غزہ کی آگ میں اقوام متحدہ کا جھلستا وجود

غزہ میں اسرائیلی فوج کی وحشیانہ بمباری کا سلسلہ کئی دنوں سے جاری ہے اور اس کے نتیجے میں سینکڑوں معصوم فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ فلسطینی وزارت صحت کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق صرف گزشتہ 48 گھنٹوں میں 130 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، جبکہ رفح سمیت غزہ کے دیگر علاقوں میں اسرائیلی افواج کی پیش قدمی کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینی بے گھر ہوگئے ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ اسرائیل کی جارحیت سے اقوام متحدہ کے ادارے بھی محفوظ نہیں رہے، ہفتے کے روز تازہ بمباری میں اقوام متحدہ کے پانچ کارکن بھی مارے گئے۔ اس کے باوجود انسانی حقوق کی علمبردار عالمی برادری بالخصوص مغربی طاقتیں تاریخ کے اس بدترین ظلم و جبر پر مہر بہ لب ہیں، جبکہ عالم اسلام پر مراکش سے کاشغر تک مُردنی چھائی ہوئی ہے۔ غزہ میں جاری اسرائیلی سفاکی و درندگی کے دوران مسلم دنیا پر خوف و دہشت میں لپٹی عین وہی مہیب خاموشی طاری ہے جو ہلاکو خان کے ہاتھوں سقوط بغداد کے وقت دیکھنے میں آئی تھی۔ مسلم ریاستیں امریکا اور اسرائیل کے خوف و دہشت سے منقار زیر پر ڈالے بے بسی سے فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام دیکھ رہی ہیں اور کسی میں ہمت نہیں کہ آگے بڑھ کر اس ظلم و سفاکیت کو روکنے کیلئے کوئی راست اقدام کرے۔

اسرائیل کی جارحیت صرف قتل و غارت تک محدود نہیں، بلکہ اس نے فلسطین اور غزہ کے بنیادی انتظامی ڈھانچے کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔ عرب میڈیا کی رپورٹس کے مطابق غزہ کا واحد کینسر اسپتال جو ترکیہ کی مالی امداد سے تعمیر کیا گیا تھا، اسرائیلی حملے میں مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ یہ اسپتال سالانہ دس ہزار مریضوں کو علاج فراہم کرتا تھا، مگر اسرائیل نے اسے نشانہ بنا کر نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑائیں بلکہ انسانی ہمدردی کے تقاضوں کو بھی پامال کر دیا۔ اس کے علاوہ اسرائیل مغربی کنارے میں بھی فلسطینی عوام کی نسل کشی کے عمل کو جاری رکھے ہوئے ہے، جہاں روزانہ فوجی چھاپے، غیر قانونی بستیاں اور زمینوں پر قبضے جیسے مظالم ایک معمول بن چکے ہیں۔ اس صورتحال پر اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے خطاب کرتے ہوئے نہ صرف اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت کی بلکہ عالمی اداروں پر زور دیا کہ وہ فوری طور پر اسرائیلی ظلم کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کریں۔ انہوں نے بجاطور پر سلامتی کونسل سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ غزہ اور مغربی کنارے میں جاری اسرائیلی جارحیت کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے۔

