انیسویں صدی کا مشہور جرمن فلسفی فریڈرک نیٹشے ایک پارک میں تنہا بیٹھا ہوا تھا۔ سوچوں میں گم نیٹشے سے کسی نے پوچھا: ”آپ کس حقیقت کی جستجو میں کھوئے ہوئے ہیں؟” نیٹشے نے لمحہ بھر کے لیے سر اٹھایا اور دھیمے لہجے میں جواب دیا: ”کسی ایسے سچ کے، جو عقل کی سرحدوں سے ماوراء ہو۔” نیٹشے کی زبان سے یہ جواب حیران کن تھا کیونکہ نیٹشے عقل کی حتمیت پر اصرار کرنے والا فلسفی تھا مگر اس کا یہ جملہ اس حقیقت کی گواہی دیتا ہے کہ انسانی عقل کی اپنی ایک حد ہے جہاں پہنچ کر وہ کسی ماورائی سچ کی متلاشی ہو جاتی ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر تصورِ علم کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔
ہر دور میں انسان کسی نہ کسی تصورِ علم کے تابع رہا ہے کیونکہ علم کی تشکیل اور ترویج خلا میں نہیں ہوتی بلکہ یہ ہمیشہ کسی نظریے، اصول اور کسی بنیاد کے تابع ہوتی ہے۔ جب کوئی قوم یا فرد تہذیب و تمدن کے دائرے میں علم کی تشکیل و ترویج کرتی ہے تو وہ یہ سب کسی بنیادی تصور علم کے تحت ہی یہ سب انجام دیتی ہے۔ علم کیا ہے، علم کیسے حاصل ہوتا ہے، علم کی بنیاد پر عقائد اور نظریات کیسے قائم کیے جا سکتے ہیں اور کیا ہر علم کی جسٹیفیکیشن ضروری ہے؟ اور کیا عقائد ونظریات کو کسی عقلی بنیاد پر استوارکرنا لازم ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا سامنا ہر عہد کے انسان کو رہا ہے۔ ہر عہد کا انسان کسی نہ کسی تصور علم کے تحت علم کے میدان میں سرگرداں رہا ہے۔ اگر انسان کسی تصور علم کے تحت آگے نہ بڑے تو وہ تصورات اور خیالات کے ایک نہ ختم ہونے والے بہاؤ کے رحم و کرم پر ہوتا ہے جو ہر تھوڑی دیر بعد ایک دوسرے کی تردید کرتے چلے جاتے ہیں۔
تصور علم کے تعین کے لیے ضروری ہے کہ اس کے ذرائع کا جائزہ لیا جائے۔ اب سوال یہ ہے کہ تصور علم کے حصول کے ذرائع کیا ہونے چاہیں؟ یہ کیسے طے کیا جائے کہ کیا تصور علم رکھا جائے؟ کیا ایسا تو نہیں کہ کوئی خاص تصور علم رکھنے سے ہم لاشعوری طور پر اسی کو درست سمجھیں اور اسے درست ثابت کرنے پر لگ جائیں؟ اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں موجود تمام ذرائع علم کو پرکھا جائے اور دیکھا جائے کہ ان میں کون سا ذریعہ علم سب سے زیادہ قابل اعتماد اور تضادات سے پاک ہے۔ کون سے ذریعہ علم زیادہ سے زیادہ معنویت رکھتا اور انسانی عقل وشعور کے بلند ترین میعار پر پورا اترتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر مذہب اور ہر تہذیب وتمدن میں کچھ فرضی قصے کہانیاں موجود رہی ہیں جو ہر دور میں لوگوں کے عقائدو اذہان کو متاثر کرتی آ رہی ہیں۔ ان فرضی قصے کہانیوں کی حقیقت تک پہنچنا اور ان کی حقیقت کا ادراک کرنا صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم قابل اعتماد ذرائع علم کا ادراک حاصل کر لیں۔
انسانی تاریخ میں دو طرح کے تصورات علم قائم کرنے کے امکانات موجود رہے ہیں۔ ایک یہ کہ ہماری کائنات اور اس کے اصول ازخود ایک حقیقت ہیں۔ خلائ، زمین اور نظام شمسی میں جو کچھ ہو رہا ہے جو سب ایک حادثے کی پیداوار ہے اور ہماری پوری مادی کائنات جو فرکس کا موضوع ہے اس میں حتمی حوالہ صرف مادے اور توانائی کا ہے۔ ظاہر ہے یہ تصور علم ناقص اور ادھورا ہے کیونکہ یہ تصور علم کائنات کی حقیقتوں خصوصاً مابعد الطبعیات حقائق اور کائنات کی غایت کے حوالے سے خاموش ہے۔ دوسرا تصور علم جس کے انسانی تاریخ میں امکانات موجود ہیں وہ یہ کہ یہ پوری مادی کائنات بشمول اس کے قوانین اپنے سے بڑی کسی حقیقت پر نہ صرف دلالت کرتے ہیں بلکہ اس کے متقاضی بھی ہیں نیز یہ کہ ہماری کائنات کا حتمی حوالہ مادہ اور توانائی نہیں بلکہ کسی ماورا ذہن کا وجود ہے۔ ایک ایسا وجود جو کائنات کے قوانین سے مبرا ہے۔
