پاکستان کا فلسطینی کاز کے اہم ذمہ داروں کو پناہ دینے کا فیصلہ (علی ہلال )

عرب خبررساں ادارے نے بااعتماد فلسطینی ذرائع کے حوالے سے کہاہے کہ 19 جنوری کو غزہ میں ہونے والی جنگ بندی اور قیدی تبادلے کے نتیجے میں اسرائیلی جیلوں سے رہا ہونے والے اہم فلسطینی قیدیوں کو رکھنے کا معاملہ حل ہوگیا ہے اور چار ممالک نے ان فلسطینیوں کو اپنے ہاں جگہ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ ان ممالک میں مصر، ترکیہ، ملائشیا اور پاکستان کے نام لئے گئے ہیں۔

عرب ذرائع کے مطابق ملائشیا، ترکیہ اور پاکستان حماس کے ساتھ قیدی تبادلے میں اسرائیلی جیلوں سے رہائی پانے والے عمرقید کے سزایافتہ پندرہ پندرہ فلسطینیوں کو اپنے ہاں پناہ دیں گے۔

رپورٹ کے مطابق ان میں سے مصر نے فلسطینی تحریک ’الفتح‘ سے تعلق رکھنے والے افراد کو رکھنے کا وعدہ کیاہے جبکہ باقی تینوں ممالک کو پندرہ پندرہ افراد دیے جائیں گے۔ حماس اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے قیدی تبادلے کے تحت حماس کی جانب سے 33 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہائی پر اتفاق ہوا تھا، جن کے بدلے اسرائیلی جیلوں سے 1904 فلسطینی قیدیوں کی رہائی عمل میں آئے گی۔ جن میں سے 1167 کا تعلق غزہ کی پٹی سے ہے اور انہیں اسرائیلی فورسز نے سات اکتوبر کے بعد شروع ہونے والی جنگ میں زمینی حملے کے دوران گرفتار کیا تھا۔

مسئلہ کشمیر بھی مسئلہ فلسطین کی طرح عالمی اُفق پر اُٹھے گا! ( منصور عادل)

قیدی معاہدے کے دوران اسرائیل کی اس شرط کو تسلیم کیا گیا تھا کہ رہائی پانے والے بعض قیدیوں کو فلسطین سے جلاوطن ہونا پڑے گا۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے 18 جنوری کو پریس کانفرنس میں رہائی پانے والوں کی لسٹ میں شامل بعض فلسطینی قیدیوں کو اسرائیلیوں کے قاتل کا نام دے کر کہا تھا کہ انہیں رہائی ملنے کے بعد غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں رہنے نہیں دیا جائے گا بلکہ ان جلاوطن کیا جائے گا۔ جن فلسطینی قیدیوں کو جلاوطن کرنے پر اتفاق ہوا ہے الجزیرہ کے مطابق اُن کی تعداد 180 ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ان افراد کی مغربی کنارے میں موجودگی اسرائیل کی قومی سلامتی کے لیے خطرناک ہے۔ لہٰذا اسرائیل ان کو فلسطینی اراضی پر کسی صورت برداشت نہیں کرے گا۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے بلکہ ماضی میں بھی حماس اسرائیل کے درمیان ہونے والے قیدی معاہدوں میں اس نوعیت کی شرطیں رکھی جاتی رہی ہیں۔

