مکہ مکرمہ میں ایک دن

برادر مکرم شہید اسلام مولانا حامد الحق کی اچانک جدائی نے ہلا کر رکھ دیا۔ ابھی تک ذہن ان کی رحلت کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صبر و اجر اور خیر سے نوازے۔ احقرنے شعبان المعظم میں ہی عمرے کا ویزہ فاضل حقانیہ مولانا مفتی عطاء المحسن سے لگوانے کا کہا تھا جنہوں نے 12فروری کو بحمدللہ ویزہ لگنے کی خوشخبری دے دی۔ 42ہزار کا عام ریٹ تھا لیکن انہوں نے از راہ محبت 33ہزار بھیجنے کا کہا۔ فجزاہ اللّہ خیرا۔ جن دنوں ہم نے ویزہ اپلائی کیا اس وقت ایئر لائن ٹکٹ ایک لاکھ 75ہزار کے مارکیٹ میں چل رہے تھے، گویا سال گزشتہ سے 40ہزار کا فرق تھا۔ ویزہ کا مرحلہ طے ہوا تو میں نے مفتی صاحب کو ٹکٹ کا بتایا کہ چونکہ فرزندم حافظ معز الحق حقانی تراویح میں قران مجید سنائے گا اور اس سے فراغت 16رمضان تک ہو جائے گی لہٰذا 17رمضان یا 18کا ٹکٹ کروا دیں۔ انہوں نے مارکیٹ میں چیک کرنے کے لیے دو تین دن مہلت مانگی اس طرح ہم انتظار کرتے رہے۔

اسی دوران 28فروری کو جامع مسجد شیخ الحدیث مولانا عبدالحق میں ہونے والے دھماکے کا سانحہ پیش آگیا۔ اس کے بعد تو میں شدت غم میں سب کچھ بھول گیا اور پھر مہمانوں کے سلسلہ میں مصروف ہو گیا۔ رمضان میں بلا مبالغہ سینکڑوں لوگ دور دراز سے تعزیت کے لیے آرہے تھے۔ دو ہفتے اسی میں گزر گئے۔ غم کی شدت کو ہلکا کرنے اور دل کو سکون دلانے کی غرض سے 13مارچ پھر عمرہ کا عزم کیا۔ ایجنٹ سے رابطہ کر کے 18 مارچ کو سیٹ کنفرم کرنے کا کہہ دیا۔ 17رمضان کو معزّ الحق کا ختم قرآن پاک تراویح میں مکمل ہوا۔ والحمدللہ علی ذالک۔ ذہنی طور پر مکمل تیاری نہ تھی بنا بریں لازمی کام آخری دن تک نمٹانے میں لگا رہا۔ حقانی قبرستان میں دادا جان، والد محترم، عم مکرم اور برادر شہید کے مزارات پر فاتحہ خوانی کے لیے حاضری دی اور عصر کے وقت 13مارچ کو اسلام آباد روانگی ہوئی۔ افطار کی نوبت گاڑی میں اسلام آباد انٹرچینج پر آئی۔ اسلام آباد میں بہنوئی کے ہاں شام کا کھانا، تراویح وغیرہ ادا کر کے ساڑھے گیارہ بجے ایئرپورٹ کے لیے نکلے۔ 12بجے پہنچ کر بورڈنگ کے لیے قطار میں لگ گئے۔ ایئرپورٹ پر بہت رش تھا۔ آدھ گھنٹہ میں فارغ ہو کر لاؤنج میں داخل ہوئے جہاں کپڑے بدل کر احرام پہن لیا اور دو رکعت نفل ادا کیے۔

احرام کی نیت میقات پر کرنے کا عزم تھا اس لیے کہ بعض اوقات فلائٹ میں تاخیر ہو جاتی ہے یا جہاز کو کوئی ہنگامی لینڈنگ کرنی پڑ جاتی ہے جس سے احرام کی پابندیاں نبھانی لازمی ہوتی ہے۔ اس لیے کافی عرصہ سے یہی ترتیب رکھی ہے کہ جدہ سے آدھا گھنٹہ پہلے میقات پر نیت کرتا ہوں اور اپنے دوست احباب کو بھی یہی مشورہ دیتا ہوں۔ دو بجے فلائٹ تھی۔ یوں گھنٹہ قبل ہمیں طیارہ پر بھیجا گیا۔ جہاز میں کچھ سیٹیں خالی تھیں۔ میں وہاں لیٹ گیا لیکن پھر ایک مریض کے لیے وہ جگہ خالی کرنی پڑی۔ مجھے ایک جگہ دو خالی سیٹیں جہاز کے میزبان نے آگے دلا دیں جہاں کچھ دیر کے لیے آنکھ لگ گئی۔ سحری کا انتظام جہاز میں تھا۔ جہاز کا کھانا تو قوت لایموت ہوتا ہے۔ اکثر ہمارے پٹھان بھائی بیچارے گلہ کر رہے تھے۔ بہر صورت سحری کے بعد وضو بنایا اور جہاز میں نماز پڑھنے کی جگہ پا کر خوشی ہوئی کہ رب ذوالجلال کے در پر حاضری کا موقع میسر آیا۔ پھر اسکرین پر نظر پڑی تو پتہ چلا کہ 32 1:منٹ میں پہنچنے کے لیے باقی ہے جبکہ روزہ شروع ہونے میں دو تین منٹ باقی ہیں، جلدی جلدی بلڈ پریشر کی گولیاں لیں۔

