آج کا دن میرے لیے کئی حیرتیں لے کر آیا تھا۔ ہم ایک اسٹوڈیو میں تھے، لیکن اس اسٹوڈیو کو چلانے والے پندرہ سے بیس سالہ لڑکے تھے۔ وہ عمر جس میں ہمارے نوجوان سائلنسر نکال کر موٹرسائیکلز گھماتے ہیں، ون ویلنگ کرتے ہیں، شہر کی سڑکیں ناپتے ہیں اور چائے کے ڈھابے آباد کرتے ہیں۔ اسی عمر میں ان چار پانچ نوجوانوں نے کمال کردیا تھا۔ ایک سوشل میڈیا کا ایکسپرٹ ہے، دوسرا ویڈیو ایڈیٹنگ کرتا ہے، تیسرا تھم نیل ڈیزائن کرتا ہے، چوتھا ڈیلنگ کرتا ہے اور کلائنٹس فائنل کرتا ہے۔ رہا کیمرہ مین تو وہ سبھی پارٹ ٹائم کیمرہ مین بھی ہیں۔ ایونٹ چھوٹا ہو یا بڑا، انہیں بلائیں اور بے فکر ہوکر کوریج کروالیں۔ پاکستان کے طول و عرض، ایشیا و یورپ سے کتنے ہی کلائنٹس ہیں جو ان کی سروسز لے رہے ہیں۔ کالج، اسکول اور مدرسہ جاتے ہیں اور ساتھ ساتھ پروفیشنل اسکلز بھی حاصل کر چکے ہیں۔
مدرسہ والے کی کہانی سب سے دلچسپ تھی: وہ عصر تک اپنے مدرسے میں پڑھتا ہے، پانچ بجے کے بعد وقت ملتا ہے، اس دوران جتنے بھی پروجیکٹس آئے ہوتے ہیں، ان کو نمٹا دیتا ہے۔ کیمروں، لائٹس، اسٹوڈیو اور مائیک کی بات کریں تو یہ مشکل بھی گھر میں ہی حل ہوگئی۔ گھر کی چھت پر ایک کمرہ خالی پڑا تھا، اسے اسٹوڈیو بنایا، دو لاکھ کی رینچ میں کینن اور سونی کے کیمرے لینز سمیت خرید لیے، لائٹس نئی لے لیں اور اسٹینڈ پرانے۔ اب وہاں پوڈ کاسٹ ریکارڈ ہوتے ہیں، ایڈ شوٹ ہوتے ہیں۔ کراچی میں ہونے کا یہ فائدہ تو ہوا کہ ہر چیز سستے داموں مل جاتی ہے۔
سوشل میڈیا پر بھی ڈیجیٹل مارکیٹنگ سیکھنے سکھانے والوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ ہر دوسرا نوجوان ان ناموں سے آشنا ہے اور کسی نہ کسی اسکل کو سیکھ رہا ہے۔ پاکستان میں فری لانسرز کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جو ملکی زر مبادلہ کے ذخائر بڑھا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر سیاسی بحث و تمحیص میں وقت گزارنے والے بھی بہت ہیں، لیکن رفتہ رفتہ اب یہ محاذ منظم سوشل میڈیا ٹیمز نے سنبھال لیا ہے۔ کچھ بڑے گروہوں کے تو سوشل میڈیا ہینڈلرز بڑے کھلم کھلا دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن اس ہنگامے کے بیچ سب سے اچھی چیز یہ نظر آئی کہ اسکلز سیکھنے، سکھانے اور موٹیویشن دینے والوں کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے۔ آج کے دور میں کوئی نوجوان یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ سیکھنا تو چاہتا ہے، سکھانے والا کوئی نہیں۔ ایک موبائل فون ہو تو سیکھنا شروع۔ لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر مل جائے تو وارے نیارے۔
کبھی سوچتا ہوں کہ خوش ہونے کے کتنے ہی مواقع ہیں۔ ہمارے ہاں دو تہائی تعداد نوجوانوں کی ہے، یہ نوجوان کسی دور میں فضولیات میں مصروف رہتے تھے، فیس بک پوسٹس میں فلموں، ڈراموں اور گانوں پر تبصرے کرتے تھے۔ آج ان نوجوانوں کے آئیڈیل فری لانسرز بن چکے ہیں۔ مہارتیں سیکھنے اور سکھانے والے بن گئے ہیں، آرٹیفیشل انٹیلی جنس ان کا ہدف ہے۔ ایس ای او میں ان کے دن رات صرف ہوتے ہیں، میٹا کے کورسز اور یوٹیوب ماسٹری ان کی منزل ہے۔ کوئی دن جاتا ہے کہ کسی نہ کسی شہر میں فری لانسرز جمع نہ ہوتے ہوں، اپنے تجربات دوسروں سے شیئر نہ کرتے ہوں اور دوسروں تک اپنا علم و فضل منتقل نہ کرتے ہوں۔
حضرت وہب بن منبہ نے روایت کی ہے کہ ایک بار حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اپنے ساتھیوں سے بات چیت میں مصروف تھے کہ اس دوران ایک شخص آپ کے پاس آبیٹھا۔ آپ نے اس سے کہا: میرے پاس آجائیں۔ اس شخص نے کہا: اللہ تعالیٰ آپ کی عمر دراز کرے! مجھے اتنے عمدہ انداز سے سوال کرنا نہیں آتا، جس طرح ان لوگوں نے سوال پوچھے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: قریب آجائیں، میں آپ کو قرآن مجید میں مذکور انبیائے کرام کے بارے میں بتاتا ہوں۔ میں تمہیں آدم علیہ السلام کے بارے میں بتاتا ہوں کہ وہ کھیتی باڑی کرنے والے بندے تھے۔ نوح علیہ السلام کے بارے میں بتاتا ہوں کہ وہ ایک بڑھئی تھے۔ ادریس علیہ السلام کے بارے میں بتاتا ہوں کہ وہ ایک درزی تھے۔ دائود علیہ السلام کے بارے میں بتاتا ہوں کہ وہ ذرہ بنانے کے ماہر تھے۔ موسی علیہ السلام کے بارے میں کہ وہ چرواہے تھے۔ ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں کہ وہ کھیتی باڑی کرنے والے تھے۔ صالح علیہ السلام کے بارے میں بتاتا ہوں کہ وہ تاجر تھے۔ (مستدرک حاکم، کتاب تواریخ الانبیائ، ذکر حرف الانبیائ، حدیث نمبر: 4221)
حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا: جب کسی نوجوان کو دیکھتا ہوں تو پوچھتا ہوں کہ اسے کوئی مہارت آتی ہے؟ اگر نہیں، تو وہ نوجوان میری نظروں میں گر جاتا ہے۔ ایسے ماہر نوجوان ہی امت کا مستقبل ہیں، ہماری پہچان ہیں اور پاکستان کی شان ہیں
خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر