تحریر : علامہ سید سلیمان ندوی ؒ
حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کاندھلویؒ اِس عہد میں اُن نفوسِ قدسیہ کی مثال تھے جن کے دم قدم سے ہندوستان میں اِسلام کا چراغ روشن ہوا، اُن کا وجود اِس دعوے کی کہ ہندوستان میں اِسلام بادشاہوں کے تیغ و خنجر کے سایہ میں نہیں، بلکہ بے نوا فقیروں کے فیوض و برکات کے زیرِ سایہ بڑھا اور پھلا پھولا ہے، سب سے زیادہ تازہ دلیل ہے۔
پایہ تخت دہلی کے اِرد گرد ہزاروں میواتی جن کی تعداد کم و بیش پچاس لاکھ تک پہنچ جاتی ہے، سینکڑوں برس کے شاہانہ جاہ و جلال اور رعب و ہیبت کے باوجود ایسے ہی نومسلم تھے، جو اِسلام کے بجائے بت پرستی سے زیادہ قریب تھے اور 1907ء سے لے کر پھیلے آریہ فتنے تک اُن کے اِرتداد کا خطرہ ہمیشہ مسلمانوں کو دامن گیر رہتا تھا۔ حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ نے نہایت خاموشی کے ساتھ صرف اپنے مخلصانہ سادہ طریق اور صحیح اُصول و دعوت کے ذریعہ پچیس برس کی انتھک محنت میں اُن کو خالص و مخلص مسلمانوں کی صورت میں بدل دیا، جن کے ظاہر و باطن پر خاندانی مسلمانوں کو بھی رشک آتا ہے۔ مولانا نے اپنے بھائی کی جگہ بستی نظام الدین میں متوکلانہ اِقامت شروع کی، اِبتداءمیں اُن کو بڑی تکلیفوں کا سامنا ہوا، مگر اُن کے پائے اِستقامت کو لغزش نہیں ہوئی۔ آخر اللہ تعالیٰ نے اُن کے کاموں میں برکت دی اور اُن کو مسلمانوں میں حسنِ قبول عطا فرمایا۔
سب سے پہلے اُنہوں نے مکتب کو ترقی دِی، جو وہاں پہلے سے قائم تھا اور اُس کو مدرسہ کی سطح پر لے آئے، شروع سے اُن میں علمی کے بجائے عملی رنگ تھا۔یہی گہرائی اُن کے کاموں میں بھی تھی، مدرسہ قائم کیا تو ہر طالب ِعلم کا یہ فرض قرار دیا کہ ہر نماز کے بعد ایک طالب ِعلم کھڑا ہوکر نمازیوں کے سامنے ایک مسئلہ بیان کردے، دوسرا ایک حدیث سنادے، تیسرا قرآن پاک کی کسی آیت کا ترجمہ اور مطلب بیان کردے۔ اِس طرح نمازیوں کا بڑا فائدہ ہونے لگا اور اسی سے اُن کی تبلیغی کوششوں کا آغاز ہوا۔ مولانامحمد الیاس کاندھلویؒ کا طریقِ دعوت بالکل سادہ تھا، خود سادہ تھے، سراپا اِخلاص تھے، سراپا درد تھے، دِین کے سچے غم خوار، اللہ پر متوکل، ایک دھن تھی کہ دِن رات اُن کو بے قرار رکھتی تھی، اُن کا چلنا پھرنا، اُٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا جو تھا وہ صرف دِین کی خدمت اور مسلمانوں کی غم خواری اور اِصلاح کی فکر تھی، یہی اُن کی تقریر تھی، یہی اُن کی گفتگو اور اسی کا شب و روز ملنے جلنے والوں سے اعلان و اظہار۔
میں نے مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ کا ذکر ِخیر مدت سے سن رکھا تھا، ہمارے مدرسہ دارالعلوم ندوة العلماءکے متعدد اساتذہ کرام جن کے سرخیل مولانا سیّد ابو الحسن علی ندوی تھے، کئی دفعہ بستی نظام الدین جاکر حضرت مولانا سے مل چکے تھے، بلکہ ہمارے یہاں سے کئی سال سے متواتر طلباءکے وفود مولانا کے حلقہ مبلغین میں داخل ہوکر خدمت کیا کرتے تھے اور واپس آکر اپنے تاثرات بیان کرتے تھے، مگر خاکسار کو ذاتی طور پر نیاز کا شرف حاصل نہ تھا۔
