کُرد علیحدگی پسند رہنما اوجلان کا تاریخی اعلان (ابوصوفیہ چترالی)

کُرد قوم پرست تحریک کا آغاز 1890ء میں سلطنتِ عثمانیہ کے زوال کے برسوں میں ہوا تھا۔ پہلی عالمی جنگ میں سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد سیورے کے معاہدے میں کردوں سے آزادی کا وعدہ کیا تھا۔ بعد میں ترک رہنما کمال اتاترک نے یہ معاہدہ توڑ دیا جبکہ 1924ء کے لوزان کے معاہدے میں کردوں کے علاقوں کو مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں شامل کر دیا گیا تھا۔ ترکیہ میں کرد مجموعی آبادی کا بیس فیصد کے قریب ہیں۔
ترکیہ میں کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) نے 1984ء سے جنوب مشرقی حصے کی خودمختاری کے لیے مسلح جدوجہد شروع کی تھی، جبکہ اس مسلح تنازعے میں مجموعی طور پر 40 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ کردستان ورکرز پارٹی کے بانی رہنما عبدللہ اوجلان کو 1999ءمیں گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں سزائے موت سنا دی گئی تھی، بعد میں ترکیہ میں سزائے موت پر پابندی لگ جانے کے تناظر میں ان کی سزائے موت کو عمرقید میں بدل دیا گیا تھا۔ 2012ء میں ترک صدر رجب طیب اردوان اور کرد رہنما اوجلان کے درمیان مذاکرات ہوئے، تاہم ان مذاکرات کی ناکامی کی وجہ سے یہ تنازع دوبارہ شدت پکڑ گیا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ ترکیہ کے علاوہ امریکا اور یورپی یونین بھی کردستان ورکرز پارٹی کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔ اس تنظیم کے ارکان کے خلاف ترکیہ نہ صرف ملک کے اندر عسکری کارروائیاں کرتا رہا ہے بلکہ شمالی عراق کے پہاڑی علاقوں میں بھی ترک طیارے بمباری کرتے رہے ہیں۔ ترک صدر کا کہنا ہے کہ شمالی شام میں متحرک وائے پی جی نامی کرد عسکری گروہ کردستان ورکرز پارٹی ہی کی شاخ ہے اور اس تنظیم کو کمزور کرنے کے لیے ترکیہ نے شمالی شام میں بھی اپنی فوج بھیجی ہے۔ عراق میں کردوں کی تعداد مجموعی ملکی آبادی کا پندرہ سے بیس فیصد جبکہ ایران میں دس فیصد ہے۔
عراق میں صدام حسین کے دورِ حکومت میں کئی مرتبہ کردوں کے خلاف حملے کیے گئے بلکہ 80 کی دہائی میں تو کردوں کے دیہات پر مہلک حملے کئے گئے۔ 1991ء سے شمالی عراق میں کرد اکثریتی علاقے نیم خودمختار حیثیت کے حامل ہیں۔ ایران میں کردستان ورکرز پارٹی کی ایک شاخ سمجھی جانے والی فری لائف آف کردستان کے خلاف بھی فورسز عسکری آپریشن کر چکی ہیں، جبکہ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ایران میں کردوں کو معاشرتی تفریق کا سامنا ہے۔ تاہم اب ترکیہ کے ان کرد علیحدگی پسندوں نے آزادی کی جنگ ختم کرکے قومی دھارے میں ضم ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس بات کا اعلان برسوں سے قید کردش ورکرز پارٹی (PKK) کے سربراہ عبد اللہ اوجلان (Abdullah Öcalan) کی جانب سے ترک کردوں کی سیاسی جماعت Peoples’ Equality and Democracy Party (DEM Party) نے کیا۔ اوجلان نے PKK تحلیل کرکے اس کے عسکری جتھوں YPGاور YPJ(خواتین) کو غیر مسلح کردینے کا حکم دے دیا ہے۔ 76 سالہ عبداللہ اوجلان 1999ءسے بحیرہ مرمرہ المعروف نہر استنبول کے ایک جزیرے میں قید تنہائی کاٹ رہے ہیں۔

