پاکستان کے عوام اور محافظ اداروں کے خلاف افغان سرزمین کے استعمال سے دہشت گردی کی کارروائیاں مسلسل جاری ہیں۔ دور حاضر کا فتنۂ خوارج پاکستان کی سا لمیت کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے اور اس کی بھرپور کوشش ہے کہ دہشت گردی کے ذریعے وہ پاکستان کو ایک ناکام ریاست میں تبدیل کر سکے۔
دہشت گردوں کا بنیادی ہدف پاک فوج ہے تاہم وہ دیگر سیکورٹی اداروں کے جوانوں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں، جیسا کہ بلوچستان کے علاقے نوشکی اور کیچ میں پولیس اور ایف سی کے جوانوں پر حملے کیے گئے ہیں۔ ان حملوں میں شہادتوں کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ فی الواقع دہشت گردوں نے پاکستان کے خلاف گوریلا جنگ شروع کر رکھی ہے۔ گوریلا جنگ کو ایک غیر متوازی جنگی حربہ سمجھا جاتا ہے جس میں ایک بڑی طاقت کو طویل مدتی جنگ میں الجھا کر گھٹنوں کے بل گرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ گوریلا جنگ ریاست کے وسائل کو نچوڑنے لگتی ہے، اس جنگ کے ذریعے ریاست کے علاقائی کنٹرول کو چیلنج کیا جاتا ہے، عوام کے اعتماد کو متزلزل کر دیا جاتا ہے اور ریاست کے خلاف بین الاقوامی ردعمل کو اپنے مقاصد کے مطابق ڈھالنے کی جدوجہد کی جاتی ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں مسلم حریت پسند جماعتوں نے عالمی غلبہ رکھنے والی طاقتوں کے خلاف متعدد مقامات پر اسی غیر متوازی جنگی حربے سے کام لیا ہے، تاہم اب یہی ہتھیار عالمی طاقتوں نے مسلم ریاستوں کے خلاف استعمال کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ داعش، ٹی ٹی پی اور فتنۂ خوارج کے دیگر گروہ عالمی طاقتوں کے لیے یہی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ نہایت افسوس کی بات ہے کہ اس سلسلے میں افغان حکومت دہشت گردوں کی معاون و مددگار ثابت ہو رہی ہے حالانکہ افغانستان میں حالیہ امن کے قیام کے لیے بے شمار پاکستانی نوجوانوں کا خون بہا اور خود پاکستانیوں نے بھی ہر ممکن طورپر امن و سلامتی کی حمایت اور تائید کی تھی۔
پاکستان کے خلاف جاری دہشت گردی اور فتنۂ خوارج کی سرگرمیوں کے خلاف آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے طلبہ وطالبات کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے گزشتہ دنوں واضح اور دوٹو ک الفاظ میں کہا کہ فتنۂ خوارج کی سوچ کو ملک پر مسلط نہیں ہونے دیں گے، پاک فوج اس فتنے کے خلاف آہنی دیوار بن کر کھڑی ہے اور ریاست ان دہشت گردوں اور فسادیوں کو کچل کر رہے گی۔ آرمی چیف نے یہ وضاحت بھی کی کہ پاک فوج دینِ اسلا م کے متعلق خوارج کی تشریح کو غلط سمجھتی ہے۔ خوارج کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ قرآن کریم کے فرمان کے مطابق یا توبہ کرلیں یا پھر ریاست ان کے لیے عذابِ الٰہی بن کر رہے گی۔ یہ واضح رہے کہ دہشت گردوں یا فسادی گروہوں کو فتنۂ خوارج قرار دیے جانے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے قتل کو اپنے مزعومہ نظریات (نہ کہ دینی عقائد) کی وجہ سے واجب القتل سمجھتے ہیں اور اسی بنا کر وہ فروعی، اجتہادی اور مختلف فیہ مسائل میں اختلاف کرنے والوں کو قتل کرنے سے گریز نہیں کرتے جبکہ ازروئے شرع اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ عقلی طورپر بھی دیکھا جائے تو ان پرتشدد گروہوں کے لیے پاک فوج پر حملے کرنا دراصل خطے میں امن کے قیام میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ فساد پھیلا کر امن کی خواہش حماقت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ دینِ اسلام کی ایسی تصویر پیش کرنا جو صرف تشدد، باہمی جنگ و جدال، قتل و غارت گری اور بدامنی کے مظاہر کو پیش کرتی ہو، عقلی طورپر کس طرح درست ہو سکتا ہے؟ پاکستان کے حالات کی اصلاح کے لیے تشدد، مسلح بغاوت اور غریب و پس ماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے عام فوجی جوانوں اور اہلکاروں کو جان سے مار دینا بھلا کیسے درست ہو سکتا ہے؟ دینِ اسلام کسی ایک بے گناہ کے قتل کی اجازت بھی نہیں دیتا کجا کہ وہ ایک پورے مسلم معاشرے کی تباہی کا حکم دے۔
حقیقت یہ ہے کہ فتنۂ خوارج کی سرگرمیاں فتنہ و فساد کو پھیلانے کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ پاکستان کے پاس اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ دہشت گرد ہوں یا فتنۂ خوارج کے فسادی ہرکارے، ان سب ہی کو بھارت اور دیگر طاقتوں کی خفیہ ایجنسیوں کی معاونت حاصل ہے، افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے اور برادر مسلم ملک کے بہت سے اہم افراد وہی سنگین غلطی دہرا رہے ہیں جس کی وجہ سے ماضی کی پشتون حکومتیں بھی تباہی سے دوچار ہوئی ہیں۔ اس تمام قضیے میں اہم سوال یہ ہے کہ حکومت اور فوج آخر اس فتنے سے کیسے نمٹ سکتے ہیں؟ یہ بات ذہن نشین کر لی جانی چاہیے کہ محض طاقت کا استعمال اس فتنے کا حقیقی تدارک نہیں ہے۔ افغانستان سے قطع تعلق یا تمام افغان باشندوں کی بے دخلی بھی آخری حل نہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان ہم خیال ممالک کو اپنے موقف پر قائل کرے جیسا کہ چین، ترکیہ اور سعودی عرب اس وقت پاکستان کے موقف کو سمجھ رہے ہیں، افغانستان کے دیگر اہم قومی طبقات اور ان کے نمائندوں سے بات چیت کی جائے، سرحدوں کی حفاظت کو مزید یقینی بنایا جائے اور ایسے سیاسی گروہوں اور حکومت اور فوج کی صفو ں میں موجود افراد کا کڑا احتساب کیا جائے جوکہ فتنۂ خوارج کے نظریات یا مال و زر کے بدلے دہشت گردوں کے سہولت کار بن رہے ہیں۔ ملک میں داخل ہونے والے دراندازوں اور دہشت گردوں کے خلاف جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے۔ اس سلسلے میں ترکیہ سے حاصل کی جانے والی ڈرون ٹیکنالوجی اہمیت کی حامل ہے۔
دہشت گردوں جس وقت میدان جنگ میں ہوں تو ان کا واحد علاج ان کا خاتمہ ہی ہے تاہم میدانِ جنگ کے علاوہ نظریات و افکار کے وسیع میدان میں بھی کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ فساد کا ہر سطح پر خاتمہ کیا جا سکے۔ انتظامی تدابیر کے ساتھ ساتھ اہلِ وطن کو اس امر کی جانب بھی توجہ دینی چاہیے کہ ہم من حیث القوم کس جانب گامزن ہیں؟ کیا یہ درست نہیں کہ قول و عمل کے تضاد اور شریعت کے احکام سے روگردانی کی وجہ ہی سے ہمیں باہمی منافرت، انارکی، معاشی بدحالی، دہشت گردی اور پے درپے مسائل کا سامنا ہو رہا ہے۔ ہم ابھی تک قومی مقاصد، اپنے عقائد و نظریات، روایات و اقدار اور تہذیب کے مطابق تعلیم و تربیت کا پیرا ڈائم یا کوئی مؤثر اجتماعی خاکہ تشکیل دینے میں کامیاب نہ ہو سکے، قومی مقاصد کے مطابق افراد کی اصلاح و تربیت کی جانب ہماری توجہ ہی نہیں، انگریز دور کے بنائے ہوئے فرسودہ فریم ورک میں رہ کر ہم کب تک اپنی قومی سلامتی اور اس کے بیانیے کا دفاع کر سکیں گے؟ درحقیقت ہمیں اپنی اصلاح کی جانب بھی متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد ہی ہم دہشت گردی کے خلاف قومی عزم کو بروئے کار لا سکتے ہیں۔