لہو ہمارا بُھلا نہ دینا !

تحریر: اقصیٰ جہادی 
دُنیا کی چکاچوند میں گم، پُرتعیش زندگیوں میں مگن انسان شاید ہی کبھی ٹھہر کر سوچے کہ زمین کے کسی کونے میں ایسے لوگ بھی بستے ہیں جن کی صبح زندہ لاشوں کے درمیان ہوتی ہے اور شام ملبوں کے بیچ گزر جاتی ہے۔ جہاں آسمان پر اُڑتے طیاروں کی گھن گرج بچوں کے دل دہلا دیتی ہے، جہاں ماوں کی گودیں پلک جھپکتے میں اُجڑ جاتی ہیں، جہاں بزرگوں کے سہارے چھن جاتے ہیں اور جہاں دن کی روشنی موت کی خبر لاتی ہے …. جی ہاں وہ زمین، زمینِ غزہ ہے!!
غزہ وہی مظلوم مگر عظیم خطہ جس کی مٹی بار بار شہیدوں کے لہو سے رنگین ہوتی ہے۔ جہاں زندگی کی سانسیں رکی رکی، ڈری ڈری چلتی ہیں اور موت در و دیوار پر ہر وقت دستک دیتی ہے۔ یہاں کے مکینوں نے رونا سیکھا ہے مگر شکوہ نہیں کیا، آنسو بہائے ہیں مگر مایوسی نہیں پیدا ہونے دی۔ ان کے ہونٹوں پر آج بھی ”اللہ اکبر“ کی صدائیں ہیں، ان کی بندوقیں خالی سہی مگر ان کے حوصلے بھاری ہیں۔ ان کی آنکھوں میں آنسو ضرور ہیں مگر اُن آنکھوں کا خواب ابھی ٹوٹا نہیں۔ غزہ کے شہداء صرف زمین پر گرنے والے بے جان جسم نہیں، یہ زندہ قوموں کے ضمیر پر لگے سوالیہ نشان ہیں۔ وہ معصوم بچے جو کمر پر اسکول بیگ لے کر نکلتے ہیں اور واپسی پر سفید کفن اوڑھ لیتے ہیں، وہ ماں جو ایک کے بعد دوسرا بیٹا دفناتی ہے، مگر اُس کی زبان پر حرفِ شکایت نہیں آتا، وہ نوجوان جو ہاتھ میں پتھر لیے ٹینکوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ سب ہمیں جھنجھوڑنے آئے ہیں۔ یہ ہمیں یاد دلانے آئے ہیں کہ ہم کتنے غافل ہوچکے ہیں۔ اُن کا خون ہمیں پکار رہا ہے، اُن کی قربانیاں ہمیں جھنجھوڑ رہی ہیں کہ …. لہو ہمارا بھلا نہ دینا!
یہ صرف ایک جذباتی نعرہ نہیں بلکہ ایک روحانی تقاضا ہے۔ غزہ کے شہداء ہم سے سوال کرتے ہیں کہ ہم نے کیا کیا؟ ہم نے اُن کی پکار پر کان دھرے؟ اُن کے لیے اپنی دعاوں میں آنکھیں نم کیں؟ اُن کے حق میں قلم اٹھایا؟ ان ظالم قوتوں کے خلاف کوئی آواز بلند کی؟ یا پھر صرف سوشل میڈیا پر تصویریں دیکھ کر ”افسوس“ لکھ کر اپنی ذمہ داری پوری سمجھ لی؟ کیا ہم نے ان مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جن کا منافع براہِ راست ان ظالموں کی جنگی مشینری کو جاتا ہے؟ کیا ہم نے اپنے بچوں کو فلسطین کا سچ بتایا؟ کیا ہم نے کبھی اپنے ضمیر سے سوال کیا کہ اگر ہم آج خاموش رہے تو کل ان شہیدوں کے خون کا جواب کیا دیں گے؟ ان کا لہو صرف بہہ نہیں رہا، وہ بول رہا ہے، چیخ رہا ہے۔ ان کے جسم مٹی تلے دب گئے مگر اُن کے الفاظ ہوا میں تیر رہے ہیں: ”ہم نے اپنی جان دے دی، ہم نے اپنے خواب، اپنے مستقبل، اپنی نسل، اپنی ہنسی، اپنے کھیل، سب قربان کر دیے مگر تم نے کیا کیا؟“
ہمیں اب صرف افسوس سے کام نہیں چلانا۔ ہمیں اب اٹھنا ہوگا۔ ہمیں اپنے اپنے حصے کی شمع جلانی ہوگی۔ جو زبان رکھتے ہیں وہ بولیں، جو قلم رکھتے ہیں وہ لکھیں، جو سرمایہ رکھتے ہیں وہ صرف کریں، جو جو پلیٹ فارم رکھتے ہیں وہ استعمال کریں۔ ہمیں دنیا کو یہ باور کرانا ہوگا کہ غزہ اکیلا نہیں۔ ہمیں اُن کے زخموں پر صرف لفظوں کا مرہم نہیں رکھنا بلکہ ان کی تکلیف کو اپنا درد بنانا ہوگا اور سب سے بڑھ کر ہمیں اپنے رب سے لو لگانی ہوگی، کیونکہ اصل قوت تو اسی کے پاس ہے۔ غزہ کے معصوم چہروں نے ہمیں صبر، قربانی اور حوصلے کا مطلب سکھایا ہے، اب ہمیں اُن کے لہو کے ساتھ وفا کرنی ہے۔ ہمیں اُن کے نام کو زندہ رکھنا ہے۔ ان کی آواز کو دبنے نہیں دینا۔ اگر ہم واقعی اپنی غیرت، اپنے ایمان، اپنی انسانیت کا ثبوت دینا چاہتے ہیں تو اب بھی وقت ہے۔ وقت ہے کہ ہم اُن کی اس پکار کو، اُن کی اس آخری التجا ”لہو ہمارا بھلا نہ دینا“ کو سنیں۔ یہ لہو تم سے تمہارا ضمیر مانگتا ہے، تمہاری ہمدردی، تمہارا قدم، تمہاری آواز۔ مت بھولو کہ کل جب تاریخ لکھی جائے گی تو ہر وہ انسان جس نے ان مظلوموں کا ساتھ دیا سرخرو ہوگا اور جو خاموش رہا، وہ مجرموں کی صف میں کھڑا دکھائی دے گا….!!