ترکیہ کے خلاف طویل عرصے سے برسرپیکار عبداللہ اوجلان کے ہتھیار ڈالنے سے دنیا کی سب سے طویل مسلح بغاوت کے ختم ہوگئی

مبصرین کا کہنا ہے کہ بلاشبہ ساری ملت اسلامیہ خاص طور سے ترکیہ، شام اور فلسطین کے لیے یہ ایک انتہائی خوشگوار تبدیلی ہے۔ اس جرات مندانہ فیصلے کے محرکات پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ غزہ کے پاکیزہ لہو نے مراکش سے انڈونیشیا تک بیداری اور اتحاد کی جو شمع روشن کی ہے اُس نے اوجلان کو قوم پرستی کے کنویں سے نکل کر ترک ملت میں ضم ہونے کی راہ دکھا دی۔ کردوں کی جانب سے علیحدگی کی تحریک ختم کرکے قومی دھارے میں ضم ہونے کا اعلان ترک صدر اردوان کی آزمائش ہے۔ اُمید ہے کہ ماضی کی زیادتیوں کا گلہ کرنے کے بجائے ترک صدر گھر واپس آنے والے کرد بھائیوں کو گلے سے لگائیں گے، کیونکہ اردوان کے مربی اور ترکیہ کے مردِ قلندر پروفیسر نجم الدین اربکان ؒ کہا کرتے تھے کہ ہم ایک کرد، صلاح الدین ایوبی کا احسان کبھی نہیں بھول سکتے۔ فاتح بیت المقدس صلاح الدین ایوبی نے تکریت، عراق کے ایک کُرد خاندان میں آنکھ کھولی تھی۔ خطے کی سیاست پر نظر رکھنے والے مبصرین نے علیحدگی پسند کردستان ورکرز پارٹی کے بانی اوجلان نے کے اس اعلان کو تاریخی قرار دیا ہے۔
قبل ازیں اوجلان نے شامی کردوں کو بھی مرکزی حکومت میں شامل ہونے اور ہتھیار ڈالنے کی اپیل کی تھی۔ ترک کردوں کے حامی ڈیموکریسی اینڈ پیپلز ایکویلیٹی پارٹی (HDP) کے ایک اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے اوجلان نے کردستان ورکرز پارٹی کو ایک عام اجلاس بلانے اور خود کو تحلیل کرنے کا فیصلہ کرنے کی دعوت دی۔ اوجلان نے مزید کہا کہ ’اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے، سوائے جمہوریت اور جمہوری مکالمے کے اور بغیر جمہوریت کے شام نہیں بچ سکتا۔‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس دور کی زبان امن ہے اور جمہوری معاشرے کی ترقی کی ضرورت ہے۔‘ جسٹس اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی نے کہا کہ اس کے ایک وفد نے اوجلان سے ترکوں اور کردوں کے درمیان امن کے لیے ملاقات کی۔ پارٹی کے ایک رہنما نے کہا کہ قائد اوجلان نے ترک صدر اور تمام سیاسی جماعتوں کا شکریہ ادا کیا۔ اس ماہ کے آغاز میں پارٹی کے ایک عہدیدار نے، جو پارلیمنٹ میں تیسرے نمبر کی سب سے بڑی جماعت کا رکن ہے، کہا تھا کہ اوجلان جلد ہی ایک تاریخی اپیل کرنے کے لیے تیار ہیں، جس کا مقصد کرد مسئلے کا مستقل حل ہے۔ ہم مستقل اور جڑ سے جڑا حل چاہتے ہیں اور ہم اس اپیل کو اہمیت دیتے ہیں اور اس کی حمایت کرتے ہیں۔
گزشتہ اکتوبر میں ترک صدر رجب طیب اردوان کی حکومت نے حزب الحریة القومیہ کے رہنما دولت بہچلی کی طرف سے اوجلان کو کردستان ورکرز پارٹی کو ہتھیار ڈالنے کی دعوت دینے کی پیشکش کی حمایت کی تھی۔ واضح رہے کہ 1999ء سے اوجلان جزیرہ امرالی کی جیل میں مکمل تنہائی میں قید ہیں، جو جنوبی مرمرہ کے سمندر میں واقع ہے اور وہ دنیا کے ساتھ بہت کم رابطہ کر پاتے ہیں۔ ان کی جانب سے اس تاریخی اعلان کی خبر پہلے ہی نشر ہوچکی تھی۔ اس لیے 27 فروری کو شام 5 بجے ترک عوام نے اسکرینوں کے سامنے بیٹھ کر اوجلان کے ایک بیان کا انتظار کیا، جو کہ گزشتہ 26 سال سے جیل میں قید ہیں۔ اس پیغام کی بہت بڑی اہمیت تھی، کیونکہ یہ توقع کی جا رہی تھی کہ اوجلان اپنے بیان میں PKK اور شام، عراق اور ایران میں اس کے اتحادی گروپوں کو ہتھیار پھینکنے اور تنظیم کو تحلیل کرنے کی دعوت دیں گے اور ایسا ہی ہوا۔ بالکل متعین وقت پر عوامی جمہوری پارٹی (HDP) کے نمائندوں نے کیمرے کے سامنے کھڑے ہو کر یہ تاریخی بیان پڑھا۔ اوجلان نے بغیر کسی شرط کے ہتھیار پھینکنے اور PKK کو تحلیل کرنے کی دعوت دی۔
اِس پیغام میں یہ کہا گیا: تمام گروپوں کو ہتھیار پھینکنے چاہئیں اور PKK کو چاہئے کہ خود کو تحلیل کردے۔‘ ترکیہ نے 2009ء سے 2014ء کے دوران ’حل کا عمل‘ کے نام سے کردستان ورکرز پارٹی (PKK) کی تنظیم کو غیرمسلح کرنے کی کوشش کی، لیکن یہ عمل آخرکار ناکام ہوگیا۔ PKK نے امریکا کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا اور شمالی شام میں خود کو دیگر ناموں سے دوبارہ منظم کر لیا تھا، خاص طور پر ایک علاقے میں جسے ’روج آفا‘ کہا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں حل کا عمل کامیاب نہ ہوسکا۔ اسی وجہ سے ترکیہ کسی بھی نئے حل کی کوشش کے خلاف تھا، لیکن صورتحال غزہ کی جنگ کے بعد تبدیل ہوگئی۔ صدر رجب طیب اردوان نے یہ ادراک کیا کہ جنگ شام تک پھیل سکتی ہے اور وہاں سے یہ کسی نہ کسی طرح ترکیہ کے اندر اثرانداز ہو سکتی ہے، اسی لیے انہوں نے ’صفوں کو مضبوط کرنے اور اندرونی محاذ کو مستحکم کرنے‘ کی دعوت دینا شروع کی۔ اس دعوت کا مقصد یہ تھا کہ ترک کردوں کا رابطہ شمالی شام میں PKK اور دیگر گروپوں سے ختم کیا جائے، تاکہ یہ ترکیہ میں موجود کردوں پر اثرانداز نہ ہو۔ قوم پرست جماعت کے رہنما حکومتی حلیف اور سابقہ ’حل کے عمل‘ کے سب سے بڑے مخالف دولت بہچلی نے اس منصوبے کی حمایت کا اعلان کیا اور ایک غیرمتوقع بیان جاری کیا۔ بہچلی نے ابتدا میں حزبِ شعوبِ جمہوریہ کے نمائندوں سے ملاقات کی، پھر کہا: ’اگر اوجلان PKK کو ہتھیار ڈالنے اور تنظیم کو حل کرنے کی دعوت دے گا تو وہ آکر اگر چاہے تو حزبِ شعوبِ جمہوریہ کے پارلیمانی گروپ میں بات کرسکتا ہے۔‘
یہ بیان ترکیہ میں بڑی اہمیت کا حامل ثابت ہوا، کیونکہ بہچلی قوم پرست رجحانات کی اہم ترین شخصیات میں سے ہیں۔ ان کے اس بیان نے 22 اکتوبر 2024ء کو امن کوششوں تیز کر دیا۔ اس کے بعد صدر اردوان نے بہچلی کے بیان کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا اور قومی انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ ابراہیم قالن کو اس عمل کی نگرانی کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ حزبِ شعوبِ جمہوریہ کے نمائندوں نے جیل جا کر اوجلان سے ملاقات کی اور اوجلان نے اپنی طرف سے یہ اعلان کیا کہ وہ بہچلی کی دعوت کی حمایت کرتے ہیں۔ اس کے بعد 27 فروری 2025ء کو پڑھے جانے والے پیغام کی تیاری کا عمل شروع ہوا، جبکہ حزبِ شعوبِ جمہوریہ نے سیاسی جماعتوں کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ تیز کر دیا تاکہ مزید حمایت حاصل کی جا سکے، ابراہیم قالن اس اعلان کی تفصیلات پر منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
