دس ماہ قبل اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے بجٹ تجاویز پیش کرتے ہوئے حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمدات پر ریگولیٹری ڈیوٹی اور اضافی کسٹم ڈیوٹی جاری رکھی جائے۔ اس تجویز کی وجہ یہ تھی کہ ایسی گاڑیوں کی آمد سے مقامی گاڑیوں کی فروخت متاثر ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنی تجاویز میںدرآمدات کی حوصلہ شکنی کی اپیل کی تھی تاکہ ملکی صنعت کو تحفظ فراہم کیا جائے اور ملکی مفاد میں ایسی پالیسی اپنائی جائے جو معیشت کے طویل مدتی مفادات کو ترجیح دیتی ہو۔
درآمدی ڈیوٹی دراصل ایک قسم کا ایسا ٹیکس ہے جوان درآمدی اشیاء پر لگایا جاتا ہے جوکہ ملک میں بھی تیار ہوتی ہوں۔ ہمارے ہاں بے شمار اشیاء ایسی ہیں جو ملک میں ہی تیار ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود طبقہ اشرافیہ سوسائٹی میں اپنی ناک اونچی رکھنے کی خاطر امورٹڈ اشیاء کو سٹیٹس سیمبل کے طور پر استعمال کرتا ہے،یہ لوگ اپنے بنگلوں، کوٹھیوں، محل نما حویلیوں میں ایسے ایسے آرائشی سامان لگاتے ہیں جو اگر ملکی انڈسٹری کے خرید کر لگائے جائیں تو غیرملکی اشیاء کے مقابلے میں کہیں زیادہ اچھے پائیدار خوشنما نظر آئیں۔
اب آئی ایم ایف کے مطالبے پر درآمدی ڈیوٹیز کم کرنے کافیصلہ کیا گیا ہے۔اب یہ شرط تسلیم کرلی گئی ہے کہ درآمدی ٹیرف ایک تہائی کم کرکے 7.1فیصد تک لیا جائے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ ملکی صنعتیں اشیاء میں سے زیادہ تر مہنگی ہو جائیں گی کیونکہ ان کے مقابلے میں درآمدی اشیاء درآمدی ڈیوٹی میں کمی کی وجہ سے سستی فروخت ہوں گی ۔
پاکستانی حکام کو چاہیے کہ وہ امریکی صدر ٹرمپ کی پیروی کریں جوکہ انہوں نے غیرملکی سامان پر بھاری ٹیکس عائد کرنے کے سلسلے میں اپنایا ہوا ہے۔ پڑوسی ممالک کینیڈا، میکسیکو اور چین و بھارت کے علاوہ اب ان کی نظر یورپ پر بھی ہے۔ پاکستانی حکام کو ان کے اس امریکی مفاد کے فیصلے کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت سی اشیاء پر درآمدی ڈیوٹی میں اضافہ کردینا چاہیے تھا۔ امریکا میں ٹیکس غیرملکی اشیاء پر لگا دیا جائے تو اسے امریکی مفاد میں تصور کیا جاتا ہے اور پاکستان کو وہی لوگ جو امریکا سے ہی آئی ایم ایف کی طرف سے آتے ہیں، حکم دیتے ہیں کہ معیشت کو آزاد چھوڑ دیں، اسے لبرلائزیشن کی طرف لے کر جائیں ۔ غرض امریکا کے لیے معیار کچھ اور ہے اور ہمارے لیے کچھ اور ۔ اگر امریکا اپنے ملک کے مفاد میں اپنی صنعتوں کے تحفظ کے لیے ٹیکس عائد کر رہا ہے تو ہم اس کے زیادہ ضرورت مند ہیں۔ درآمدی ٹیکس اس لیے لگایا جاتا ہے کہ ملکی صنعت شیر خوارگی کے عالم میں ہوتی ہے۔ وہ بہت سے بیرونی دباؤ اور اب شدید ملکی مالی دباؤ کے زیر اثر ہے۔بجلی ،گیس ،پانی، سیکورٹی کے اخراجات، مزدوروں، ہنرمندوں، اسٹاف کی تنخواہوں میں اضافے اور دیگر بہت سی باتوں کے باعث ملکی مصنوعات پر لاگت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ان حالات میں اگر غیرملکی مصنوعات پر درآمدی ڈیوٹی میں اضافہ کرنے کے بجائے کمی کی جائے گی تو ملکی مصنوعات پٹ جائیں گی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ہر ملکی صنعت کو تحفظ دینے کے لیے ضروری ہے کہ درآمدی ٹیکس چارجز میں اضافہ کیا جائے تاکہ وہ ملکی اشیاء درآمدی اشیاء کے مقابلے میں سستی ہوں اور ان کی خریداری میں اضافہ ہو۔
بتایا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف کی لبرلائزیشن کی شرط تسلیم کرنے سے گاڑیاں سستی ہو جائیں گی۔ اس کا کس کو فائدہ ہوگا؟غریب کو تو اپنے بچے کے لیے دودھ سے بنی غذا جوکہ ابھی تک درآمدی استعمال ہو رہا ہے، وہ خریدنے کی سکت نہیں ہے۔ اسے تو گاڑیوں کے نام کا بھی پتا نہیں ہے۔ دراصل اس قسم کے فیصلوں سے ان صنعتی ممالک کا فائدہ ہوتا ہے جو کاریں بناکر برآمد کرتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کا یہ مسئلہ ہے کہ ان کے ہاں صنعتیں قائم ہیں لیکن معاشی اصطلاح میں بعض کو شیرخوار صنعتیں کہا جاتا ہے کیونکہ ان میں اتنی سکت نہیں ہوتی کہ وہ اپنی مصنوعات کے متبادل بیرونی مصنوعات کا مقابلہ کرسکیں لہٰذا انہیں شیرخوار قرار دے کر ان کی حفاظت کے لیے بہت سے دفاعی انتظامات کیے جاتے ہیں جن میں اول درآمدی ٹیکس عائد کیا جاتا ہے۔ پہلے پاکستان میں درآمد ہونے والی کئی اشیاء پر انہی اصولوں کو مدنظر رکھ کر 65فیصد کچھ پر 40فیصد بھی ٹیرف، چارجز، درآمدی ٹیکس وغیرہ عائد کرکے اسے مہنگا کرکے ملک میں آنے دیا جاتا تھا جس سے کمزور ملکی صنعت کو تحفظ حاصل ہو جاتا تھا۔ امریکی صدر نے بھی ملکی صنعتوں کے مفاد کی خاطر دیگر ملکوں کی اشیاء پر بھاری ٹیکس عائد کردیے ہیں۔ ان کا یہ فیصلہ ایک ماہر معاشیات صدر کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ یقینا صدر ٹرمپ کا فیصلہ امریکا کے طویل مدتی مفاد میں ہے تو پاکستانی حکام کو بھی اس پر غور کرنا چاہیے اور ملک میں غیر ضروری درآمدات پر بھاری ٹیکس لگانا چاہیے تاکہ ملکی مصنوعات کو تحفظ مل سکے۔