یہ بیسویں صدی کا واقعہ ہے، مشہور فرانسیسی فلسفی رینے گینوں جامعہ ازہرگئے، وہاں ان کی ملاقات شیخ مصطفی عبدالرزاق سے ہوئی، ملاقات کے دوران رینے گینوں نے سوال کیا: ”میںنے دنیا کی تمام بڑی کتابیں پڑھی ہیں لیکن مجھے کوئی ایسی کتاب نہیں ملی جو وقت کے ساتھ پرانی نہ ہو ئی ہو، علم بدلتا رہتا ہے، نظریے متروک ہو جاتے ہیںاور کتابیں لائبریریوں میں دھول چاٹتی رہتی ہیں، کیاآپ کسی ایسی کتاب کے بارے نشان دہی کر سکتے ہیں جو آج بھی زندہ ہے؟” شیخ نے مسکراتے ہوئے قرآن اٹھایا اور کہا: ”یہ کتاب چودہ سو سال سے نہ صرف محفوظ ہے بلکہ آج بھی دنیا کے ہر زندہ سوال کا جواب فراہم کرتی ہے۔”
رینے گینوں نے اس کے بعد قرآن کا مطالعہ شروع کردیا، اس نے قرآن کے مختلف تراجم منگوائے، اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا اور جدید سائنسی و فلسفیانہ نظریات سے اس کا موازنہ کیا۔ مہینوں تحقیق کے بعد رینے گینوں نے شیخ مصطفی عبدالرزاق سے کہا:”یہ کتاب واقعی حیرت انگیز ہے! میں جتنا اس کی گہرائی میں اترتا رہا یہ اتنی ہی روشن ہوتی گئی، کیا یہ واقعی چودہ سو سال پرانی ہے؟” شیخ نے مسکرا کر جواب دیا: ”یہی تو اس کا اعجاز ہے!”
قرآن محض ایک مذہبی کتاب نہیں بلکہ ایسا متن ہے جس کے بیان کردہ حقائق انسانی علم کی حدود سے ماورا ہیں۔ آج دنیا کائنات کے جن رازوں کو جاننے کی کوشش کر رہی ہے قرآن نے سینکڑوں سال پہلے واضح کر دیے تھے۔ کائنات کی تخلیق کے حوالے سے قرآن نے جو حقائق ساڑھے چودہ سو سال پہلے بیان کیے جدید سائنس بگ بینگ تھیوری کے نام سے آج ان کی تصدیق کر رہی ہے۔ قرآن نے کائنات کے مسلسل پھیلنے کی بات کی تو بیسویں صدی کی جدید سائنس نے اس کو شواہد کے ساتھ ثابت کردیا۔ پانی سے زندگی کی شروعات کا قرآنی نظریہ جدید بائیولوجی میں تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ اسٹینلے ملر اور ہیرالڈ یوری نے 1953میں تجربے سے ثابت کیا کہ ابتدائی زمینی ماحول میں موجود گیسوں سے امینو ایسڈز بن سکتے تھے جو زندگی کی بنیادی اکائیاں ہیں۔ سورج کی حرکت کے متعلق ناسا اوریورپی خلائی ایجنسی ثابت کر چکی ہیں کہ سورج ملکی وے کہکشاں کے ایک مخصوص مدار میں تقریباً 828,000کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گردش کر رہا ہے۔ انسانی تخلیق اور ایمبریالوجی کے معروف سائنسدان ڈاکٹر کیتھ مورنے قرآن میں مذکور انسانی نشوونما کے مراحل کو جدید سائنسی تحقیق کے عین مطابق قرار دیا۔
تاریخی اعتبار سے مصر کے فرعون کی ممی کا 1898میں دریافت ہونا ایک حیرت انگیز واقعہ تھا۔ 1975میں فرانسیسی ماہر طب ڈاکٹر مورس بکائے نے اس ممی کا تجزیہ کیا اور دریافت کیا کہ یہ شخص سمندر میں ڈوب کر مرا تھا جو تاریخی اور سائنسی دونوں حوالوں سے حیران کن تھا۔ ان تحقیقات کو مزید وسعت دیتے ہوئے انہوں نے قرآن، بائبل اور سائنس نامی کتاب لکھی جس میں انہوں نے قرآن کی تاریخی اور سائنسی سچائیوں پر بحث کی۔
رومی سلطنت کی فتح سے متعلق معروف مؤرخ ایڈورڈ گبن نے اپنی مشہور کتاب زوال مغرب میں ذکر کیا کہ رومیوں کو اہل فارس کے خلاف 613ـ614عیسوی میں شکست ہوئی تھی لیکن 622میں وہ دوبارہ غالب آ گئے تھے۔ یہ تاریخی حقیقت ایک غیر معمولی واقعہ ہے جو قرآن نے سینکڑوں سال قبل بیا ن کردیا تھا۔ جدید جینیات اور ڈی این اے کا علم قرآن کے بیانات کی تصدیق کرتا ہے۔ قرآن میں انسانوں کے دوبارہ زندہ ہونے کا تذکرہ بار بار کیا گیا ہے اور کفار مکہ کو اس پر بہت اعتراض تھا اور وہ کہا کرتے تھے جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں گے تو کون ہمیں دوبارہ زندہ کر ے گا۔ بائیولوجی اور جینیات میں ہونے والی ترقی کے بعد سٹیم سیلز اور کلوننگ جیسے تصورات نے واضح کردیا ہے کہ زندگی کو دوبارہ پیدا کرنا ممکن ہے۔
