دہشت گردی اور قومی بیانیہ

ذرائع ابلاغ سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق خیبرپختو ن خوا اور بلوچستان کے مختلف اضلاع میں دہشت گردوں کے حملے جاری ہیں۔ نوشکی میں فوجی کانوائے پر خود کش حملہ ہوا۔ کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے معروف عالم دین مولانا عبد الباقی کو دہشت گردوں نے شہید کردیا۔ ان کا تعلق جمعیت علماء اسلام سے تھا۔ مفتی منیر شاکر کی شہادت کے محض ایک دن بعد ہی یہ دوسرے عالم دین ہیں جو دہشت گردی کا شکار ہوئے۔ علاوہ ازیں چکوال کے قریب اہلِ حدیث مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والی ایک شخصیت کو بھی شہید کیا گیا جن کا مقبوضہ کشمیر کی ایک جہادی تنظیم سے تعلق بتایا جاتا ہے۔

مولانا حامد الحق حقانی کے بعد حالیہ دنوں کئی علماء دہشت گردوں کی زد میں آ چکے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ”را” کے اشارے پر داعش اور ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے پاکستان کی حد تک باہم اتحاد کر لیا ہے۔ کسی بھی ملک میں دہشت گردی اور امن ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے۔ دہشت گردی کی اس طوفانی لہر کو روکنے کے لیے ملک کی تمام قوتوں کو مشترکہ صف بندی کرنا ہوگی اور سرحد پار سے آنے والی اس خونی لہر کے سامنے بند باندھنا ہوگا ورنہ ظلم و فساد کا یہ طوفان ملک کی بنیادیں متزلزل کر سکتا ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ جنگ نہ ہی ملک میں نفاذِ شریعت سے متعلق ہے اور نہ ہی یہ حقوق کا کوئی معاملہ ہے۔ یہ بیرونی سرمایے، بیرونی ہدایات اور بیرونی مفادات کی خاطر لڑی جانے والی جنگ ہے جس کا واحد مقصد پاکستان کی شکست و ریخت کو یقینی بنانا ہے۔ وزیر اعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ نے بجا کہا ہے کہ دہشت گردوں کی ماں ”را”ہے جبکہ افغانستان کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔

دہشت گردی کی مسلسل وارداتوں سے صاف ظاہر ہے کہ ملک حالتِ جنگ میں ہے۔ مختلف نظریات اور مقاصد رکھنے والے دہشت گرد جنھیں پاکستان میں آسانی کے لیے فتنۂ خوارج سے تعبیر کیا جا رہا ہے، پاکستان کی سلامتی اور عوام کو تحفظ فراہم کرنے والے اداروں اور عوام کی نظریاتی تربیت اور انھیں کٹھن حالات میں شریعت کے مطابق عمل اختیار کرنے کی ہدایات دینے والے اہلِ علم کو اپنا اولین ہدف بنا چکے ہیں۔ اس کا مقصد واضح ہے کہ جب (خدانخواستہ) عوام کو تحفظ فراہم کرنے والے ادارے کمزور ہو جائیں گے، عوام کی نظریاتی رہنمائی کرنے والے اہلِ علم کی آواز مدہم پڑ جائے گی اور عوام بے بسی کی انتہائی کیفیت سے گزریں گے تو ملک میں فتنۂ و فساد کو خلفشار برپا کرنا آسان ہو جائے گا۔ ایسے حالات میں پاکستان کی معاشی مشکلات مزید بڑھ جائیں گی اور ملک ایسی کھائی کی جانب بڑھنے لگے گا جس سے نکلنا ممکن نہیں ہوگا۔

