دہشت گردی کا خطرہ، سدباب ضروری ہے

وطن عزیز پاکستان میں معیشت کے حوالے سے میکرو سطح پر بہتری اور ترقی کی اطلاعات اپنی جگہ قابل لحاظ اور حوصلہ افزا ہیں اورتوقع رکھی جانی چاہیے کہ حکومت اس بہتری کے ثمرات مائیکرو سطح پر عوام کو مہنگائی سے حقیقی ریلیف دینے پر بھی توجہ دے گی تاہم ترقی کا سفر جاری رکھنے اور استحکام کی منزل حاصل کرنے کے لیے ملک میں امن و امان کی صورت حال کی بہتری ایک ناگزیر ضرورت ہے اور بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ ہماری حکومت،قومی سلامتی کے اداروں اور سیکیورٹی فورسز کی تمام کوششوں اور اقدامات کے باوجود ملک میں امن وامان کی صورت حال قابو میں آتی نظر نہیں آتی اور بین الاقوامی اداروں کی حالیہ رپورٹیں بتارہی ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی اور تخریب کاری کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔چنانچہ گلوبل ٹیررزم انڈیکس جی ٹی آئی 2025 کے مطابق پاکستان میں 2024 میں یعنی گزشتہ سال دہشت گردی سے ایک ہزار81 اموات ہوئیں جو کہ 2023 کی نسبت 45 فیصد زائد ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہلاکتوں میں اس اضافے کی وجہ تحریک طالبان پاکستان ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کی جانب سے کیے گئے حملے ہیں۔

دہشت گردی کے متاثرہ ممالک کی درجہ بندی میں پاکستان کا دوسرے نمبر پر آنا ملک کی سلامتی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔نائن الیون کے بعدجب پاکستان نے نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ بننے کا عاجلانہ فیصلہ کیا تھا اور امریکا اور اس کے اتحادیوں کو لاجسٹک سپورٹ اور اپنے ہوائی اڈے فراہم کردیے تھے تو اسی وقت بہت سے اہل نظر نے انتباہ کیا تھا کہ اس کے نتیجے میں پاکستان خود دہشت گردی کا ہدف بن سکتا ہے۔ چنانچہ وہی ہوا،عالمی طاقتوں نے پاکستان کے ساتھ یہ ڈبل گیم شروع کردی کہ ایک جانب پاکستان کی سرزمین کو افغانستان میں جنگ کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا تودوسری جانب افغانستان میں پاکستان کے ازلی و روایتی دشمن بھارت کو بھرپور انٹیلی جنس رسائی فراہم کردی جس کے نتیجے میں ایک جانب قبائلی علاقوں میں وفاق پاکستان اور پاکستان کی مسلح افواج کے خلاف باقاعدہ منصوبے کے تحت بغاوت اور شورش پھیلائی گئی تودوسری جانب بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسند گروپوں کو اسلحہ،تربیت اور فنڈز دے کر پاکستان کے خلاف برسر پیکار کردیا گیا۔ دونوں محاذوں پر پاکستان مخالف سرگرمیوں کو عالمی قوتوں کی خفیہ ایجنسیوں کی پشت پناہی بھی حاصل تھی۔پاکستان کی مسلح افواج نے متعدد بار آپریشن کرکے قبائلی علاقوں کو عسکریت پسندوں سے پاک کرلیا مگر پھر کچھ عرصے بعد ان کو دوبارہ ٹرین کرکے میدان میں اتار لیا جاتا رہا۔

