رولز آف گیم اور خارجہ پالیسی میں تبدیلی

جعفر ایکسپریس پر دہشت گرد حملے کے حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے انٹر سروسز پبلکک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں دہشت گردی اور اس سے پہلے ہونے والے دہشت گرد واقعات کا مین اسپانسر مشرقی پڑوسی ملک ہے۔ جعفر ایکسپریس کا واقعہ بھارت کی دہشت گرد ذہنیت کا تسلسل ہے۔

اسلام آباد میں وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ خارجیوں سمیت افغانی بھی پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ افغانستان سے جدید غیر ملکی اسلحہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ افغانستان میں دہشت گردوں کو ہر قسم کی اسپیس مل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان کے چودہ نکات پر عمل کرنا ہوگا۔

بالآخر بہت عرصے بعد ایسا لگ رہا ہے کہ ہندوستان کے حوالے سے دفاعی پالیسی جارحانہ پالیسی میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ دراصل پلوامہ حملے کے بعد اختیار کی گئی ہماری دفاعی پالیسی نے مودی سرکار اور اجیت دول کو پاکستان کے خلاف شہ دی ہے، وقت آگیا ہے کہ ریاست کی سا لمیت کے لیے نہ صرف اندرون ملک عسکریت پسندوں کے ساتھ رولز آف گیم تبدیل کی جائیں بلکہ بھارت کے مقابلے میں حکمت عملی بھی تبدیل کی جائے۔ وقت آگیا ہے ہندوستانی سفارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے۔ گزشتہ دس برسوں سے نریندری مودی اور بی جے پی کی بدمعاشیاں عروج پر ہیں۔ ہمیں دفاعی پالیسی اختیار کرنے سے نقصان ہی اٹھانا پڑا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جعفر ایکسپریس پر حملے کی منصوبہ بندی انڈیا میں ہوئی ہوگئی، اسے ہندوستان نے اسپانسر کیا ہوگا، اس کے ثبوت دنیا کے سامنے پیش کرنے ہوں گے جس طرح پاکستان نے پہلے دنیا کے سامنے ہندوستانی دہشت گردی کو بے نقاب کیا تھا، اب بھی کرنا ہوگا۔

اس وقت پاکستان کے خلاف انڈین میڈیا کا پروپیگنڈا عروج پر ہے، اس کے توڑ کے لیے حکومت پاکستان، وزارت خارجہ اور دنیا بھر میں موجودپاکستانی سفارت خانوں کو بہت فعال اور مؤثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ آئے روز پاکستان کے مختلف شہروں سے انڈین ایجنسی را کے ایجنٹ پکڑے جارہے ہیں، انڈیا کی جارحیت بڑھتی جارہی ہے۔ اس کے جواب میں بیان بازی، احتجاج اور بین الاقومی اداروں کو آگاہ کرنا اچھی بات ہے، مگریہ ہم گزشتہ ستر برسوں سے کرتے آرہے ہیں، اب ہمیں جارحانہ سفارت کاری اختیار کرنا ہوگی۔ ہمیں کشمیر کا مسئلہ نظر انداز نہیں ہونے دینا چاہیے، ایسانہ ہو کشمیری عوام بھی پاکستان سے مایوس ہوکر تھک ہار کر بیٹھ جائیں۔ جنگ کشمیر کی آزادی، سیاچن، سرکریک سمیت پاکستانی دریاؤں پر بنائے جانے والے سب مسائل کے حل کے لیے ہمیں بھر پور جدوجہد کرنا ہوگی۔ اس وقت کشمیر اور بھارت کو جواب دینے کے لیے جنرل ضیاء الحق کی پالیسی کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی سمجھے باقی نت نئی ڈاکٹرائن غلط ثابت ہوچکی ہیں، ہندوستان صرف جنرل ضیاء الحق کی ڈاکٹرائن کو سمجھتا ہے۔

پاکستان کو خطے سمیت دنیا بھر میں تنہائی کا شکار کرنے کی سازشیں بھی عروج پرہیں۔ چین سے لے کر روس تک قازقستان سے لے کر ایران تک سب کنکٹویٹی پر آگے بڑھ رہے ہیں، لیکن پاکستان کے بارڈر پڑوسیوں کے ساتھ بند ہیں، ایم ایل ون منصوبے سے چین نے ہاتھ اٹھالیے ہیں، تاپی پر کام میں تیزی نہیں آرہی، جس کی ایک وجہ پاکستانی حکمرانوں کا ا مریکی چھتری سے باہر نہیں آنا ہے، اس وجہ سے دوست ممالک کا اعتبار ختم ہوچکا ہے۔ دوست صرف وعدے کر رہے ہیں، سی پیک پر کام کئی برس گزرنے کے باوجود آگے نہیں بڑھ سکا۔ ایم ایل ون جیسا اہم منصوبہ شروع نہیں ہوسکا۔ سعودی عرب بھی بس وعدوں پر ٹرخا رہا ہے۔ دوسری جانب خطے میں کئی معاہدے طے ہورہے ہیں۔ پاکستانی سفارت کار اور وزارت خارجہ کاغذی کارروائیوں سے آگے عملی اقدامات کی صلاحیت سے محروم نظر آتی ہے۔ صرف رپورٹس اور تصاویر ارسال کرنے سے پاکستانی سفارت خانے وزارت خارجہ کو اندھیرے میں رکھ رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کتنے معاہدے اور کتنے معاشی پروگراموں پر دنیا کے ممالک کو یہ سفارت کار راضی کرچکے ہیں۔ وہی این جی اوز والا اسٹائل بڑے بڑے ہوٹلوں میں موسیقی کے پروگرامات میں شرکت اور فوٹو سیشن اور اس کے بعد مہینوں تک خاموشی۔ خارجہ پالیسی کے میکرز اس پر بھی توجہ دیں، دہشت گردی کے حوالے سے رولز آف گیمز میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ خارجہ پالیسی میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ انڈین پروپیگنڈا دنیا میں اتنا کیوں فعال ہے ؟ اس کے مقابلے میںپاکستانی سفارت کاری ناکام کیوں ہے ؟ کیا ہمارے سفارت کار سفارت کاری کے اہل بھی ہیں؟ یا چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے بھی اسلام آباد کی طرف دیکھتے رہتے ہیں؟ روس، وسطی ایشیا سمیت کئی ملک پاکستان کے ساتھ تعلقات میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ تجارت، دوستی کو فروغ دینا چاہتے ہیں، انہیں پاکستان کی ضرورت ہے اور پاکستان کو ان کی۔ تجارت کے لیے اور کئی دیگر مسائل کے حل کے لیے۔ سوال مگر یہ ہے کیا ریاست اور حکمرانوں کی اس پر توجہ ہے؟ کیا اس حوالے سے ریاستی تھنک ٹینک جامع پالیسیاں لائیں گے یا سطحی بیانات اور بلیم گیم کے ذریعے میڈیا کو مصروف رکھا جائے گا؟