یہ امر قابلِ تحسین اور قابلِ تشکر ہے کہ فوج اور سیکورٹی ادارے بھی دہشت گردوں کے خلاف مکمل طورپر سرگرم عمل ہیں۔ خیبر پختونخوا کے دو اضلاع میں کرفیو نافذ کرکے جامع تلاشی شروع کر دی گئی ہے۔ مختلف مقامات پر چھاپوں اور مشکوک افراد کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ لاہور سے بھی خودکش حملے کی منصوبہ بندی کرنے و الے دہشت گرد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق مشتبہ افراد میں بڑی تعداد ان افغان شہریوں کی ہے جو غیر قانونی طورپر بغیر کسی شناخت نامے یا افغان شناخت کے ساتھ ملک میں بسے ہوئے ہیں۔ ملک میں ہونے والی دہشت گردوں کی کارروائیوں، سیاسی انارکی اور پر تشدد واقعات میں بعض افغان شہریوں کے ملوث ہونے کی وجہ سے حکومت نے آخرکار یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ تقریباً آٹھ لاکھ افغانیوں کو ملک بدر کر دیا جائے۔ اس کڑے فیصلے کی منطقی وجہ ظاہر ہے کہ اول تو ہر ملک کسی بھی غیر قانونی طورپر مقیم تارکِ وطن کو جِلا وطن کرنے کا اختیار و استحقاق رکھتا ہے، خود امریکا ہی جو کہ کسی وقت افغان مہاجرین کا سب سے بڑا سرپرست رہا ہے پڑوسی ریاست میکسیکو سے آکر غیر قانونی طورپر مقیم ہونے والے افراد کو واپس دھکیل رہا ہے لہٰذا امریکا یا کسی بھی ملک کو اس متعلق پاکستان کو ہدایات دینے کی ضرورت نہیں، ثانیاً یہ کہ ریاستی اداروں نے کے پا س اس امر کے ثبوت اور شواہد بڑی تعداد میں موجود ہیں کہ افغان شہری ملک دشمن، غیر قانونی اور دہشت گردانہ سرگرمیوں میں یا تو استعمال ہو رہے ہیں یا سہولت کاری کے مرتکب ہیں جو کہ ملکی سلامتی، عوام کے تحفظ اور ملکی معیشت کے لیے سنگین خطرہ ہے لہٰذا ملکی سلامتی کا تقاضا ہے کہ غیر قانونی طورپر مقیم افغانیوں کو پہلی فرصت میں واپس بھیجا جائے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ان افغان شہریوں کو بھی ان کے وطن کا راستہ دکھایا جائے جو کسی بھی حوالے سے ملک کے لیے مسئلہ بن سکتے ہوں۔

دہشت گردی کی روک تھام کے لیے ایک ضروری امر یہ ہے کہ خارجی ذہن تیار کرنے والے سرچشموں کا بھی تعین کیا جائے، ابلاغ کے وہ ذرائع جو کہ عوام کے ذہنوں میں نفرت کا زہر گھول رہے ہیں اور ریاست دشمن مواد کو عام کرنے کے لیے کوشاں ہیں دراصل دہشت گردی کے لیے نرسری کا کام انجام دے رہے ہیں۔ کوئی بھی ملک آزادیٔ اظہار کے نام پر اپنی روایات واقدار یا ریاست کے امن و سلامتی کو داؤ پر لگانے کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ صریح نااہلی ہے کہ دشمن کے پروپیگنڈے کو سہارا دینے والے عناصر کو کھلی چھوٹ دے دی جائے۔ افغان شہریوں کی وطن واپسی کا معاملہ ہو یا ریاست اور فو ج کے خلاف کسی لسانی، علاقائی یا مذہبی شناخت کو استعمال کرتے ہوئے منفی پروپیگنڈا کرنے والے عناصر ہوں، سب کو ایک قانونی دائرے میں لانا ضروری ہے۔ تاہم اس حوالے سے ظلم، ناانصافی اور بے اعتدالی سے گریز کیا جائے۔ ریاست کے وہ کردار جو کہ اپنے منصب و اختیار کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے رشوت و بدعنوانی کے ذریعے ملک دشمن عناصر کو مواقع فراہم کر رہے ہیں یا بے گناہ لوگوں پر ظلم کے مرتکب ہو رہے ہیں، دراصل ریاست اور حکومت کے بیانیے کے مجرم ہیں۔ عدل و انصاف اور قانون کا درست استعمال دہشت گردی کو تقویت فراہم کرنے والے افکار کا قلع قمع کرنے میں سب سے بڑھ کر مددگار ہو سکتا ہے۔

دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ دراصل ملکی سلامتی، تحفظ اور بقا کی جنگ ہے۔ دشمن ہمیں مشرقی و مغربی سرحدوں سے گھیر رہا ہے۔ افغانستان کی سرزمین اس وقت ”را” کا قلعہ بن چکی ہے۔ جامعة الرشید کے سرپرست اعلیٰ حضرت مفتی عبدالرحیم صاحب نے درست نشان دہی کی ہے کہ ایسا نہیں کہ افغان سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے بلکہ امر واقع یہ ہے کہ یہ دہشت گرد اس وقت افغان اعلیٰ حکام کی پراکسی وار لڑ رہے ہیں۔ ان حالات میں پوری قوم کا اتحاد وقت کی ضرورت ہے اور یہ کام صرف عسکری محاذ پر نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں ہونا چاہیے۔ علماء کرام کی شہادتوں سے لے کر ریاست مخالف زہریلے پروپیگنڈے تک ہر حوالے سے سیاسی و مذہبی جماعتوں کو ایک جامع قومی بیانیہ وضع کرکے اس پر عمل کو یقینی بنانا چاہیے ورنہ تکفیر مسلم سے لے کر مسلمانوں کے قتل کو جائز سمجھنے والے خارجی اس فتنے کو پھیلاتے چلے جائیں گے اوریہ پورا خطہ ہی زبردست انتشار کی لپیٹ میں آ جائے گا۔