معروف برطانوی ماہر طبیعیات راجر پینروز کیConsciousness Quantum تھیوری کے مطابق انسانی شعور کو کوانٹم میکینکس کی مدد سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے اور دوبارہ بحال کیا جا سکتا ہے۔ ماضی کے واقعات کے حوالے سے ممکن ہے کوئی توجیہ پیش کردی جائے مگر قرآن مستقبل کے حوالے سے بھی پیش گوئیاںکرتا ہے۔ قیامت کا ذکر کرتے ہوئے قرآن نے بتایا ہے کہ زمین لرز اٹھے گی، پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے اور آسمان پھٹ جائے گا۔ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ زمین کی اندرونی پرتوں میں موجود میگما اور پلیٹ ٹیکٹونکس کی حرکت کسی وقت بھی شدید زلزلوں اور آتش فشانی سرگرمیوں کو متحرک کر سکتی ہے جس سے زمین کی سطح تبدیل ہو سکتی ہے۔ ناسا اور دیگر خلائی ایجنسیوں کی تحقیق کے مطابق سورج ایک دن اپنی توانائی کھو دے گا جو کائناتی تباہی کا سبب بنے گا۔
یہ سب حقائق اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ قرآن کسی انسان کا بنایا ہوا کلام یا محض تاریخی اور فلسفیانہ متن نہیں بلکہ ایک ایسی کتاب ہے جو وقت کی قید سے ماورا سچائیوں کو آشکار کرتی ہے۔ قرآن کا یہ انداز بیان واضح کرتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی ایسی ذات موجودہے جو عالم الغیب ہے۔ سائنسی دریافتیں جتنی بڑھتی جائیں گی قرآنی بیانات کی صداقت اتنی واضح ہوتی چلی جائے گی۔ یہی وہ پہلو ہے جو قرآن کو ایک زندہ معجزہ ثابت کرتا ہے اور انسانی عقل کو اس کے خدائی ہونے پر غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ اگر یہ کسی انسان کا کلام ہوتا تو کون سا ایسا طاقتور اور عالم الغیب انسان ہے جو اربوں سال قبل کے واقعات جیسے کائنات کی ابتدا، زمین کی تشکیل اور زندگی کے آغاز کو اس قدر تفصیل سے بیان کر سکتا ہے؟ اورجو اربوں سال بعد پیش آنے والے واقعات جیسے کائنات کی تباہی، زمین کا خاتمہ اور دوبارہ زندہ ہونے کی درست پیش گوئی کر سکتا ہے؟ جبکہ تاریخ کے صفحات پر یہ شہادتیں بکھری پڑی ہیں کہ انسانی علم ہمیشہ محدود رہا ہے۔ اگر یہ کسی انسانی ذہن کی کارفرمائی ہوتی تو اس میں اس قدر درستگی کے ساتھ تاریخی اور کائناتی حقائق کا اندراج ممکن نہیں تھا۔ یا اگر کوئی انسان بتکلف ان حقائق کو گھڑ بھی لیتا تو اس میں موجود معلومات وقت گزرنے کے ساتھ غلط ثابت ہو جاتیں۔
قرآن میں مذکوریہ حقائق ایک ایسے عالم الغیب کی نشاندہی کرتے ہیں جو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ جس کے لیے وقت اور مکان کی کوئی حد نہیں اور جو ہر ظاہر و پوشیدہ حقیقت کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اس لیے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ آج مذہب اور خدا کے وجود پراگر کوئی حتمی دلیل دی جا سکتی ہے تو وہ قرآن ہے۔ اگر ایک کتاب مسلسل وقت کے ساتھ اپنی صداقت ثابت کرتی چلی آ رہی ہے تو اسے کیسے جھٹلایا جا سکتا ہے؟ اگرکوئی کتاب ایسے سائنسی اور تاریخی انکشافات کرے جو انسانوں کی دریافت سے بہت پہلے موجود ہوں یا کوئی کتاب مستقبل کے ایسے حقائق کی نشان دہی کرے جنہیں آج کی جدید سائنس ناممکنات میں شمار کرتی ہو تو کیا یہ اس کتاب کے الہامی ہونے کی ناقابلِ تردید دلیل نہیں؟ آج کا ملحد اگر خالص علمی اور سائنسی بنیادوں پر قرآن کے معجزے پر غور کر لے تو وہ لازمی طور پر خدا کو پا لے گا اور اس پر مذہب کی حقانیت واضح ہو جائے گی۔