اِتفاق دیکھئے کہ انہیں دنوں مولانا سیّد ابوالحسن علی صاحب ندویؒ نے حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ اور اُن کے ساتھیوں کو لکھنو اور ندوہ میں قیام کرنے کی دعوت دی۔ چنانچہ شعبان کی بیچ کی تاریخ اس کے لیے مقرر ہوئی، ادھر رجب کے شروع میں جولائی کی بیچ کی تاریخیں تھیں، خاکسار تھانہ بھون میں تھا کہ مولانا کی آمد کی اطلاع ملی اور تھوڑی دیر کے بعد معلوم ہوا کہ وہ واپس دہلی کے لیے اسٹیشن روانہ ہوگئے، مجھے بھی دہلی جانا تھا اور اسی گاڑی سے مولانا ظفر احمد عثمانی کے ساتھ اسٹیشن آیا، دیکھا کہ ایک دبلے پتلے نحیف سے میانہ قد، بڑی داڑھی، کچھ کچی اور کچھ پکی، ہاتھ میں چھڑی، سر پر عمامہ، مگر وہ کبھی سر سے اُترا اور کبھی سر پر رکھا ہوا۔ اسی طرح جسم پر لمبے کرتے کے اُوپر ایک عبا سا لیے، زمین پر ایک کمبل بچھائے درخت کے نیچے بیٹھے ہیں۔ ہم دونوں بھی سلام کے بعد جاکر بیٹھ گئے وہ اور مولانا ظفر احمد عثمانی ؒتو مدت کے رفیق اور ایک دوسرے کے محب دوست تھے۔ مولانا نے فوراً اپنی تبلیغ کی تقریر شروع کردِی اور اُن کو اپنے طریقِ دعوت کی توضیح بھی بیان فرماتے رہے اور وہ مجھ سے بالکل ناآشنا تھے اور میں اُن کے نام اور کام سے آشنا، مگر خود اُن کی حقیقت سے ناآشنا تھا، میں اُن کی باتوں کو چپ سنتا رہا۔
آخر میں یہ عرض کی کہ حضرت! ایسے لوگوں کو جو صرف دو چار دن آپ کی صحبت میں رہے، اُن کو تزکیہ اور تصفیہ کے بغیر مبلغ بناکر بھیجنا کیونکر مفید ہوگا؟ فرمایا: مکتوباتِ مجدد الف ثانی ؒ پڑھیے معلوم ہوجائے گا۔ دوبارہ عرض کی:میں نے اُن کو پڑھا ہے مگر اُن سے تو اِس مشکل کا حل معلوم نہ ہوا۔ شاید مولانا کو کچھ اچنبھا سا ہوا۔ جناب مولانا ظفر احمد صاحب سے پوچھا یہ کون ہیں؟ اُنہوں نے میرا نام لیا تو خوشی سے اُچھل پڑے، کھڑے ہوگئے، سینہ سے لگایا اور مجبور کیا کہ انہی کے ساتھ انہی کے ڈبہ میں سیکنڈ کلاس میں سفر کروں، میرا ٹکٹ بدلوایا اور اس وقت سے لے کر کاندھلہ تک برابر ڈیڑھ دو گھنٹہ بڑے جوش و خروش سے کلام فرماتے رہے۔ اُن کی زبان میں لکنت تھی، تقریر پر قادِر نہ تھے، تقریر بھی اُلجھی ہوئی ہوتی تھی، مگر جوش و خروش کا سمندر اُن موانع کے سارے خس و خاشاک کو بہائے لے جاتا تھا، تھوڑی گفتگو کے بعد
واہ رے تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا وہ بھی میرے دِل میں ہے
جسمانی کمزوری اور ضعف ِسینہ کے باجود اُن کے پھیپھڑے اُن کی پُرزور تقریر اور پُرجوش گفتگو کے تسلسل اور تواتر کے سبب ہر وقت اس طرح اُبھر اُبھر کر اُٹھتے تھے کہ مجھے تو ڈر لگتا تھا کہ کہیں یہ پھٹ نہ جائیں یا گلے کی رگیں جو بار بار پھول پھول جاتی تھیں وہ نہ پھٹ جائیں۔ یہ سب سہی مگر دریا اپنی روانی میں ہر خطرہ سے بے خبر اور ہر اُفتاد سے بے پروا تھا۔ حضرت مولانا نے اس اثناءمیں جو کچھ فرمایا میں نے اپنی اِستعداد کے مطابق اُس کو پوری طرح سمجھ لیا، اتنے میں کاندھلہ آیا اور وہ اُتر گئے، مگر مجھ سے یہ وعدہ لے لیا کہ کل رات کو دہلی میں پھاٹک حبش خاں میں اُن کا تبلیغی جلسہ ہے، میں اُس میں شرکت کروں۔ چنانچہ شریک بھی ہوا اور تقریر بھی کی اور مولانا نے اس کی تصدیق و تصویب بھی فرمائی۔میں اس سفر سے لوٹ کر جب لکھنو¿ آیا تو حضرت مولانا کے تبلیغی احباب کی آمد لکھنو میں شروع ہوچکی تھی اور ندوہ کی مسجد میں اُن کا قیام تھا، اللہ اللہ کیا سادگی کی شان پائی، سادہ تکلف سے بری، شب زندہ دار، تہجد گزار، پچھلے پہر سے ذکر و فکر میں مصروف صبح کی نماز پڑھ کر اپنے کام کے لیے مستعد اور تیار۔
ایک دو روز کے بعد مولانا محمدالیاس کاندھوی ؒ مع اپنے دوسرے رفقاء کے آئے اور ندوہ کے مہمان خانہ میں ساتھ ہی قیام فرمایا اور تقریباً ایک ہفتہ تک دن رات ساتھ رہا، ہر گفتگو میں شریک اور ہر مجلس میں رفیق۔ جیسے جیسے ملتا جاتا تھا اُن کی تاثیر بڑھتی جاتی تھی۔ مولانا کی تقریر گو اُلجھی ہوئی اور بیان ژولیدہ بدستور تھا، مگر میں نے جو دیکھا کہ جو آیا وہ اثر سے خالی نہ گیا
اُدھر کہتا گیا وہ اور اِدھر آتا گیا دل میں
اثر یہ ہونہیں ہوسکتا، کبھی دعوائے باطل میں
لکھنو میں کئی جلسے ہوئے اور بار بار تقریریں ہوئی، لوگوں نے مطلب سمجھا، شرکت پر آمادہ ہوئے، کام کا آغاز ہوا، دِلی سے مبلغین لکھنو کے کوچہ کوچہ میں پھرے اور مسلمانوں کو کلمہ اور نماز کی تلقین کی۔ ایک ہفتہ کے بعد کانپور کی جانب کوچ ہوا، دو تین روز قیام رہا، خاکسار بھی ساتھ تھا، یہاں ہر وقت اُن کی صحبت اُٹھائی، اُن کی تقریریں بھی سنیں۔اُن کے کام کو جانچا، اُن کی دھن کو دیکھا، ہر وقت مسلمانوں کی اِصلاح، دین کی سربلندی اور اعلائے کلمہ کے لیے درگاہِ الٰہی میں دست ِنیاز دراز، آنکھیں پرنم، آواز دِل گیر۔
زیادہ دیکھنے والوں اور بار بار ملنے والوں کو تو خدا جانے کیا کیا ادائیں پسند ہوں گی ،لیکن مجھے اس تھوڑی سی ملاقات میں اُن کی تین ادائیں بہت پسند آئیں؛ صبح کی نماز کے بعد مقتدیوں کے رخ بیٹھ کر وہ کام کرنے والوں کو دن کا کام سمجھاتے تھے اور بار بار اُن کی کامیابی کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائیں فرماتے تھے۔ اُن دعاوں میں لفظ ’اللہ‘ اُن کے دِل کی گہرائی سے نکل کر دوسروں کے دِلوں کی گہرائی میں گھر کرلیتا تھا، ”ہر چہ از دِل خیزد بردِل ریزد“۔
مختلف اوقات میں اُن کی زبان سے کسی قدر یہ دعائے ماثورہ :
یا حیی یا قیوم ، برحمتک استغیث ، اصلح لی شانی کلہ ولا تکلنی الی نفسی طرفۃ عین
(ترجمہ: اے حی وقیوم خدا ! میں تیری رحمت سے چاہتا ہوں کہ تو میری فریاد کو سنے، تو میری حالت کی درستی فرمادے اور ایک لمحہ کے لیے بھی مجھے میرے نفس پر نہ چھوڑے) نکلتی تھی اور اُن کے فقر و اِلتجا اِلیٰ اللہ کی کیفیت کو ظاہر کرتی تھی، وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ رہتے تھے اور اُن میں کسی قسم کا اِمتیاز نہیں چاہتے تھے، وہ لکھنو سے کانپور اپنے ہمراہیوں کے ساتھ تھرڈ کلاس میں سوار تھے۔ اُن کے بعض معتقد فرسٹ کلاس میں سوار تھے، بھیڑ کا یہ عالم تھا کہ تھرڈ میں تو ہلنا، بلکہ اپنی جگہ سے نکلنا بھی مشکل تھا، سیکنڈ میں بیٹھنے کی جگہ تھی، مگر اندر جانے کی جگہ نہ تھی، فرسٹ میں گنجائش تھی ہر اسٹیشن پر کوشش کی گئی کہ مولانا نکل کر فرسٹ میں چلے آئیں، مگر منظور نہیں فرمایا۔ آخر کانپور کے قریب پہنچ کر ظہر کی نماز یا اور کسی ضرورت کی بناءپر اس درجہ میں داخل ہوئے۔