آخری مرتبہ 2011ء میں جلعاد شالیط کے بدلے رہا ہونے والے ایک ہزار ستائیس فلسطینی قیدیوں میں سے کئی افراد کو جلاوطنی کی شرط پر رہائی ملی تھی۔ اسرائیل ان افراد کے وجود کو اسرائیل کے لئے خطرہ قرار دے رہاہے اور اسرائیلی اداروں کا خیال ہے کہ یہ افراد مغربی کنارے میں رہ کر فلسطینی تحریک کو ہوا دینے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ 25 جنوری کو رہا کئے جانے والوں میں 121 عمر قید اور79 افراد سخت کیسز میں قید تھے۔ یہ وہ افراد ہیں جن کے بارے میں دوران معاہدہ فلسطینی تنظیموں نے اسرائیلی مطالبے پر یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ رہائی کے بعد غزہ یا مغربی کنارے میں نہیں رہیں گے اور انہیں بیرون ملک بھیج دیا جائے گا جہاں وہ جلاوطنی کی زندگی گزاریں گے۔
اس معاہدے کے تحت ان افرادکو رہا یہ ملتے ہی مصر پہنچا دیا گیا ہے جہاں سے انہیں تیونس ،الجزائر اور دیگر ممالک تک جانے کا کہا گیا تھا۔ فلسطینی شہداءاور اسیروں کے ادارے کے میڈیا ذمہ دار ’ناید الفاخوری‘ نے بتایا کہ منگل کو ان افراد کا پہلا پندرہ رکنی گروپ 4 فروری کو استنبول پہنچ گیا ہے جبکہ پاکستان میں پناہ لینے والے اسیروں کے جانے کی تیاریاں جاری ہیں اور اگلے چند روز کے اندر انہیں بھیج دیا جائے گا۔ الفاخوری نے بتایا کہ الجزائر نے ماضی کے برعکس ان اسیروں کو جگہ دینے پر رضامندی ظاہر نہیں کی جبکہ تیونس نے کھلے لفظوں کسی بھی فلسطینی اسیر کو جگہ دینے سے انکار کردیا ہے۔
پاکستان اور ملائشیا کی جانب سے فلسطینی قیدیوں کو پناہ فراہم کرنے کا معاملہ بہت اہم ہے۔ اس فیصلے کے پاکستان کے حوالے سے اسلامی دنیا کی سطح پر بڑے مثبت اثرات ہوں گے۔ ایران جیسا ملک جس نے ہمیشہ فلسطینی کارڈ کھیل کر عوامی سطح پر اپنے بارے میں ایک ذہن بنایا ہے مشرق وسطی کا ملک بھی ہے۔ وہ اس وقت فلسطینیوں کو پناہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے نمایاں عرب ملک الجزائر نے انکار کیا ہے۔پاکستان عرب ملک ہے اور نا ہی مشرق وسطیٰ میں واقع ہے لیکن عربوں کے ہر قومی معاملے میں پاکستان ہمیشہ سے بڑی جرات و بہادری کے ساتھ موقف دینے کے بعد فلسطینی ذمہ داروں کو پناہ دینا ایک بڑا فیصلہ ہے۔

مبصرین کے مطابق فلسطینیوں کو پناہ دینا پاکستان کے لئے ایک منفرد اعزاز ہے مگر یہ فیصلہ  آسان نہیں

تجزیہ کاروں کے مطابق یہ پاکستان کے لئے ایک منفرداعزاز ہے تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق یہ فیصلہ کوئی آسان نہیں ہے۔ان مہمانوں کے تعاقب میں پاکستان میں موساد جیسی انٹیلی جنس ایجنسی کی کارروائیوں کا خطرہ رہے گا۔ موساد کے ہاتھوں جلاوطن فلسطینی راہنماوں کے قتل کی ایک طویل فہرست ہے۔
1988ء میں موساد نے تیونس میں یاسر عرفات کے نائب خلیل وزیر (ابوالجہاد)  کو ایک بڑا آپریشن کرکے قتل کیا تھا۔ تیونس میں موساد نے فلسطینی کاز سے وابستہ چار سینئر ترین مجاہدین کو مارا تھا۔ 2010ءمیں دبئی میں محمود مبحوح کو بھی موساد نے ہوٹل میں شہید کیا۔ ملائشیا میں بھی موساد فلسطینی انجینئروں کو نشانہ بنا چکی ہے۔ صرف 2000ء سے 2018ء تک موساد نے فلسطینی کاز سے وابستہ 6 بڑے فلسطینیوں کو فلسطین سے باہر ٹارگٹ کیا ہے جن میں 2004ء میں دمشق میں عزالدین شیخ ، جنوری 2010ء میں دبئی میں محمود مبحوح ، فروری 2016ء میں بلغاریہ میں عمر النایف ،دسمبر 2016ء میں ڈرون طیاروں کے انجینئر محمد الزواری کوتیونس جبکہ اپریل 2018ء میں حماس کے الیکٹرونک انجینئر فادی البطش کو اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد کے ایجنٹوں نے قتل کیا ہے۔ اس سے قبل موساد کے ہاتھوں قتل ہونے والے آزادی فلسطین کے ہیروز کی ایک طویل فہرست موجود ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ان تمام واقعات کے پیش نظر پاکستان کو بہت چوکنا رہنا پڑے گا۔یہ کوئی آسان سودا نہیں ہے۔