بیانات میں کیا شامل تھا؟
اوجلان کا اصل پیغام جسے انہوں نے اپنے ہاتھ سے ترک زبان میں لکھا تھا، ساڑھے تین صفحات پر مشتمل تھا۔ پیغام کے آخر میں تاریخ 25 فروری 2025ء لکھی گئی تھی اور اوجالان کا دستخط تھا۔ اس پیغام کو ڈیجیٹل شکل میں منتقل کیا گیا اور حزبِ شعوبِ جمہوریہ کے وفد کو بھی دیا گیا تاکہ وہ اسے پڑھ سکیں۔ اس ملاقات کے دوران اوجلان کے وکیل اور جیل میں ان کے ساتھی بھی موجود تھے۔ پیغام کی ترسیل کے لمحے کی ایک تصویر لی گئی، جسے میڈیا کو بھیجا گیا۔ حزبِ شعوبِ جمہوریہ کے 7 ارکان پر مشتمل وفد، جو جزیرہ امرالی میں پیغام وصول کرنے کے لیے گیا تھا، اس میں سے احمدترک، جو ماردین کے سابق میئر ہیں، نے پیغام کا کرد زبان میں ترجمہ پڑھا۔ پھر، پیرفین بولدان، جو حزبِ شعوبِ جمہوریہ کی سابق نائب صدر اور چیئرپرسن ہیں، نے اصل ترکی زبان میں تحریر کردہ پیغام کو پڑھا۔ پیغام کی ابتدا میں اوجلان وضاحت دیتے ہیں کہ انہوں نے تنظیم کیوں قائم کی، اس کی نظریاتی ترقی کیسے ہوئی اور حالات کے مطابق اس کی سمت کس طرح بدلتی رہی، وہ اس لڑائی کے مرحلے تک کیسے پہنچے اور اس کے باوجود وہ کیوں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے۔

اوجلان نے 47 سال پہلے دیاربکر کے علاقے لیجہ میں کردستان ریاست قائم کرنے کے مقصد سے PKK کی بنیاد رکھی تھی

اوجالان کہتے ہیں: جمہوریہ کی تاریخ میں سب سے طویل اور سب سے زیادہ وسیع بغاوت اور تشدد کی تحریک، یعنی کردستان ورکز پارٹی (PKK) نے جمہوری سیاسی راستوں کی بندش کے نتیجے میں طاقت اور عوامی حمایت حاصل کی، جبکہ قوم پرستانہ شدت پسندی پر مبنی حل جیسے کہ آزاد قوم کی ریاست، وفاقیت، خود مختار حکومت اور ثقافتی حل، سماجی اور تاریخی حقوق کے لیے معاشرے کی ضروریات کو پورا نہیں کر پائے۔‘ پیغام کے اگلے حصے میں اوجلان اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ انہوں نے 47 سال پہلے دیاربکر کے علاقے لیجہ میں کردستان کی ریاست قائم کرنے کے مقصد سے جو PKK قائم کی تھی، اسے تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے یہ الفاظ استعمال کیے: ’میں اس دعوت کی تاریخی ذمہ داری قبول کرتا ہوں، جو موجودہ سیاسی ماحول کے نتیجے میں مجھے اٹھانی پڑی۔ میرا یہ موقف جناب دولت بہچلی کی دعوت، جناب صدر جمہوریہ کی خواہش اور دیگر سیاسی جماعتوں کے اس دعوت کے لیے مثبت موقف کی وجہ سے تشکیل پایا اور جیسے کہ کوئی بھی جدید تنظیم یا پارٹی جو طاقت کے ذریعے حل نہیں کی گئی ہو، وہ ریاست اور معاشرے کے ساتھ انضمام کے لیے ایک کانفرنس میں جمع ہوئی اور فیصلہ کیا: تمام تنظیموں کو ہتھیار چھوڑ دینا چاہیے اور کردستان ورکز پارٹی کو تحلیل کیا جانا چاہیے۔ میں تمام فریقوں کو جو پُرامن ملی زندگی کے حامی ہیں اور میری دعوت کا جواب دیتے ہیں، اپنا یہ پیغام بھیجتا ہوں۔‘
