مرکزی حکومت کے اختیار کو کمزور کر کے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ہندوستان پاکستان میں اور خاص طور پر غیر مستحکم صوبہ بلوچستان میں دہشت گردی کی تحریکوں کی حمایت کرتا ہے۔ یہ خطہ طویل عرصے سے شورش پسند تحریکوں سے دوچار رہا ہے۔ پاکستانی انٹیلی جنس ذرائع کی اطلاعات کے مطابق خیال کیا جاتا ہے کہ ہندوستانی کارکنوں خاص طور پر را کے گماشتوں نے صوبے کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش میں بلوچ باغیوں کو تربیت، مالی اعانت اور لیس کرنے میں کردار ادا کیا ہے۔
اقتصادی جنگ بھی ففتھ جنریشن وارفیئر کا ایک اہم جزو ہے اور ہندوستان اسے پاکستان کی معیشت کو کمزور کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ آزاد کشمیر میں پاکستانی فوج سمیت پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف سرکشی کو ہوا دینے کے لیے ہندوستان کا سوشل میڈیا کا استعمال علاقائی سیاست میں ایک نمایاں موضوع ہے۔ پاکستان اکثر ہندوستان کے ہائبرڈ جنگی ہتھکنڈوں کے استعمال کو بے نقاب کرتا ہے، جیسے کہ خطے کو غیر مستحکم کرنے اور پاکستان کی خودمختاری کو کمزور کرنے کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا فائدہ اٹھانا۔ انڈین کرانیکلز اور ای یو ڈس انفو لیب اس بات کے واضح ثبوت کے طور پر کام کرتے ہیں کہ ہندوستان پاکستان اور اس کے اداروں کو غیر مستحکم کرنے کے لیے بالواسطہ اور ہائبرڈ جنگی طریقوں کو استعمال کر رہا ہے جس میں آزاد جموں و کشمیر کے حساس علاقے کو نشانہ بنانا بھی شامل ہے۔
ماضی کے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان نے پاکستان کے خلاف براہ راست حکمت عملی کو نافذ کرنے کے لیے جدوجہد کی ہے، جس کی وجہ سے فینٹم اسٹرائیک حکمت عملی تیار ہوئی ہے۔ اس میں غلط معلومات پھیلانے، تقسیم کے بیج بونے اور آزاد کشمیر کے لوگوں میں بدامنی بھڑکانے کے لیے مربوط سوشل میڈیا مہمات چلانا شامل ہے۔ اس طرح کے حملے میں میڈیا کی ہیرا پھیری شامل تھی جبکہ دوسرا بالاکوٹ فضائی حملہ تھا۔ دونوں واقعات ہندوستان کی رسوائی کا باعث بنے کیونکہ زمینی سچائی نے اس کے جھوٹ کو بے نقاب کر دیا اور بالاکوٹ فضائی حملہ، جسے آپریشن بندرکا نام دیا گیا، ایک اسکینڈل بن گیا۔ براہ راست حملوں کے ذریعے کوئی اہم فائدہ حاصل کرنے میں ناکام ہونے کے بعد ہندوستان اب اس فینٹم حکمت عملی پر توجہ مرکوز کرتا ہے، جو براہ راست ٹکراؤ کے بغیر الجھن اور عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے بنائی گئی خفیہ کارروائیوں پر مرکوز ہے۔ بھارت مبینہ طور پر آزاد کشمیر اور بیرون ملک میں جعلی اکاؤنٹس، بوٹس اور مربوط نیٹ ورکس کا استعمال رائے عامہ میں ہیرا پھیری کرنے اور پاکستانی فوج اور ریاست آزاد کشمیر کے خلاف اختلاف رائے کا غلط بیانیہ پیدا کرنے کے لیے کر رہا ہے۔ اس حکمت عملی کا مقصد آزاد کشمیر کے اندر اور تارکین وطن کے درمیان ایسے ایجنٹوں کی بھرتی کرنا ہے جو سچائی کے بارے میں شکوک و شبہات کو فروغ دے سکتے ہیں اور جب میڈیا مہمات شروع کی جاتی ہیں تو ہندوستانی بیانیے کی حمایت کر سکتے ہیں۔ پاک فوج ان مربوط اور منظم مہمات کا بنیادی ہدف بنی ہوئی ہے۔ منڈھول، تیتری نوٹ اور نیلم گاؤں کے حالیہ واقعات جہاں برف کے گرنے کے واقعے کو عوامی سرکشی کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا تھا، اس بات کو اجاگر کرتے ہیں کہ کس طرح ہندوستان نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور اپنے ایجنٹوں کو جھوٹے بیانیے پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا ہے جو پاکستانی فوج پر اعتماد کو کمزور کرتے ہیں اور آزاد جموں و کشمیر میں اس کے کردار کے ساتھ ساتھ مقامی آبادی کے ساتھ اس کے بہترین سلوک کو غلط انداز میں پیش کرتے ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر میں کچھ اندرونی عناصر بھی بظاہر ہندوستان اور ہمارے مخالفین کے ایجنڈوں پر عمل پیرا ہیں۔ اس کی ایک مثال آزاد کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی کا طرز عمل ہے۔ ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی پر پابندی عائد کردی ہے جبکہ دوسری طرف آزاد کشمیر کی عوامی ایکشن کمیٹی بولنے اور احتجاج کرنے کے لیے آزاد ہے، تاہم ایسا لگتا ہے کہ وہ ریاست کی نرمی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اس آزادی کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ عوامی ایکشن کمیٹی احتجاج کے لیے غیر منصفانہ اور ناجائز مطالبات جاری رکھے ہوئے ہے اور اس نے رمضان کے بابرکت مہینے کے احترام کو بھی پامال کیا ہے۔
بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر حالیہ دہشت گردانہ حملے کے بعد مبینہ طور پر ملک دشمن سوشل میڈیا اکاؤنٹس گمراہ کن اور جھوٹے پروپیگنڈے پھیلانے میں ملوث تھے۔ خواتین اور بچوں سمیت بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنانے والے اس حملے میں ملوث دہشت گردوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بیرون ملک مقیم اپنے ماسٹر مائنڈ سے رابطے میں تھے۔ حملے کے تناظر میں، ان سوشل میڈیا اکانٹس نے عوام کو گمراہ کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت کی ویڈیوز، پرانی تصاویر، من گھڑت واٹس ایپ پیغامات کا استعمال کرتے ہوئے جعلی معلومات پھیلائیں۔ ہندوستانی میڈیا نے پاکستان سے باہر مقیم خود ساختہ مفرور بلوچ رہنماؤں کی نظر سے صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے ان غلط معلومات کو برقرار رکھنے میں کردار ادا کیا۔
اپنی فینٹم اسٹرائیک حکمت عملی کے ذریعے ہندوستان کا مقصد پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر میں مقامی شکایات کا فائدہ اٹھانا ہے اور یہ ایسی شکایات ہیں جو مقبوضہ کشمیر میں کہیں زیادہ ہیں جن میں معاشی چیلنجز اور انتظامی مسائل شامل ہیں۔ بھارت پاکستان اور پاکستانی فوج کے خلاف بڑے پیمانے پر عدم اطمینان کا غلط بیانیہ پیدا کرنے کیلئے سوشل میڈیا کے ذریعے ان مسائل کو بڑھانا چاہتا ہے۔ آزاد جموں و کشمیر میں یوم آزادی، یوم دفاع، یوم شہدا، یوم سیاہ اور یوم یکجہتی کشمیر کی تقریبات کا شاندار انعقادِ بھائی چارے، پیار، باہمی اعتماد اور احترام کے مضبوط اور اٹوٹ بندھن کی عکاسی کرتا ہے جو کشمیری اور پاکستانی اپنے اندر رکھتے ہیں۔ یہ تقریبات بڑے جوش و خروش کے ساتھ منائی جاتی ہیں جو لوگوں کے درمیان اتحاد کو ظاہر کرتی ہیں۔ آزاد کشمیر کے لوگ حقیقی معنوں میں مقبوضہ کشمیر کے اپنے ساتھی کشمیریوں کے لیے آزادی اور خوشحالی چاہتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے موجودہ وزیر اعلی خود بی بی سی کے اسٹیفن ساکر کے ساتھ ایک انٹرویو میں تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے اختیارات محدود ہیں، جبکہ مقبوضہ کشمیر میں گورنر کے پاس وائسرائے کی طرح کے مطلق اختیارات ہیں۔ لوگ ان بدنیتی پر مبنی اقدامات کو سختی سے مسترد کرتے ہیں اور بین الاقوامی برادری پر زور دیتے ہیں کہ وہ ہندوستان کو جوابدہ ٹھہرائے، پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر میں مداخلت بند کرے اور خطے کو غیر مستحکم کرنے کی گھناؤنی کوششوں کو بند کرے۔