اہلِ غزہ کی آباد کاری کے حوالے سے امریکی اور اسرائیلی منافقت ایک بار پھر عیاں ہوگئی ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق امریکا اور اسرائیل نے غزہ کے ستم رسیدہ باشندوں اور فرزندان زمین کو مشرقی افریقا میں بسانے کا ایک نیا اور شرمناک منصوبہ تیار کیا ہے، جس کے تحت سوڈان، صومالیہ اور صومالی لینڈ کے حکام سے رابطہ کیا گیا ہے۔ یہ منصوبہ دراصل فلسطینیوں کو ان کی ملکیتی آبائی سرزمین سے بے دخل کرنے اور اسرائیلی قبضے کو مستحکم کرنے کی ایک گھناؤنی سازش ہے، جسے مسلم امہ اور عالمی برادری کی خاموشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی ضمیر کیلئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ایک ایسی قوم، جو ہزاروں سال سے اپنی زمین پر آباد ہے، اسے اپنی سرزمین سے جبراً بے دخل کرنے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں اور ان کی جگہ دنیا بھر سے آنے والے قابضین کو اسرائیل کی صورت میں فلسطین پر مسلط کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل کے اس غیر انسانی طرزِ عمل کو امریکا، برطانیہ، فرانس اور دیگر مغربی طاقتیں مکمل حمایت فراہم کر رہی ہیں، جو نہ صرف ایک کھلی منافقت ہے بلکہ عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی بھی ہے۔
فلسطین کی تاریخ گواہ ہے کہ برطانوی سرپرستی میں صہیونی سازشیں 1898 سے ہی جاری تھیں، جن کے تحت دنیا بھر سے یہودیوں کو فلسطین میں آباد کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ 1948 میں برطانیہ کی پشت پناہی کے ساتھ اقوام متحدہ نے اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرکے ایک ناجائز قبضے کو قانونی جواز بخشا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب فلسطین کے اصل باشندوں کی مشکلات کا آغاز ہوا اور ظلماً انہیں اپنی زمین اور اپنے گھروں سے بے دخلی کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اسرائیل نے نہ صرف فلسطینی زمینوں پر ناجائز قبضہ جمایا بلکہ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرکے مہاجر کیمپوں میں دھکیل دیا۔ آج بھی غزہ، مغربی کنارے اور دیگر فلسطینی علاقے اسرائیلی جبر کے شکنجے میں ہیں، جہاں بنیادی انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں۔ اکتوبر 2023ء سے اسرائیل کی جو درندگی جاری ہے، اس کا آج دنیا کا ہر انسان بچشم خود مشاہدہ کر رہا ہے، یہ ایسا ظلم ہے کہ انسانیت شرمسار ہے اور دنیا کی تاریخ میں اس قدر سفاکیت کا مظاہرہ کبھی نہیں کیا گیا۔ دنیا کے دیکھے بھالے آج کے اس مہذب دور میں بھی فلسطینیوں کی مارکاٹ کا یہ غیر انسانی سلسلہ جاری ہے۔
امریکا اور اسرائیل کے نئے منصوبے کے تحت فلسطینیوں کو بے دخل کرکے افریقی ممالک میں بسانے کا جو جواز پیش کیا جا رہا ہے، وہ سراسر فریب اور دھوکا دہی پر مبنی ہے۔ اسرائیل اور اس کے اتحادی مغربی ممالک فلسطینیوں کیلئے کسی محفوظ مقام کی فراہمی کا ڈھونگ رچا رہے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انہیں ان کی ہی سرزمین سے بے دخل کیا جا رہا ہے تاکہ اسرائیل کی توسیع پسندی کو دوام دیا جا سکے۔ اگر عالمی انصاف اور قانون کی نظر سے دیکھا جائے تو حق اور انصاف یہی ہے کہ فلسطینیوں کو نہیں، بلکہ اسرائیل کو وہاں سے بے دخل کیا جائے اور دنیا بھر سے جمع کیے گئے فلسطینی سرزمین پر قابض یہودیوں کو واپس ان کے ممالک میں بھیجا جائے۔ دوسری تجویز یہ ہے کہ اگر ٹرمپ واقعی یہودیوں کا بہی خواہ ہے اور ان کیلئے فکر مند ہے تو فلسطین کی سرزمین پر انہیں تھوپنے کی بجائے جہاں ان کی زندگیاں یقینا غیر محفوظ ہی رہیں گی، امریکی سرزمین پر کوئی غیر آباد علاقہ مختص کرے، جہاں یہ امریکا کی مکمل حفاظت کے حصار میں سکون سے رہ سکیں اور ان کے شر سے دیگر انسان بھی محفوظ و مامون رہیں۔ اس سے امریکا کی یہود دوستی کی حقیقت کا بھی پتا چل جائے گا، اس کی بجائے امریکا اگر اپنے ان لے پالکوں کو ایک اجنبی سرزمین پر ہی بسانے پر بضد ہے تو اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ دراصل یہودیوں کا دوست نہیں، بلکہ درپردہ دشمن ہے، وہ اپنے سر سے یہودیوں کا بوجھ اتارنا چاہتا ہے اور خود سے ہزاروں میل دور ہی انہیں رکھنا چاہتا ہے۔بہرحال امریکی سرپرستی میں فلسطین کے فرزندان زمین پر اسرائیلی مظالم کو دیکھ کر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ صہیونیت کسی اصول، اخلاقیات یا قانون کی قائل نہیں بلکہ یہ محض اپنی طاقت کے بل بوتے پر دنیا کے کمزور طبقات پر ظلم کرنے والا استعماری نظریہ ہے۔
فلسطینیوں کی نسل کشی اور انہیں ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کے اس منصوبے پر مسلم دنیا کی خاموشی افسوسناک ہے۔ یہ کس قدر مقام شرم ہے کہ دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے دیکھتے بھالتے ان کے فلسطینی بھائی بے یار و مددگار ہیں۔ یہ دن ہمیں اس لیے دیکھنا پڑ رہے ہیں کہ اسلامی دنیا خودداخلی طور پر بدترین انتشار، خلفشار کا شکار ہے، اسے سیاسی فساد اور خارجی فکر کی عسکریت پسندی نے الجھا کر رکھ دیا ہے اور ساتھ ہی مسلم دنیا کی حکومتیں عالمی طاقتوں کی خوشنودی کے چکر میںفلسطین کے معاملے پر منقار زیر پر ہیں۔ یہ وقت ہے کہ مسلم دنیا زبانی بیانات سے اوپر اٹھے اور عملی اقدامات کے بارے میں سوچے، تاکہ اسرائیل اور اس کے حامیوں کو یہ باور کروایا جا سکے کہ فلسطین صرف فلسطینیوں کا ہے اور انہیں بے دخل کرنے کے کسی بھی منصوبے کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ مسلم دنیا کے اتحاد اور جرات مندانہ فیصلوں کے بغیر فلسطینی عوام کی مشکلات کا خاتمہ ممکن نہیں۔
علمائے کرام کا قتل، دشمن کی گہری چال
ملک میں علمائے کرام پر بڑھتے ہوئے حملے خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتے ہیں۔ واضح لگ رہا ہے کہ دشمن نے پاکستان کیخلاف ایک مکمل جنگ چھیڑ دی ہے اور اس کیلئے اپنی پوری قوت جھونک دی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے ان اسکالرز اور علمائے کرام کو اپنے راستے سے ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو دشمن کے ناپاک عزائم کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ گزشتہ ماہ دار العلوم حقانیہ کے نائب مہتمم اور ممتاز عالم دین مولانا حامد الحق حقانی کی شہادت، پھر بلوچستان میں نماز کے دوران مفتی شاہ میر کی شہادت اور اب مفتی منیر شاکر کو نشانہ بنانا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ سب ایک گھناؤنی سازش کی ہی کڑیاں ہیں اور ان واقعات کا مقصد مذہبی رہنماؤں کو خوفزدہ کرنا اور معاشرتی بے چینی کو ہوا دینا ہے۔ دشمن اچھی طرح جانتا ہے کہ اگر پاکستان کے دینی طبقات کو کمزور کر دیا جائے تو ملک میں انارکی پھیلانا زیادہ آسان ہوگا۔ یہ وقت ہے کہ حکومت اور ریاستی ادارے ان حملوں کو سنجیدگی سے لیں اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے سخت اقدامات کریں۔