مصطفی کمال اتاترک جدید ترکیہ کے بانی اور معمار ہیں جنہوں نے اب سے پون صدی قبل جمہوریہ ترکیہ کی بنیاد رکھی اور ترکی اس کے بعد سے انہی کے متعین کردہ خطوط پر پوری سختی کے ساتھ گامزن ہے۔ انہوں نے ایک طرف یورپی ملکوں بالخصوص یونان کا مقابلہ کرتے ہوئے ترکی کی داخلی خودمختاری کی حفاظت کی اور بیرونی حملہ آوروں کو نکال کر ترکی کی وحدت کا تحفظ کیا جبکہ دوسری طرف خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کر کے ترکی کو عالم اسلام سے بھی الگ کر لیا۔ وہ ترک قوم پرستی کے علمبردار تھے اور انہوں نے اس بنیاد پر ترک قوم کو بیدار کرنے اور اس کے جداگانہ تشخص کو دنیا کے نقشے پر نمایاں کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا جس کی وجہ سے انہیں اپنی قوم کی جانب سے اتاترک یعنی ترکوں کا بابائے قوم کا خطاب ملا اور وہ تاریخ میں ترک قوم کے ہیرو کی شکل اختیار کر گئے۔
دائرہ معارف اسلامیہ کے مطابق مصطفیٰ کمال 1881ء میں کاسلونیکا میں پیدا ہوئے، 1886ء میں والد کا انتقال ہوگیا اور تعلیم و تربیت کا دور والدہ اور ننھیال کی سرپرستی میں بسر کیا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد 1895ء میں ناستر کے فوجی کالج میں داخلہ لیا، 1899ء میں استنبول کے مدرسہ حربیہ میں اور 1902ء میں فوجی اکیڈمی میں داخل ہوئے۔ تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزر کر 1905ء میں سیکنڈ لیفٹیننٹ کے طور پر فوجی خدمات کا آغاز کر دیا۔
یہ سلطان عبد الحمید ثانی مرحوم کی خلافت کا دور تھا جب یورپ کے صنعتی اور فکری و ثقافتی انقلاب سے متاثر ہو کر ترکی میں ترک قومیت کے رجحانات کے ساتھ ساتھ جمہوری طرز زندگی اختیار کرنے کا ذوق بھی ابھر رہا تھا اور خلافت عثمانیہ کے نظام کو، جس نے سیاسی طور پر خاندانی بادشاہت کی حیثیت اختیار کر لی تھی، جمہوری اصولوں کے دائرے میں لانے اور کسی باضابطہ دستور کا پابند بنانے کے لیے مختلف اطراف سے کوششیں ہو رہی تھیں۔ ان کوششوں میں ایسے افراد اور حلقے بھی شریک تھے جو خلوص دل سے یہ چاہتے تھے کہ خلافت کا نظام خاندانی بادشاہت کے دائرہ سے نکل کر ایک باضابطہ دستوری نظام کی حیثیت اختیار کرلے تاکہ وہ زیادہ استحکام اور اعتماد کے ساتھ عالم اسلام کی قیادت کر سکے، جبکہ ایسے افراد و گروہ بھی اس میں سرگرم تھے جو ان قومی رجحانات کی آڑ میں یورپ کے سیاسی فلسفہ و ثقافتی ڈھانچے کو مکمل طور پر ترکی میں کارفرما دیکھنے کے خواہشمند تھے۔ چنانچہ اس ماحول میں مصطفیٰ کمال نے فوجی خدمات کے آغاز میں ہی ”جمعیت وطن و حریت” کے نام سے ایک خفیہ تنظیم قائم کر لی اور ہم خیال فوجی افسروں کے ساتھ رابطے شروع کر دیے جو آگے چل کر ”انجمن اتحاد و ترقی” کے نام سے ایک مضبوط سیاسی قوت کی حیثیت اختیار کر گئی اور خلافت کو جمہوریت میں تبدیل کرنے میں سب سے اہم کردار اسی پارٹی نے ادا کیا۔ مصطفی کمال کو اس مہم میں دیگر دو افسروں عصمت پاشا اور انور پاشا کی حمایت حاصل تھی مگر آگے چل کر انور پاشا ان کے ساتھ نہ رہے جبکہ عصمت پاشا نے یہ رفاقت آخر دم تک نبھائی حتیٰ کہ جب 1924ء میں جمہوریہ ترکیہ کا اعلان ہوا تو اس کے صدر مصطفی کمال اتاترک اور وزیراعظم عصمت پاشا بنے جو اب عصمت انونو کا لقب اختیار کر چکے تھے۔
