ٹرمپ کی من مانیاں۔ عالمی امن واستحکام کے لیے خطرہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد نہ صرف امریکا بلکہ عالمی سیاست میں بھی بھونچال کی کیفیت پیدا کردی ہے اور وہ بیک وقت کئی محاذوں پر مہم جوئی کرتے دکھائی دے رہے ہیں اور عالمی مفکرین کے نزدیک پریشانی اور تشویش کی بات یہ ہے کہ امریکی صدر کسی تخیلاتی نرگسیت اور خبط عظمت کے تحت اپنے تئیں دنیا کو بدلنے کے زعم میں مبتلا نظر آتے ہیں اور اس مقصد کے لیے وہ کسی بین الاقوامی قانون کو خاطر میں لانے کے روادار ہیں نہ انہیں پوری دنیا کی مخالفت کی کوئی پروا ہے۔

وہ کبھی پڑوسی ملک کینیڈا کو ضم کرنے کی بات کرتے ہیں تو کبھی گرین لینڈ پر قبضہ کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔انہوں نے ترنگ میں آکر ایک جانب خلیج میکسکو کانام خیلج امریکا رکھ لیا تو دوسری جانب پاناما کینال پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کا اعلان کردیا۔ کبھی ایک ملک کی مصنوعات پر ٹیرف لگانے کا فرمان جاری کردیا تو تو کبھی دوسرے پر۔جب دال نہ گل سکی تو خود ہی اس فرمان کو موخر کردیا۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ وہ ایک پراپرٹی ٹائیکون ہونے کے ناتے پیچیدہ عالمی مسائل کو بھی پراپرٹی ڈیلنگ کی طرح حل کرنے کے خواہاں ہیں۔چنانچہ انہوں نے مشرق وسطی کے مسئلے کا بھی یہی ”حل” پیش کیا ہے کہ غزہ سے دوملین سے زائد فلسطینیوں کو نکال کر اردن اور مصر میں دھکیل دیا جائے اور غزہ کے انتہائی شاندار ساحل اور معتدل موسم والے خطے پر قبضہ کرکے وہاں فلک بوس ٹاورز،بنگلے اور عیاشی کے اڈے بنائے جائیں تاکہ دنیا بھر میں قیمتی پراپرٹی پر نظر رکھنے والے ان کے ذاتی دوستوں اور پارٹنرز کی” جوع البقر” کی کچھ تسکین کا سامان ہوسکے۔اسی طرح کا” حل ”انہوں نے یوکرین کے صدر زیلنسکی کو پیش کیا تھا کہ اگر وہ یوکرین کے لیے مزید امریکی امداد چاہتے ہیں تو انہیں یوکرین کا معدنی ذخائر سے مالال خطہ امریکا کو دینا ہوگا۔صدر زیلنسکی کے انکار کے بعد اب انہوں نے روس کے صدر پوٹن سے رابطہ قائم کرلیا ہے اور بتایا جارہا ہے کہ امریکا یوکرین کے وہ مغربی علاقے جو روس کے قبضے میں جاچکے ہیں،ان پر روس کے قبضے کو تسلیم کرنے اور اس کے بدلے میں مذکورہ خطے پر اپنا قبضہ منوانے کی کوشش میں ہے جسے نہ صرف یوکرین بلکہ یورپی ممالک نے بھی مسترد کردیا ہے۔دل چسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے یوکرین کی جنگ میں اپنے یورپی اتحادیوں کو بالکل ہی نظر انداز کردیا ہے اور یورپی یونین کے رہنما پیرس میں ہونے والے اپنے سربراہی اجلاس میں اس پر باقاعدہ آنسو بہاتے دیکھے گئے ہیں۔یہاں تک کہ امریکا نے یوکرین کے معاملے پر روس کے ساتھ ریاض میں شروع ہونے والے مذاکرات میں خود یوکرین کو بھی باہر رکھا ہوا ہے اورعالمی مبصرین یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایک آزاد اور خودمختار ملک کے بٹوارے کا فیصلہ اس کی مرضی کے خلاف اور اس کے علم میں لائے بغیر کیسے کیا جاسکتا ہے۔ٹرمپ کی من مانیوں کا یہ عالم ہے کہ وہ کسی بھی معاملے پر اپنا فیصلہ پہلے سناتے ہیں اور متعلقہ اسٹیک ہولڈز سے بعد میں رابطہ کرتے ہیں۔انہوں نے سعودیہ ، اردن اور مصر کے بارے میں خود سے ہی یہ اعلان کردیا کہ وہ غزہ سے فلسطینیوں کے انخلا کے ان کے منصوبے سے متفق ہیں، تینوں ممالک نے اگلے ہی روز بیان جاری کرکے اس بیان کی تردید کردی ۔ اب امریکی وزیر خارجہ ما ر کوروبیو ہر ایک کے پاس جاکر ان سے ”متبادل پلان” پیش کرنے کی بات کر رہے ہیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کا دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہورہے ہیں۔انہیں شاید اندازہ نہیں ہے کہ ہر طرف اور ہر ایک کے خلاف محاذ کھول کر وہ نہ صرف عالمی امن و استحکام کو خطرے میں ڈال رہے ہیں بلکہ خود امریکا کی عالمی سطح پر تنہائی اور رسوائی کا بھی سامان کر رہے ہیں۔بہت سے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ٹرمپ سرکار کینیڈا کو اپنی ریاست بنانے کی سکت رکھتی ہے نہ گرین لینڈ پر اس کا قبضہ ہوسکتا ہے۔وہ چین کی معاشی سبقت کو روک سکتی ہے نہ یورپ کو نیچا دکھانے کی اس کی کوشش کامیاب ہوسکتی ہے۔غزہ پر قبضہ کرنے کا اس کا منصوبہ بھی دیوانے کا خواب ہی ہے اور اگر ٹرمپ نے اس منصوبے کو آگے بڑھانے کی کوشش کی تو اس کے نتیجے میں مشرق وسطی میں ایسی اگ لگے گی کہ اس کے شعلے خود امریکی لے پالک اسرائیل کو بھسم کرکے رکھ دیں گے تاہم ٹرمپ کے یہ سارے خیالی منصوبے دنیا کے امن واستحکام اور بین الاقوامی ہم آہنگی کو ضرور متاثر کریں گے اور ان کے نتیجے میں امریکا سے نفرت کا عالمی رجحان مزید بڑھے گا۔اس بنا پر ہم سمجھتے ہیں کہ عالمی قوتوں بالخصوص اقوام متحدہ،یورپی یونین اور روس چین جیسے بڑے ممالک کو چاہیے کہ وہ بین الاقوامی سیاست میں ٹرمپ کی من مانیوں کا راستہ روکیں اور امریکا کو عالمی قوانین اور بین الاقوامی ضابطوں کی پابندی کرنے کا کہیں۔ ورنہ دنیا میں جنگل کاقانون رائج ہوجائے گا اور کسی ملک اور قوم کی عزت و وقار اور خود مختاری ٹرمپ سرکار کی دست اندازی سے محفوظ نہیں رہے گی۔
باتوں میں نہیں کارکردگی میں مقابلہ کریں
سندھ میں پیش آنے والے روڈ حادثات کے بعد پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکومتوں کے درمیان بیان بازی کامقابلہ شروع ہوگیا ہے۔سندھ کے وزیر ٹرانسپورٹ شرجیل میمن نے صوبے کی شاہراہوں کی تعمیر نہ ہونے پر مسلم لیگ ن کی مرکزی حکومت کو نشانے پر لیا تو پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے جواب آں غزل میں سندھ حکومت کو آئینہ دکھایا۔جبکہ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ دونوں فریق اپنی جگہ ٹھیک کہہ رہے ہیں!یہ بھی سچ ہے کہ وفاقی حکومت نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے تحت آنے والی سڑکوں بالخصوص حیدر آباد سکھر موٹر وے کی تعمیر میں زیادہ دل چسپی نہیں دکھارہی اور اس شاہراہ پر کام کی رفتار نہایت سست ہے جس کے باعث وہاں حادثات معمول بن چکے ہیں جب کہ یہ بھی درست ہے کہ سندھ حکومت بھی اٹھارویں ترمیم کی بدولت صوبے کے نام پر کھربوں روپے کا بجٹ لینے کے باوجود سندھ میں ترقیاتی کاموں کا کوئی نمایاں تاثر قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہے۔سندھ کی سڑکوں پر مسافروں کو ڈاکوؤں سے تحفظ حاصل نہیں ہے جوکہ بدیہی طور پر صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صوبائی حکومتوں کو ایک دوسرے کے خلاف بے مقصد بیان بازی کی بجائے عملی کار کردگی میں مقابلہ کرنا چاہیے اور اپنی ناکامیوں کا الزام دوسروں کو دینے کی بجائے اپنا اپنادفتر عمل پیش کرنا چاہیے۔