آج 23مارچ ہے اور رمضان کے مقدس مہینے کے احترام میں سادگی کے ساتھ ملک بھر میں سرکاری و غیر سرکاری سطح پر ”یوم پاکستان” منایا جارہا ہے۔ یہ دن ہمیں 1940ء کی اس تاریخی قرار داد کی یاد دلاتا ہے جس کے ذریعے برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں نے منٹو پارک لاہور میں جمع ہوکر اپنے لیے ایک آزاد اور خود مختار اسلامی ریاست بنانے کے عزم کا اظہار کیا تھا اور پھر ایک بھرپور اور لازوال جدوجہد کے ذریعے مملکت خداداد پاکستان کے قیام کی منزل حاصل کرلی تھی۔
آج 85سال بعد جب ہم قرار داد پاکستان کی یاد میں یوم پاکستان منارہے ہیں ،ہمارے لیے سوچنے کا مقام یہ ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اورکیا ہم نے ایک عظیم اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے اس خواب کی تعبیر پالی ہے جو ہمارے بزرگوں نے قرار داد پاکستان کی منظوری کے وقت دیکھا تھا؟ اور کیا ہم نے پاکستان جیسی اس عظیم نعمت کی قدر دانی کا حق ادا کیا ہے جو لاکھوں مسلمانوں کے لہو کے صدقے میں ہمیں عطا ہوئی تھی؟
آج یہ دن ایسے موقع پر آیا ہے جب وطن عزیز پاکستان کو داخلی، بیرونی، معاشی، سیاسی اور انتظامی سطح پر بڑے سخت چیلنجوں اور بحرانوں کا سامنا ہے۔ گوناگوں مسائل اور مشکلات نے قوم کے ہر فرد اور ملک کے ہر شعبے کو بری طرح اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے ۔ مشکلات اور مسائل نے اختلافات کو بڑھاوا دیا ہے، جس کے باعث اعضائے قوم میں تفریق کی خلیج بری طرح بڑھ چکی ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے شروع دن سے اس نظریے،عہد اور کاز سے انحراف کی پالیسی اختیار کی جس کی بنیاد پر یہ ملک بنایا گیا تھا۔نظریۂ پاکستان کا سادہ سا مطلب اور مفہوم یہی تھا کہ پاکستان میں اسلام کے زریں اصولوں اور آفاقی تعلیمات کی روشنی میں ایسا نظام بنایا جائے گا جس میں معاشرے کے تمام طبقات کو بغیر کسی امتیاز کے انصاف ملے گا،ملکی وسائل پر سب کو برابر کا حق دیاجائے گا،ریاست کی تمام اکائیوں کواعتماد کے رشتے میں باہم جوڑا جائے گا، ہر شعبے میں میرٹ اور اہلیت کی بنیاد پر فیصلے کیے جائیں گے اورہر قسم کے تعصبات اور امتیازات کا قلع قمع کیا جائے گا۔مگر افسوس کہ پا کستان بننے کے بعد ہم بحیثیت قوم اس عہد پر قائم نہ رہ سکے۔ہم نے اسلامی نظام کی جانب پیش رفت کرنے کی بجائے انگریزوں کے قائم کردہ اسی فرسودہ نظام کو ہی قائم ودائم رکھا جس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی خاطر لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جان و مال کی قربانی دی تھی۔نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑے ہی عرصے بعد مختلف طبقات کے درمیان بد اعتمادی اور خلفشار کی لہریں اٹھنے لگیں ،اقتدار کے ایوانوں کے اندر مفادات کی رسہ کشی اور محلاتی سازشیں ہونے لگیں جو محض چند برسوں کے اندر ہی ملک میں مارشل لاء لگنے اور آمریت و جمہوریت کی نہ ختم ہونے والی کشمکش کا باعث بن گئیں۔اس کا انجام بالآخر ملک کے دولخت ہونے کی صورت میں نکلا۔بد قسمتی سے اتنے بڑے سانحے کے بعد بھی ہمارے مقتدر طبقات راہ راست پر آنے کے لیے تیار نہیں ہوئے اور آج نصف صدی سے زائد کا عرصہ گزرجانے کے بعد بھی ہم دائرے کے سفر سے باہر نہیں آسکے ہیں۔آج بلوچستان اور خیبر پختونخوا میںجو حالات چل رہے ہیں،وہ چیخ چیخ کر ہمیں یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ملک کے تمام طبقات،حکمران،سیاست دان،جرنیل، جج ،علماء ،مذہبی قوتیں اورعوام الناس اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کریں اور مملکت خداداد پاکستان کو موجودہ انتشار و خلفشار سے بچاکر ایک مضبوط،متحد اور مستحکم ریاست بنانے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔
وطن عزیز کو اس وقت امن ا ور معاشی استحکام کی اشد ضرورت ہے۔ دشمن قوتیں پاکستان پر اندر اور باہر سے حملہ آور ہیں۔کہیں اسلام،جہاد اور شریعت کے نام پر کچے ذہن کے نوجوانوں کی غلط ذہن سازی کرکے انہیں ریاست کے خلاف بر پیکار کرنے کی کوششیں جاری ہیںتو کہیں حقوق کے نام پر کچھ محروم طبقات کو وفاق پاکستان سے بغاوت پر آمادہ کیا جارہا ہے۔دونوں قسم کی شورشوں کے پیچھے ایک ہی سازشی ہاتھ کار فرما ہے۔ملک میں آئے دن ہونے والے خود کش حملے اور تخریب کاری کی وارداتیں اسی سازشی نیٹ ورک کی کارستانی ہیں۔اس نیٹ ورک کو بے نقاب کرنے اور توڑنے کے لیے جہاں ریاستی اداروں ،خفیہ ایجنسیوں اور سیکیورٹی فورسز کافعال کردار مطلوب ہے،وہیں علماء کرام،میڈیا اور محب وطن سیاسی جماعتوں کو بھی ایک قومی و ملی فریضہ سمجھ کر اس سازش کے مقابلے میں میدان میں آنا چاہیے اور ریاست مخالف اور وفاق مخالف بیانیے کے توڑ کے لیے مؤثر جوابی بیانیہ سامنے لایا جانا چاہیے۔
دوسرا بڑا چیلنج جو اس وقت ہماری بقا کی جنگ کی صورت اختیار کر چکا ہے، وہ معیشت کا ہے، اس پہلو سے آج ملک جس سنگین اور گمبھیر مرحلے پر کھڑا ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس کے عناصر چند برسوں کی حکومتی نالائقی اور بد انتظامی نے فراہم نہیں کیے، یہ پوری پون صدی کی نابکاری اور غلط ترجیحات کے ساتھ کرپشن،، بد دیانتی اور بد انتظامی کا حاصل ہے، چنانچہ آج اس کمزور ترین معاشی صورتحال کے باعث نہ صرف یہ کہ وطن عزیز کے دشمنوں کے حوصلے بڑھ گئے ہیں، بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کا کوئی مقام اورعزت نہیں رہی ہے۔ بھاری سودی قرضوں نے قوم کے فرد فرد کا بال بال جکڑ لیا ہے۔ سماج میں بھوک، افلاس، غربت اور محتاجی کی گمبھیرتا تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ قوم کی بڑی تعداد کیلئے دو وقت کا کھانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے سفید پوشی کا بھرم بھی ختم کر دیا ہے اور خلق خدا بھوک و ننگ کے ہاتھوں مرگ انبوہ کی راہ پر گامزن ہے۔ ایک طرف قوم کی یہ حالت ہے، دوسری طرف ملک کے اقتدار اور اختیار پر قابض و مسلط اشرافیہ اور دو فیصد مراعات یافتہ طبقے کی ان مشکل ترین حالات میں بھی اللے تللے جاری ہیں۔ وزرا ء کرام کی تنخواہوںمیں خطیر اضافے کا تازہ فیصلہ اس کی ایک جھلک ہے۔ مقتدر طبقے کو دیکھ کر آج بھی اندازہ لگانا مشکل ہے کہ وہ کسی غریب، محتاج اور مقروض قوم سے تعلق رکھتے ہیں، ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ عیاش حاکم طبقہ ہی قوم کی غربت، نا آسودگی اور محتاجی کا ذمے دار ہے، قوم آج بھی اس طبقے کی عیاشیوں کی قیمت ادا کرنے پر مجبور ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری اشرافیہ کو اب کچھ خوف خدا کرنا چاہیے اور ملک کے پچیس کروڑ عوا م کے جذبات و احساسات کے ساتھ کھلواڑ بند کرنا چاہیے۔یوم پاکستان کا پیغام یہی ہے کہ پاکستان کی بقا و استحکام کا مدار اسی بات پر ہے کہ ملک کو اس کے اساسی نظریے کے مطابق انصاف اورمساوات کے اصولوں پر چلائا جائے اور موجودہ طبقاتی نظام کو ختم کرکے ایک حقیقی اسلامی فلاحی ریاست کی تشکیل ممکن بنائی جائے۔