دعوتِ اوجلان کے اثرات کیا ہوں گے؟
یہ پیغام واضح طور پر اور کسی بھی تشریح یا تفسیر کی گنجائش کے بغیر کردستان ورکز پارٹی (PKK) کے حل کا اعلان کرتا ہے۔ یہ توقع کی جاتی ہے کہ تنظیم کے بیشتر ارکان اس دعوت پر عمل کریں گے، کیونکہ اس کی نافرمانی اوجلان کے خلاف بغاوت کا موجب بنے گی اور پھر کرد عوام کا کوئی بھی رکن تنظیم میں شامل نہیں ہوگا۔ چاہے تنظیم ہتھیار چھوڑے یا نہ چھوڑے، یہ اعلان ترکی کے لیے ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ میں ایک بڑی کامیابی شمار کیا جائے گا۔PKK کا تحلیل ہونا عراق کے کردستان میں بارزانی حکومت اور بغداد کی مرکزی حکومت کے موقف کو مستحکم کرے گا، کیونکہ یہ دونوں حکومتیں طویل عرصے سے تنظیم کے ساتھ مسائل کا سامنا کر رہی تھیں۔ اب وہ کسی بھی ایسے فرد کے ساتھ زیادہ آسانی سے نمٹ سکیں گے جو ہتھیار نہ ڈالے ہوں۔ اگرچہ اوجلان کی دعوت کو تسلیم کیا گیا، لیکن شام میں ’یگانِ حفاظتِ عوام‘ (YPG) نے اعلان کیا کہ وہ اس پر عمل نہیں کریں گے اور کہا کہ ’یہ دعوت ترکیہ کی PKK کے لیے ہے، ہم سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔‘ تاہم یہ قدم ’یگانِ حفاظتِ عوام‘ کے اندر تقسیمات کو جنم دے سکتا ہے، کیونکہ کچھ ارکان اوجلان کے مخالف کی حمایت کرتے ہیں، جس سے تنظیم میں افتراق کا امکان ہے۔ سیکورٹی ذرائع کے مطابق اسرائیل اور امریکا وہ اہم عوامل ہیں جن کی وجہ سے یگانِ حفاظتِ عوام نے اوجلان کی دعوت کو مسترد کیا، جس سے یہ تنظیم ترکیہ کی نظر میں ایک ’غیرملکی اجنبی فوج‘ بن جائے گی جو بیرونی ایجنڈوں کی خدمت کر رہی ہے۔
شامی حکومت نئے حالات سے فائدہ اٹھائے گی، کیونکہ وہ یگانِ حفاظتِ عوام پر مزید دباو ڈالنے کے قابل ہوگی تاکہ وہ اپنے ہتھیار چھوڑ دیں اور ریاست کے نظام میں ضم ہو جائیں۔ چاہے تنظیم نئے ناموں سے ظاہر ہو، اس کی حوصلہ افزائی اور جنگی محرکات ویسے نہیں رہیں گے جیسے پہلے تھے اور اس کا اثر وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتا جائے گا، یہاں تک کہ وہ مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔ ایسے بعض علاقوں میں جہاں PKK کی دھمکیوں کی وجہ سے خصوصی اقدامات کیے گئے تھے، متوقع ہے کہ ایمرجنسی حالت ختم کردی جائے گی، جس سے ترقیاتی منصوبوں اور سرمایہ کاریوں کو تیز تر کرنے میں مدد ملے گی۔ حزبِ شعوبِ جمہوریہ PKK کے دباو¿ سے آزاد ہوجائے گی، جس سے اسے ایک غیرمسلح سیاسی پالیسی اپنانے کا موقع ملے گا اور یہ ترکیہ میں جمہوریت کو مزید تقویت دے گا۔ رجب طیب اردوان اور دولت بہچلی تاریخ میں اس طور پر یاد کیے جائیں گے کہ یہ وہ سیاسی رہنما تھے جنہوں نے دنیا کی سب سے طویل مسلح بغاوت کا خاتمہ کیا۔ اس سے ان کی مقامی حیثیت مضبوط ہوگی اور ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا۔ ترکیہ کی قومی انٹیلی جنس کے سربراہ ابراہیم قالن اس عمل کے معمار کے طور پر تاریخ میں اہم مقام حاصل کریں گے، جس سے ان کی طاقت اور اثر و رسوخ میں اضافہ ہوگا۔