اسرائیل کا وجود دو بڑے دعوؤں پر قائم کیا گیا ہے، ایک یہ کہ فلسطین یہودیوں کی ”ارض موعود” ہے، جس کا ان سے خدا نے وعدہ کیا ہے، جس کی بنیاد پر ارض فلسطین ان کا ابدی وطن ہے اور دوسرا دعویٰ یہ کہ نازی جرمنی کے ہاتھوں پہلی جنگ عظیم کے بعد یہودیوں کا ہولوکاسٹ (قتل عام) ہوا، جس سے دنیا میں یہودیوں کا وجود مستقل خطرے میں پڑ گیا، چنانچہ ان کے وجود کی بقا کیلئے ان کا ایک الگ وطن ضروری ہے، لیکن ان دونوں دعوؤں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ”ارض موعود”کا نظریہ محض ایک افسانوی خیال ہے، جسے دنیا کے کسی بھی قانون کے آئینے میں درست اور جائز ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بھلا کیسے ممکن ہے کہ ہزاروں سال قبل کے اساطیر کو بنیاد بنا کر نیا جغرافیہ وجود میں لایا جائے۔ اگر اس طرح دنیا کے جغرافیے میں تبدیلی ہونے لگی تو دنیا کا موجودہ نقشہ ہی مٹ جائے گا اور سرحدوں کی لکیروں کو از سر نو ترتیب دینا ہوگا۔ اسی طرح ہولوکاسٹ کا سہارا لے کر فلسطینیوں کی زمین پر قبضہ کرنا کسی بھی منطق یا انصاف کے اصول کے تحت قابل قبول نہیں ہے۔ یہ کیسی منطق ہے کہ نازی جرمنوں کے مبینہ ظلم کی سزا فلسطینیوں کو دی جائے؟ انصاف اور عقل کی بات یہ تھی کہ یہودی اپنا مقدمہ عالمی عدالت میں پیش کرتے، جہاں شواہد کی بنیاد پر ہولوکاسٹ کے ان کے دعوے کو پرکھ کر اس کی روشنی میں جرمنی سے انصاف لیا جاتا۔ایک یکطرفہ دعوے اور الزام کو بنیاد بنا کر یورپ اور افریقہ کے یہودیوں کو فلسطین پر لا بسانے کا بھلا کیا جواز ہوسکتا ہے؟ اگر یہ سب درست بھی مان لیا جائے تو پھر گزشتہ پون صدی میں اسرائیل نے جو ظلم فلسطینیوں پر ڈھایا ہے، وہ ہولوکاسٹ سے بھی زیادہ ہوچکا ہے۔

ماضی کا ہولوکاسٹ ایک مبہم داستان ہے، مگر آج اسرائیل فلسطینیوں کا جو ہولوکاسٹ جاری رکھے ہوئے ہے، وہ پوری دنیا کے سامنے آشکار ہے۔ مغربی طاقتیں لاکھ کوشش کریں کہ اسرائیلی ظلم و ستم کو کسی بھی عنوان سے جواز فراہم کریں، مگر سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تصاویر اور ویڈیوز عالمی طاقتوں کے اس دوہرے معیار کو مسلسل بے نقاب کر رہی ہیں۔ اگر دوسری جنگ عظیم کے بعد یہودیوں کو ہولوکاسٹ کی بنیاد پر اسرائیل کے نام پر پناہ دی گئی، تو کیا آج فلسطینیوں کی حالت زار کسی ہمدردی کے قابل نہیں؟ یہ سوال اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کیلئے لمحہ فکریہ ہے، بالخصوص یہ برطانیہ کی ذمے داری ہے کہ اس نے محض اساطیری کہانیوں پر یقین کرکے جس خونخوار گروہ کو فلسطین پر مسلط کیا ہے، اسے فلسطینیوں کے قتل و خون سے روکے۔ اقوام متحدہ کا مقصد وجود دنیا میں قیام امن تھا، غزہ کی آگ نے ثابت کردیا ہے کہ اقوام متحدہ اپنا مقصد وجود کھو چکا ہے۔

پاک افغان تعلقات میں مثبت پیشرفت

پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کے بعد دوبارہ روابط بحال ہونا مثبت پیش رفت ہے۔ پاکستان کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان صادق خان اور افغان وزیر خارجہ ملا امیر متقی کی ملاقات میں باہمی تعلقات، مہاجرین کی باوقار واپسی اور تجارتی رکاوٹوں کے خاتمے پر بات چیت ہوئی۔ اسی دوران طورخم بارڈر کا کھلنا بھی ایک خوش آئند قدم ہے، جس سے دونوں ممالک کے عوام کو براہ راست فائدہ پہنچے گا۔پاکستان اور افغانستان کی معیشتیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں، چنانچہ تجارتی رکاوٹیں دونوں کیلئے نقصان دہ ہیں۔ افغانستان کی سلامتی پاکستان کے مفاد میں ہے، جب کہ پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات افغان معیشت کی بہتری کیلئے ضروری ہیں۔ بار بار تجارتی راستوں کی بندش نہ صرف عوام کیلئے مشکلات پیدا کرتی ہے بلکہ دونوں ممالک کے تاجروں اور معیشت پر بھی منفی اثر ڈالتی ہے، لہٰذا اعلیٰ سطحی مذاکرات کا تسلسل ضروری ہے تاکہ غلط فہمیوں کو دور کرکے تجارت، ٹرانزٹ اور سیکیورٹی کے مسائل حل کیے جا سکیں۔