بدی کبھی اپنی اصلی شکل میں رونما ہونے کی جرأت نہیں کرتی۔ وہ ہمیشہ کسی نہ کسی نیکی کا لبادہ اُوڑھ کر ہی سامنے آتی ہے، اور یوں خود اپنی شکست کا خاموش اعتراف کر لیتی ہے۔ اس سے انسان کی حقیقی فطرت کا بھی پتا چلتا ہے جو خیر اور حسنِ خلق سے عبارت ہے۔ انسان کو باقی حیوانی دنیا سے ممیز کرنے والی چیز اخلاق ہی ہے۔ اس کے سنوارنے سے انسان کا سنوار ہے ، اور اس کے بگاڑنے سے انسان کا بگاڑ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ ِ تہذیب میں تمام معاشرے اور تمام تمدن جس چیز پر متفق نظر آتے ہیں وہ حسنِ اخلاق ہے۔ سچائی ، پاسِ عہد، رحم ، فیاضی ، صبر ، تحمل، بردباری ، اولوالعزمی ، شجاعت ، ضبطِ نفس، خودداری، میل ملاپ ، شائستگی ، فرض شناسی ، اتفاق اور دوسری اچھی صفات کو سب نے سراہا ہے، اور اس کے برعکس تقریباً تمام معاشروں نے جھوٹ ، بد عہدی ، ظلم ، بخل، بے صبری، بزدلی، ذلت، ترش روئی، خیانت، چغلی، غیبت اور تمام دوسری برائیوں کو بُرا سمجھا ہے۔ یہ اقدار انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہیں اور اسلام نے ان معروفات اور منکرات کو اپنے نظام میں سمولیا ہے۔ البتہ جس پہلو سے قرآن کا نظامِ اخلاق منفرد ہے وہ یہ ہے کہ اس نے فلسفہ ٔ اخلاق کے تمام بنیادی امور کے بارے میں ایک منظم اور مربوط نظر یہ پیش کیا ہے۔ اور وہ اپنا ایک خاص ماخذ ِ علمِ اخلاق، قوتِ نافذہ اور قوتِ محرکہ رکھتا ہے اور یہ سب مل کر اس کے فلسفۂ اخلاق کی مکمل تصویر پیش کرتے ہیں۔