جدید فلسفہ کی برانچ Epistemology (تصورعلم) کے مطابق ماضی قدیم سے لے کر تاحال انسانوں کے پاس علم کے تین بنیادی ذرائع رہے ہیں، عقل، سائنس اور وحی۔ عقل کو بطور ذریعہ علم اختیار کرنے سے علم کی جو روایت پروان چڑھی اسے فلسفہ کا نام دیا گیا اور ہم دیکھتے ہیں کہ ہر عہد کے فلسفی بنیادی انسانی سوالات کو ایڈریس کرنے میں تضادات کا شکار رہے ہیں۔ عقل بطور ذریعہ علم کے تین بنیاد ی مسائل ہیں، اول یہ تضادات سے خالی نہیں یعنی عقل کو بطور ذریعہ علم تسلیم کرلیں تو یہ مختلف اور متضاد نتائج فراہم کرتی ہے۔ دوم اس کے پاس ہر غلط اور غیر اخلاقی عمل کا جواز بھی موجود ہوتا ہے اور یہ صورت حال کے مطابق بھیس بدل لیتی ہے۔ سوم یہ ہمیں صرف اس مادی دنیا کے بارے میں علم فراہم کر سکتی ہے اور جو حقائق اس مادی دنیا سے ماوراء ہیں عقل ان کے بارے میں علم فراہم کرنے کی سرے سے اہلیت ہی نہیں رکھتی۔
دوسرا ذریعہ علم سائنس ہے، سائنس تجربات و مشاہدات کے نتیجے میں علم تخلیق کرنے کا نام ہے اور سائنس پچھلی تین چار صدیوں میں سامنے آنے والا فینا مینا ہے۔ مثلاً ہم کمپیوٹر کو دیکھ لیں تو ایک صدی قبل جب کمپیوٹر ایجاد ہوا وہ ایک کمرے سے بھی بڑا تھا۔ اس کے موجد نے اس کی ڈسکرپشن لکھی، بعد میں اس پر مزید تجربات ہوتے رہے اور آج کمپیوٹر اتنا سمارٹ ہو چکا ہے کہ آپ کے موبائل فون میں سما چکا ہے اور اس کا علم اتنا وسیع ہو چکا ہے کہ اس کی بیسیوں برانچیں وجود میں آ چکی ہیں اور اس کے بیسیوں پہلوؤں پر پی ایچ ڈی ہو رہی ہے۔ یہ ایک مثال ہے کہ سائنس کس طرح علم تخلیق کرتی اور اسے آگے بڑھاتی ہے۔ سائنس بطور ذریعہ علم میں مسئلہ یہ ہے کہ یہ ہر وقت تغیر و تبدل کا شکار رہتی ہے۔ آسان لفظوں میں سائنس مستقل ”شاید” کا نام ہے۔ آج یہ کہتی ہے: ”شاید یہ بات درست ہے” کل کو کہے گی: ”نہیں شاید یہ بات درست ہے” پرسوں یہ کہے گی: ”نہیں شاید یہ بات درست ہے”۔ اس طرح سائنس مستقل تغیر وتبدل اور تضادات کا شکار رہتی ہے۔ ایک سائنسی نظریہ جسے آج درست مانا جا رہا ہے، ممکن ہے کل اس میں تبدیلی آ جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ پرسوں اسے مکمل طور پر رد کر دیا جائے۔ سائنس کا دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ صرف محسوسات و مشاہدات تک محدود ہے اور جو حقیقتیں محسوسات و مشاہدات سے ماوراء اور مابعد الطبعیاتی ہیں سائنس ان کے بارے میں علم فراہم کرنے سے قاصر ہے۔
تیسرا ذریعہ علم وحی ہے۔ وحی ایسا ذریعہ علم ہے جس میں ہمیں تضاد دکھائی نہیں دیتا اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے جو حقائق ساڑھے چودہ سو سال پہلے بیان کیے تھے آج بھی انہی پر قائم ہے اور ان میں کسی قسم کا تغیر و تبدل نہیں آیا۔ بلکہ الٹا سائنس نے وحی کے بیان کردہ حقائق کو تقویت فراہم کی ہے اور جیسے جیسے انسانی علم میں اضافہ ہوتا رہے گا وحی کے بیان کردہ حقائق کی افادیت اور معنویت نکھر کر سامنے آتی رہے گی۔ وحی بطور ذریعہ علم کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ یہ صرف اس مادی کائنات کے بارے میں ہی علم فراہم نہیں کرتی بلکہ اس کائنات سے ماوراء حقیقتوں کے بارے میں بھی علم فراہم کرتی ہے۔ اس لیے اگر کوئی شخص ان تینوں ذرائع علم پر خالی الذہن ہو کر غور و فکر کرے تو وہ لازمی طور پر اس حقیقت کو دریافت کر لے گا کہ عقل و سائنس بطور ذریعہ علم محدود اور تضادات سے بھرپور ہیں جبکہ وحی بطور ذریعہ علم حقیقت تک رسائی کے زیادہ قریب اور تضادات سے مبرا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وحی پر مبنی تصور علم جدید مغربی تصور علم سے کہیں زیادہ معقول اور قابل فہم ہے۔