مصطفی کمال رفتہ رفتہ افواج کے کمانڈر انچیف کے منصب تک پہنچے اور ان کے ساتھ ساتھ ان کی درپردہ سیاسی جدوجہد بھی جاری رہی۔ انہوں نے مختلف محاذوں پر جنگی خدمات سرانجام دیں اور ایک کامیاب جرنیل اور مدبر کے طور پر ان کا تعارف نمایاں ہوتا گیا۔ انہوں نے خلافت عثمانیہ کے مرکز استنبول کی بجائے انقرہ کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا اور پورے استقلال کے ساتھ اپنے مشن میں سرگرم رہے۔
پہلی عالمی جنگ میں خلافت عثمانیہ نے جرمنی کا ساتھ دیا تھا اس لیے جرمنی کی شکست کے اثرات اس پر بھی پڑے اور یورپی قوتوں نے شکست خوردہ ممالک کے حصے بخرے کیے تو اسی بندر بانٹ میں استنبول پر بھی قبضہ کر لیا۔ اس وقت کے عثمانی خلیفہ سلطان عبد الوحید تھے، مصطفی کمال نے قابض متحدہ فوجوں کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا اور یورپی ملکوں سے مطالبہ کیا کہ ان کی فوجیں ترکی کی حدود سے باہر نکل جائیں اور ترکی کی خودمختاری اور وحدت و آزادی کو تسلیم کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے مصطفی کمال نے یونان کے ساتھ دوبدو جنگ بھی لڑی اور اس مہارت کے ساتھ ترک فوجوں کی کمان کی کہ یونانی فوج کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ یوں مصطفی کمال اتاترک قوم کے نجات دہندہ اور آزادی کی علامت کے طور پر ترک قوم کے ہیرو بن گئے۔
اس دوران نومبر 1922ء میں ترکی کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے یورپی ملکوں کی کانفرنس ہوئی جس میں مصطفی کمال اتاترک کی طرف سے عصمت انونو نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں برطانوی وفد کے لیڈر لارڈ کرزن نے ترکی کی آزادی اور خودمختاری کو تسلیم کرنے کے لیے چار شرائط پیش کیں۔
خلافت کے نظام کو مکمل طور پر ختم کیا جائے۔
خلیفہ کو ملک بدر کر دیا جائے۔
خلیفہ کے تمام اموال قومی تحویل میں لیے جائیں۔
ترکی کے سیکولر ریاست ہونے کا اعلان کیا جائے۔
اس وقت عصمت انونو ان شرائط کو تسلیم کیے بغیر کانفرنس سے واپس آگئے مگر بعد میں ترکی کی نئی قومی لیڈرشپ نے ان تمام شرائط کو تسلیم کر لیا، چنانچہ تین مارچ 1924ء کو خلافت کا نظام ختم کر کے خلیفہ کے خاندان کو جلاوطن کر دیا گیا اور جمہوریہ ترکیہ کے قیام کا اعلان کر کے اسے سیکولر ریاست بنانے کے لیے جو اہم اقدامات کیے گئے وہ درج ذیل ہیں:
دستور سے سرکاری مذہب اسلام کی شق خارج کر دی گئی۔
ملک بھر میں دینی مدارس اور خانقاہوں پر پابندی لگا کر مذہبی تعلیم کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔
عورتوں کو تمام معاملات میں مردوں کے مساوی قرار دے کر پردہ کو قانوناً جرم قرار دے دیا گیا۔
یورپی لباس پہننا اور ننگے سر رہنا ضروری قرار دے دیا گیا۔
پیری مریدی ممنوع قرار دی گئی اور مزاروں پر جانے اور دعائیں مانگنے پر پابندی لگا دی گئی۔
ہجری تقویم ختم کر کے شمسی کیلنڈر رائج کر دیا گیا۔
جمعہ کی چھٹی ختم کر کے اتوار کی چھٹی کا اعلان کیا گیا۔
عربی زبان میں قرآن کریم کی اشاعت پر پابندی لگا دی گئی اور ترکی زبان کا عربی رسم الخط منسوخ کر کے رومن رسم الخط اختیار کر لیا گیا۔نماز، دعا اور قرآن کریم کی تلاوت ترکی زبان میں لازمی قرار دے دی گئی۔
مصطفی کمال اتاترک نے پیپلز پارٹی کے نام سے سیاسی جماعت 1923ء میں قائم کر لی تھی جس کے ذریعے وہ اقتدار میں آئے اور 29اکتوبر 1923ء کو جمہوریہ ترکیہ کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے جدید ترکی کے راہنما اور حکمران کی حیثیت سے پندرہ برس تک حکومت کی اور 10 نومبر 1938ء کو اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔
