مسئلہ کشمیر بھی مسئلہ فلسطین کی طرح عالمی اُفق پر اُٹھے گا! ( منصور عادل)

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عوامی و حکومتی سطح پر بھارت کے تسلط اور جبر کے خلاف کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کا دن منایا جارہا ہے۔

پاکستان میں پہلی مرتبہ 5 فروری 1990ءکو یوم یکجہتی کشمیر کا انعقاد کیا گیا جس کے بعد سے یہ سلسلہ رکا نہیں ہے۔ حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود بھی یوم یکجہتی کشمیر پر کبھی اثر نہیں پڑا اور ہر سال حکومتِ پاکستان یوم یکجہتی کشمیر بڑے جوش و خروش کے ساتھ مناتی ہے۔ رواں برس پاکستان میں 35واں یوم یکجہتی کشمیرہے جس کے لیے کراچی سے خیبر تک یوم یکجہتی کشمیر کے سلسلے میں ریلیوں کا انعقاد و انتظام کیا گیا ہے۔

اداریہ: عالمی جبر کے خلاف مزاحمت کا نمایاں استعارہ

پاکستان میں یوم یکجہتی کشمیر کی تاریخ 35 برس سے بھی پرانی ہے۔ 1975ءمیں شیخ عبداللہ اور اندرا گاندھی کے درمیان معاہدہ ہوا تو پاکستان میں عوام اور حکومت نے کشمیر کے حصوں میں رہنے والے کشمیری بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کا دن منانا شروع کیا، تاہم اس وقت یکجہتی کشمیر 28 فروری کو منایا جاتا تھا۔ بعد ازاں 1990ءمیں اسے پانچ فروری میں تبدیل کردیا گیا جس کے بعد سے یہ سلسلہ کبھی ٹوٹا نہیں۔

 1990 ءکا یہ انتہائی نازک دور تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب بھارتی قبضے میں جانے کے خلاف کشمیر میں مسلح تحریک اپنے ابتدائی مراحل میں تھی اور تنازع کشمیر کے سیاسی طور پر حل ہونے کے امکانات سے مایوس کشمیری نوجوان عسکری تحریک میں شامل ہورہے تھے۔ ہلاکتوں اور ہجرتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ قابض بھارت کے جبر کا سلسلہ عروج پر تھا۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں عسکریت پسندی کے خلاف کارروائی کی آڑ میں بے گناہ کشمیری باشندوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔ گھروں میں گھس کر کشمیری خواتین اور بچوں کو نشانہ بنانا عام سی بات ہوگئی جس کی داستانیں عالمی میڈیا تک پہنچ گئیں۔ بھارت دنیا کو یہ باور کراتا رہاہے کہ کشمیر کا معاملہ پاکستان کا بنایا ہوا ہے اور درون خانہ کشمیر میں سب ٹھیک ہے۔

ہر سال 5 فروری کو دنیا بھر میں کشمیریوں سے یکجتی کا اظہار کیا جاتا ہے

اگست 2019ءکو بھارتی آئین میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد کشمیریوں پر ہونے والے مظالم نے دنیا کے سامنے بھارت کا وحشیانہ چہرہ بے نقاب کردیا اور اس وقت عالمی تنازعات میں فلسطین کے بعد کشمیر کا معاملہ دوسرے اہم تنازع کے طور پر اُبھر کر سامنے آگیا ہے۔ بھارتی اُمور پر کام کرنے والے عالمی ماہرین کے مطابق بھارت بڑی چالاکی کے ساتھ کشمیر پر اپنے قبضے کو مستحکم کرنے اور اسے قانونی شکل دینے کے لیے سیاسی و اقتصادی فورمز کا استعمال کررہا ہے۔

ایک سال قبل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے مئی 2023ءمیں سری نگر میں جی20 ممالک کا ٹورازم اجلاس منعقد کیا، جس پر پاکستان نے اعتراض اٹھایا۔ پاکستان کے اِس اعتراض کا نمایاں فائدہ ہوا اور چین سمیت متعدد ممالک نے اس اجلاس میں شرکت سے انکار کردیا۔ چین کے بعد ترکیہ، سعودی عرب اور مصرنے بھی اس اجلاس میں شرکت سے انکار کیا۔
عالمی تنازعات پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق 2019ءکے بعد مسئلہ کشمیر پہلے سے کہیں زیادہ عالمی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ بالخصوص منی پور کے قتل عام کی بھارتی حمایت، بھارت کے اندر مساجد اور دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کی بے حرمتی نے کشمیر سے متعلق بھارتی ہٹ دھرمی کو بھی بے نقاب کردیا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے اُمور پر لکھنے والے تجزیہ کاروں کے مطابق کشمیر ایک سلگتا ہوا مسئلہ ہے اور یہ عنقریب فلسطین کی طرز پر غیرمتوقع طور پر بھارت کے خلاف اٹھے گا۔ رپورٹ کے مطابق بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں اسرائیلی پالیسی اپنائے رکھی ہے۔

کشمیر کے مسلمان علاقوں میں ہندوپنڈتوں کو بسانا، کشمیر کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو حریت پسندی کے خوف سے عسکریت پسندی کے الزام میں لاپتہ کروانا بھارتی اداروں کی عادت بن گئی ہے۔ اسرائیل کی طرز پر یہودی آبادکاروں کی طرح ہندو پنڈتوں کو مسلح کرنے کا بھارتی منصوبہ عروج پرہے۔

کشمیر کے لیے پاکستان کی سفارتی و سیاسی کوششوں سے بھارت مسلسل پریشان ہے

دوسری جانب بھارت بڑی ہوشیاری اور عیاری کے ساتھ فلموں اور ڈراموں کے ذریعے کشمیر پر اپنے قبضے کو قانون شکل دینے کے لیے کوشاں ہے اور کشمیر کے مسلمانوں کو دہشت گرد کے طور پر پیش کررہا ہے، جس کے لیے کشمیر فائل جیسی فلموں کا سہارا لیا گیا ہے۔

مشرقِ وسطیٰ کے اُمور پر کام کرنے والے تجزیہ کاروں کے مطابق 7 اکتوبر کے بعد سے بھارت کی جانب سے غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی حمایت نے بھارت کے عزائم کو بے نقاب کردیا ہے۔ ایسے ہی گزشتہ سال قطر میں بھارتی نیوی کے سابق افسران کو جاسوسی کے الزام میں سزا سنائے جانے کے بعد بحرین اور کویت میں بھی قوانین کی خلاف ورزی پر کئی بھارتیوں کو بے دخل کیا گیاہے۔ یہ وہ واقعات ہیں جو بھارت کے خلاف بڑھتے ہوئی نفرت کی عکاسی کرتے ہیں۔
پاکستانی سفارت خانے دنیا بھر میں پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر پروگرام منعقد کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں کشمیری کمیونٹی بھی اس دن ریلیاں نکالتی ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس نوعیت کی سرگرمیوں کے دُوررس اثرات نکلیں گے اور کشمیر پر بھارتی قبضے کا بھیانک منصوبہ بے نقاب ہوگا۔