اگست 2021 ء میں افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلااور طالبان حکومت کے قیام پر پاکستان کی حکومت اور عوام نے سکھ کا سانس لیا اور خوشی کا اظہار کیا کہ اب پاکستان کو اپنی سرزمین پر مسلط شدہ دہشت گردی سے نجات ملے گی اور پاکستان کی مغربی سرحد محفوظ ہوجائے گی مگر اے بسا رزو کہ خاک شدہ۔ طالبان حکومت نے آتے ہی بوجوہ پاکستان سے آنکھیں پھیر لیں اور ان عسکریت پسند گروپوں کو اپنے ہاں پناہ دے دی جو بھارت اور دیگر اسلام دشمن قوتوں کے آلہ کار بن کر پاکستان کے اندر تخریب کاری میں ملوث تھے۔اصولی طور پر تو افغانستان میں اسلامی حکومت کے قیام اور اتحادی افواج کے انخلا کے بعد ان گروپوں کو خود ہی تحلیل ہوجانا چاہیے تھا کیونکہ غیر ملکی قابض قوتوں کے خلاف جہاد کا جو نعرہ وہ لگاتے تھے،اس کا جواز ختم ہوگیا تھا مگر ان گروپوں نے اس کے بعد بھی پاکستان کو اپنا ہدف بناکر یہ ثابت کردیا کہ اصل میں ان کی ڈوریاں کسی اور کے ہاتھ میں ہل رہی ہیں۔حکومت پاکستان نے طالبان حکومت سے کئی بار گزارش کی اور پاکستان کے جید ترین علماء اور سیاسی زعماء کے وفود بھیجے کہ براہ مہر بانی اب پاکستان کے اندر تخریب کاری میں ملوث عناصر کی سرپرستی نہ کی جائے مگر افسوس کہ ان کوششوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا بلکہ الٹا پاکستان کی سرزمین پر افغان سر حد سے حملوں اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو گیا۔ ظاہر ہے کہ دنیا کو ئی بھی ملک اس طرح کی صورت حال پر خاموش نہیں بیٹھ سکتا۔چنانچہ پاکستان نے اپنی سرزمین میں موجود افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کا اعلان کردیا کیونکہ ملک میں پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعات میں افغان شہری ملوث پائے جارہے تھے اور سرکاری اداروں کے پاس ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے ملزمان تک رسائی نہیں ہوپارہی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ افغان حکومت نے پاکستان کے اس فیصلے کو دشمنی پر محمول کرلیا اور اس کی جانب سے پاکستان کے ساتھ تعاون لکل ہی ختم کردیا گیا جبکہ بھارت کے ساتھ تعلقات کے لیے پینگیں بڑھائی گئیں حالانکہ مودی حکومت نے تاحال دہلی کا سفارت خانہ بھی طالبان حکومت کو نہیں دیا ہے۔پاکستان کی حکومت نے کچھ عرصہ قبل سفارتی وفد کابل بھیج کر طالبان حکومت کے ساتھ خیر سگالی کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن اسی کوشش کے دوران افغان سرحد سے پاکستان کے اندر دراندازی اور تخریب کاری کا واقعہ پیش آگیا جس پر جوابی کارروائی کرتے ہوئے پاکستان نے افغانستان میں موجود عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی، تب سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات تعطل کا شکار ہیں اور اس کے نتیجے میں پاکستان میں عسکریت پسندوں کے حملے بڑھ گئے ہیں جوکہ پاکستان کے نقطہ نظر سے سخت تشویش کی بات ہے۔

یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ اس وقت بھی افغانستان میں عسکریت پسندوں کو محفوظ ٹھکانوں کی سہولت حاصل ہے اور پاکستان کی جانب سے بار بار کے مطالبات کے باوجود کابل کی عبوری حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرنے پر تیار نہیں ۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس کے باعث پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان تعلقات میں ابتری سے ابتری آتی جا رہی ہے۔ اس وقت بھی طورخم سرحد پر پاکستانی اور افغان فورسز کے درمیان کئی دنوں سے نہ صرف جھڑپیں جاری ہیں بلکہ پاکستان کی طرف سے بعض سرکاری اداروں کے دفاتر کی منتقلی سے اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ خدانخواستہ آمدہ دنوں میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے اور سرحد کی بندش طول پکڑ سکتی ہے۔ اس کا نقصان پاکستان سے زیادہ افغانستان کو ہوگا۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ طالبان حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اورپاکستان کے ساتھ دشمنی کا رویہ ترک کرکے بات چیت اور افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ حکومت پاکستان کو بھی بات چیت سے مسئلے کو حل کرنے کو ہی اولین ترجیح بناکر ممکنہ حد تک خیر سگالی کے اقدامات کرنے چاہئیں۔