اسلامو فوبیا کا بڑھتا ہوا عالمی رجحان

15مارچ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرار داد کی روشنی میں اسلامو فوبیا کے خلاف عالمی دن منایا گیا۔و زیر اعظم شہبازشریف نے اس موقع پر جاری اپنے پیغام میں کچھ رکن ممالک کی طرف سے قرآن پاک کی بے حرمتی کو غیر قانونی قرار دینے کیساتھ مسلمانوں کے خلاف تعصب کو دور کرنے کے لیے کیے گئے اقدامات کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامو فوبیا کی خطرناک لہر کو ختم کرنے، بنیادی انسانی حقوق و مذہبی آزادیوں کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں کو ختم کرنے کے لیے مزید بہت کچھ کرنے کی فوری ضرورت ہے۔آزادی اظہار کی آڑ میں توہین مذہب یا مقدس علامتوں کی بے حرمتی کا کوئی جواز نہیں۔

وزیراعظم نے کہاکہ ایک ایسے وقت میں جب مذہبی عدم برداشت عروج پر ہے، ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ آزادی اظہار کی آڑ میں توہین مذہب یا مقدس علامتوں کی بے حرمتی کا کوئی جواز نہیں ہے، ہر مسلمان کے لیے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی حفاظت صرف ایک فرض ہی نہیں بلکہ ایک مقدس امانت ہے، جسے ہم پورے یقین کے ساتھ برقرار رکھتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ عالمی امن اور ہم آہنگی کے لیے تمام مذاہب اور ان کی قابل احترام شخصیات کا احترام ضروری ہے۔

تین سال قبل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک کی کوششوں سے اس دن کو منانے کی تاریخی قرار داد منظور کی تھی ۔ بڑھتے ہوئے تعصب، نفرت، امتیازی سلوک اور مسلم کمیونٹیز کے ساتھ ساتھ ان کی مقدس علامتوں اور عبادت گاہوں کے خلاف حملوں کے تناطر میں، یہ دن دنیا بھر میں مسلمانوں کو درپیش چیلنجز کی سنگینی کی ایک واضح یاد دہانی ہے۔یہ دن بھرپور انداز سے متحرک عملدرآمد کی پکار کے طور پر کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کی ٹھوس قانون سازی اور پالیسی اقدامات کے ذریعے اسلامو فوبیا کا مقابلہ کرنے کی اجتماعی خواہش کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ اس سلسلے میں دنیا بھر میں مہم چلانے کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کے تقرر کا بھی فیصلہ ہوا تھا جس پر تاحال عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے تاہم اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے اسلامو فوبیا کے عالمگیر مسئلے کی سنگینی کو تسلیم کرنا اور اس کے خلاف آگہی پھیلانے کے لیے دن مقرر کرنا بھی بجائے خود ایک حوصلہ افزا امر ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں اسلامو فو بیا یعنی اسلام اور مسلمانوں سے نفرت نے ایک عالم گیر وبا کی شکل اختیار کرلی ہے اور بہت سے مفکرین کی سوچی سمجھی رائے ہے کہ یہ نفرت آگے چل کر دنیا میں ایک خطرناک تفریق اور تصادم کو جنم دے سکتی ہے۔عالمی سطح پر اسلامو فوبیا کا جادو کس طرح سر چڑھ کر بولتا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا،جرمنی،نیدر لینڈ اور اٹلی جیسے ممالک میں پورا سیاسی نظام اسلامو فوبیا سے متاثر ہوکر الٹ پلٹ ہوگیا ہے اور ان ممالک میں ایسی سیاسی جماعتیں اقتدار میں آگئی ہیں جن کی اساس ہی اسلام دشمنی پر رکھی گئی ہے اور جن کی پالیسیوں میں یورپ اور امریکا میں مسلمانوں کا داخلہ روکنا سرفہرست ہے ۔ ان ممالک میں جاری غیر ملکی تارکین وطن کے خلاف نفرت انگیز مہم کا اصل ہدف مسلمان ہی ہیں ۔موجودہ امریکی صدر ٹرمپ جنہیں چار سال پہلے امریکی عوام نے کار کردگی کی بنا پر مسترد کردیا تھا، اس وجہ سے دوبارہ اقتدار میں آئے کہ انہوں نے اس دفعہ صدارتی مہم میں اپنی اسلام دشمنی اور صہیونیت نوازی کا کھل کر اظہار کرکے سستی مقبولیت حاصل کرلی۔ اب وہ اس مقبولیت کے نشے میں کبھی غزہ سے فلسطینیوں کو نکالنے کی بات کرتے ہیں،کبھی امریکی یونیورسٹیوں میں فلسطینیوں کے حق میں احتجاج کرنے والے طلبہ کو گرفتار کرارہے ہیں اور تازہ اقدام کے طور پر وہ کئی مسلم ممالک کے شہریوں کے لیے امریکی ویزے ہی بند کرنے جارہے ہیں۔ ٹرمپ کے مسلم دشمن اقدامات آگے چل کر کیا گل کھلائیں گے اور دنیا کے امن و استحکام کے لیے کیا مسائل پیدا کریں گے ،اس بارے میں بہت سے اہل نظر تشویش میں مبتلا ہیں۔اسی طرح جرمنی کے حالیہ صدارتی انتخابات میں وہاں کی انتہائی متعصب دائیں بازو کی جماعتوں نے میدان مار لیا ہے اور وہ جرمنی میں تارکین وطن کی آمد روکنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ ا سے پہلے نیدر لینڈ اور اٹلی میں بھی امیگریشن مخالف اور قدامت پسند جماعتیں اقتدار میں آچکی ہیں۔ بھارت میں نریندر مودی جیسا تھرڈ کلاس جنونی شخص جس کی گردن پر دسیوں ہزار مسلمانوں کا خون ہے ، اگر تیسری مرتبہ دنیا کی نام نہاد سب سے بڑی جمہوریت میں وزیر اعظم بناہے اور امریکی صدر ٹرمپ اسے اپنا” مصاحب خاص” قرار دیتے ہیں تو اس کی واحد ”قابلیت ” بھی اس کی اسلام دشمنی ہی ہے جو ساری دنیا پر روز روشن کی طرح عیاں ہے۔