فجر کا وقت ہو گیا تو پھر مصلی پر پہنچا اور وہاں بحمدللہ پانچ چھ آدمیوں کو جماعت سے نماز پڑھانے کا موقع ملا، پھر اپنی سیٹ پر آ کر معمولات فجر انجام دیے۔ اس دوران جہاز لینڈنگ کے لیے پر تولنے لگا۔ طیارہ 5:35پر زمین پر اتر گیا۔ سوا چھ بجے ہم ایئرپورٹ پر اتررہے تھے۔ وہاں سے ہمیں ٹرین کے ذریعے امیگریشن لاؤنج پہنچایا گیا۔ پاسپورٹ کنٹرول آفیسرز دور دور تک خواتین ہی نظر آرہی تھیں۔ میری رائے تو یہی ہے کہ سعودی حکومت کو حج اور عمرہ جیسے مقدس سفر پر آنے والے زائرین پر رحم کرنا چاہیے اور ہر جگہ خواتین کو بٹھانے سے بالخصوص اجتناب برتنا چاہیے۔ بہر صورت ہم نے انٹری لگوائی، پھر ایئرپورٹ سے نکلتے وقت ایس ٹی سی کا سم 70ریال پرنیٹ کے پیکج والا حاصل کیا تاکہ گھر میں خیریت سے پہنچنے کی اطلاع دی جاسکے۔ ایئرپورٹ سے نکلتے ہوئے دو گھنٹے لگ گئے۔ ساڑھے آٹھ بجے تہ خانے میں بسوں میں سوار ہو گئے۔ بس بھر گئی تھی لیکن ڈرائیور نظر نہیں آرہا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ سویا ہوا تھا، اسے جگاکرروانہ کیا گیا۔ پونے 10کے قریب مکہ مکرمہ کی شارع ابراہیم خلیل پر ہمیں اتار دیا۔ بس میں میرے ساتھ والے سیٹ پر ایئر فورس کے ایک ریٹائرڈ سکواڈن لیڈر بیٹھے تھے۔ جنہوں نے مجھے بتایا کہ وہ 21سال بعد آیا ہے۔ پہلے وہ حج پر آیا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ اب تو مکہ اور حرم میں بہت زیادہ تبدیلیاں آگئی ہیں۔ ہر سال ہم بحمداللہ آتے ہیں تو کوئی نہ کوئی تبدیلی ملاحظہ کرتے ہیں اور دو عشروں سے زیادہ عرصہ میں تو زمین و آسمان جیسا فرق آیا ہے۔ انہوں نے کہا جی ایسا ہی ہے، سب کچھ نیا لگ رہا ہے۔

میں نے تیس ریال پر ٹیکسی پکڑ کرہنداویہ شار ع متین کی طرف خانقاہ مولانا عبدالحفیظ مکی کا رخ کیا۔ صیدلیہ (میڈیکل سٹور) غایہ کے ساتھ مسجد امیر منصور کے عقب میں بیت عبدالحق میں یہ خانقاہ واقع ہے جو کہ ہر سال درجنوں علماء و مشایخ، طلبہ او ر دینی زعماء کا مسکن رہتا ہے۔ مولانا عبدالحفیظ مکی کے والد کا یہ مہمان خانہ بحمدللہ ان کے جملہ رفتگان کے لیے صدقہ جاریہ اور زندہ افراد کے لیے باعث عزت و سعادت و افتخار ہے۔ اس وقت یہاں کے انتظامی امور اور روحانی سلسلہ کی سربراہی مولانا عمر عبدالحفیظ کر رہے ہیں۔ مولانا عبدالرؤف، مولانا معاذ، ملک عبدالصمد، ملک محمد، ملک عبداللہ اور خاندان کے جملہ افراد یہاں مہمانوں کی ضیافت اور سہولت پہنچانے میں مگن نظر آتے ہیں۔ مجلس ذکر اور تراویح میں سارا رمضان قران مجید کے مصلے سنانے کا سلسلہ رہتا ہے۔ ساڑھے دس بجے صبح ہم خانقاہ کے دروازے پر داخل ہوئے۔ دروازے سے متصل دائیں طرف والا کمرہ جو گزشتہ تین سال سے میرا حرمین شریفین کے سفر کے دوران مسکن رہا، اس میں جھانک کر دیکھا تو مولانا سہیل چترالی چارپائی پر لیٹے آرام فرما تھے۔ انہوں نے مجھے دیکھ کر اٹھ کر استقبال کیا۔ سامان رکھ کر ان سے کہا کہ کمرے میں کون کون مقیم ہیں جس پر اس نے جواب دیا اپنے ہی لوگ ہیں، مولانا قاری عتیق الرحمن فرزند مولانا عزیز الرحمن ہزاروی رحمة اللہ علیہ گزشتہ رات افریقہ سے مدینہ منورہ ہوتے ہوئے پہنچے ہیں۔ اسی کمرے میں میں اور میرے بہنوئی فروکش ہو گئے۔ رات بھر کا سفر اور اس سے پہلے دن بھر کی بھاگ دوڑ نے بدن کو چکنا چور کر دیا تھا، لہٰذا بستر پر لیٹتے ہی نیند آگئی۔ ڈیڑھ بجے دوپہر کو قاری عتیق عمرے کی ادائیگی کے بعد کمرے پہنچے تو ان سے معانقہ کے لیے اٹھا۔ انہوں نے بے تکلف ہو کر آرام کرنے کا کہا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ حرم میں رش کی صورتحال کیسی ہے جس پر انہوں نے کہا کہ اگر ابھی چلے جائیں تو بہتر ہوگا، ورنہ پھر شام کو ساری رات رش سے واسطہ رہنے کا اندیشہ ہے۔ (جاری ہے)