لکھنو کے قیام میں ایک دفعہ ایک دوست کے ہاں عصر کے وقت چائے کی دعوت تھی، پاس کوئی مسجد نہ تھی، اُن کی کوٹھی ہی میں نماز باجماعت کا سامان ہوا، خود کھڑے ہوکر اذان دی، اذان کے بعد مجھ سے اِرشاد فرمایا کہ نماز پڑھاو، میں نے معذرت کی تو نماز پڑھائی۔ نماز کے بعد مقتدیوں کی طرف رخ کر کے فرمایا: ”بھائیو! میں ایک اِبتلا میں گرفتار ہوں، دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے نکالیں، جب سے میں یہ دعوت لے کر کھڑا ہوا ہوں لوگ مجھ سے محبت کرنے لگے ہیں، مجھے یہ خطرہ ہونے لگا ہے کہ مجھ میں اعجابِ نفس نہ پیدا ہوجائے، میں بھی اپنے کو بزرگ نہ سمجھنے لگوں، میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ مجھے اِس اِبتلاءسے بسلامت نکال لیں، آپ بھی میرے حق میں دعا فرمائیں۔“
مجھے کبھی بستی نظام الدین جانے اور اُن کی مسجد میں قیام کرنے کا اِتفاق نہیں ہوا، مگر جانے والوں سے سنا کہ پچھلے پہر رات کا سماں بڑا موثر ہوتا تھا، دن کے سپاہی رات کے راہب بن جاتے تھے، ہر طرف سے تہجد گزاروں اور ذاکروں اور تسبیح خوانوں کی آوازیں بلند ہوتی تھیں، کوئی سجدہ میں ہوتا تھا تو کوئی رکوع میں، کوئی گریہ و بکا میں تھا، تو کوئی دعاوں میں۔ اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سچائی کا ایک آفتاب کیونکر متعدد ذروں کو اپنے پاس کھینچ کر روشن بنادیتا ہے۔
مولانا کا جسمانی ضعف، پھر شب و روز کی یہ محنت اور دعوت کے کاموں میں ہمہ وقت کا یہ شدید اِنہماک اور آرام و راحت کی ہر تدبیر سے کامل اعراض نے ادھر اُن کو ضعیف بنادیا تھا، مہینوں سے پیچش اور اِسہال کا عارضہ پیدا کردیا تھا اور ضعف روز بروز بڑھتا جاتا تھا۔ ہر علاج ناکام رہا، مگر اس حالت میں بھی کام کے اِنہماک اور دعوت کے جوش کا وہی عالم تھا۔ آخر میں یوں تو نشست و برخاست دشوار ہوگئی تھی، سہارے سے اُٹھتے بیٹھتے تھے، مگر اس حالت میں بھی نماز باجماعت کا اہتمام اخیر تک رہا، بلکہ فرض نماز کھڑے ہوکر ادا فرماتے رہے اور خدا جانے اس وقت اُن کے اندر کہاں سے طاقت آجاتی تھی۔ اُس زمانہ میں جو لوگ اُن سے ملنے اور اُن کو دیکھنے گئے، سب نے اُن کی بڑی پرتاثیر کیفیتیں بیان فرمائی ہیں۔
21 رجب1363 ھ (13 جولائی 1944ء) کو وفات پائی اور اسی مقام بستی نظام الدین کی مسجد کے صحن کے باہر جنوبی و مشرقی گوشہ میں اپنے والد و برادر معظم ؒ کے پہلو میں سپرد ِخاک ہوئے۔ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ کی قبر پر خوب رحمتیں برسائے
چپہ چپہ پہ ہے واں گوہر یکتا تہِ خاک
دفن ہوگا نہ کہیں ایسا خزانہ ہرگز