اس وقت صورت حال کچھ ایسی بن رہی ہے کہ مغرب انسانی حقوق،بین المذاہب ہم آہنگی، آزادیٔ اظہار،ثقافتی تنوع اورپر امن بقائے باہمی کے اپنے ہی قائم کردہ اصولوں، اقدار اور معیارات سے خود ہی دست کش ہوتا جارہا ہے اور امریکا سمیت بہت سے مغربی ممالک اب باقاعدہ فاشزم کے راستے پر چل نکلے ہیں جس کی جھلکیاں امریکا میں ٹرمپ انتظامیہ کے منفی اقدامات کی صورت میں سامنے آچکی ہیں۔ منافقت کا یہ عالم ہے کہ ایک جانب آزادیٔ اظہار کی آڑ میں دنیا کے دو ارب انسانوں کے عقیدے اور عقیدتوں کے مرکز شان رسالت مآبۖ پر کیچڑ اچھالنے اور قرآن کریم کو نذرآتش کرنے کے مذموم واقعات کا دفاع کیا جاتا ہے اور دوسری جانب اسرائیل کے انسانیت کے خلاف جرائم پر صدائے احتجاج بلند کرنے والے طلبہ کا گلا گھونٹا جاتا ہے۔ مسلمانوں نے آج کی دنیا میں کسی بھی خطے کے لوگوں کی ایک انچ زمین پر بھی قبضہ نہیں کیا، وہ فلسطین سے لے کر کشمیر تک خود اپنی ہی جدی پشتی سرزمین پر آزادی سے جینے کا اپنا پیدائشی حق مانگتے ہیں،اس کے باوجود وہ ”دہشت گرد” کہلاتے ہیں اور ان کی زمینوں اور جائیدادوں پر زبردستی قبضہ کرنے اور ان کا قتل عام کرنے والے امن عالم کے ٹھیکیداروں کی آنکھوں کا تارہ ہیں۔ ایسے میں دنیا میں بین المذاہب ہم آھنگی، عالمگیریت، اقتصادی ترقی اور احترام باہمی پر مبنی ماحول کا قیام اب خواب بنتا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے اسلامو فوبیا کے خلاف عالمی دن منانے کی اہمیت اپنی جگہ تاہم ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا کے دو ارب مسلمانوں کو اب اپنی بقا،عزت و وقار اور اپنے مقدسات کے تحفظ اور قوموں کی برادری میں سر اٹھاکر جینے کے قابل رہنے کے لیے خود میدان میں آنا ہوگا اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کی تیزی سے بڑھتی وبا سے نمٹنے کے لیے ہمہ گیر اور ہمہ جہت جدوجہد شروع کرنا ہوگی۔