غزہ کی مزاحمتی تنظیم حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے اور قیدی تبادلہ عالمی سطح پر زیر بحث ہے۔
عسکری حلقوں میں بھی متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔بعض حلقوں کا کہناہے کہ حماس کی غلطی کا فلسطینیوں نے بھاری قیمت چکا دیا ہے۔ 2 ہزار قیدیوں کی رہائی کے لیے مزاحمتی تنظیم نے غزہ کو ملیامیٹ کروادیا ہے ، تاہم بیشتر حلقوں کا کہناہے کہ یہ معاہدہ اسرائیل کی شکست اور فوجی وانٹیلی جنس ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ موقف رکھنے والوں میں خود اسرائیل کے متعدد تجزیہ کار اور سیاستدان بھی شامل ہیں۔
دنیا کا پُراسرار قبرستان ، تدفین کے بعد میت غائب (ابوصوفیہ چترالی)
اتوار کو اسرائیلی حکومتی اتحاد میں شامل عوتسما یہودیت نامی انتہا پسند سیاسی پارٹی کے سربراہ اور اسرائیل کی نیشنل سیکیورٹی فورسز کے وزیر ایتمار بن غفیر حکومت سے استعفا دے چکے ہیں۔ ان کی پارٹی کے تین وزرا نے علیحدگی اختیار کرلی ہے۔ اسرائیلی تجزیہ کار یوفال سیگیف نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیلی وزیر دفاع کارٹس نے بھی اپنی نجی مجلسوں میں کہاہے کہ جنگ بندی معاہدے کے بعد اسرائیل میں مزید استعفے متوقع ہیں جن میں صہیونی آرمی کے سربراہ لیفی بھی شامل ہیں۔ تل ابیب یونیورسٹی کے نائب سربراہ یال زیسر نے بھی کہا ہے کہ معاہدہ امریکی خواہش پر ہوا ہے جس کے لیے اسرائیل پر بھی دباو ڈالا گیا ہے۔
اسرائیل کے اندر اس معاہدے کے بعد صورتحال میں بڑی تبدیلی دیکھی گئی ہے۔ حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کی جانب سے اسرائیلی یرغمالیوں کی حوالگی کے طریقہ کار پر بھی اسرائیلی میڈیا میں بہت لے دے ہورہی ہے۔ پیر کو اسرائیلی میڈیا میں القسام بریگیڈ کی جانب سے یرغمالیوں کی حوالگی کی تصاویر پر سوشل اور میں اسٹریم میڈیا میں بہت بحث ہوئی ہے۔ القسام کی جانب سے لگائی گئی دو خالی کرسیاں اور ٹیبل پر سوالات اٹھائے گئے جس کے بارے عبرانی میڈیا نے کہاہے کہ اس کے ذریعے حماس نے یرغمالیوں کی رہائی کے وقت اسرائیل کواہم پیغام دیاہے۔ عرب ویب سائٹ کے مطابق القسام کی جانب سے خواتین کی ریڈ کراس کو حوالگی کے وقت ایک ٹیبل اور دو خالی کرسیاں رکھی تھیں جن کی بظاہر کوئی ضرورت نہیں تھی۔ بیشتر افراد نے بتایا کہ یہ خالی کرسیاں اور ٹیبل حماس کا اشارہ تھا کہ پندرہ ماہ تک غزہ پر آتش وآہن برسانے والی قوت کو انجام کار یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات کی ٹیبل پر آنا پڑا۔یہ مزاحمتی تنظیم کی جانب سے اسرائیل کے لئے بہت بڑی کامیابی کا اشارہ تھا ہے۔حماس نے اس کو اشارے کے ذریعے اپنی طاقت کے بارے سمجھا دیا ہے۔

خیال رہے کہ مزاحمتی تنظیم حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ نے اتوار کو جن تین اسرائیلی یرغمالی خواتین حوالے کیا ہے اُن میں 28 ایمیلی دماری برطانوی اسرائیلی شہری ہے۔ دماری کو غزہ کے سرحد سے متصل کیبوٹس سے اغوا کرتے وقت گولی اور چھرے لگے تھے جس سے اس کی ہاتھ کی دو انگلیاں ضائع ہوگی ہیں۔ رہائی پانے والی دوسری خاتون 24 سالہ رومی جونین ڈانسر ہے اور وہ غزہ کے قریب اس علاقے میں میوزک کنسرٹ میں بطور ڈانسر موجود تھی۔ تیسری خاتون 30 سالہ دورون شطنبر خیر ہے جو ویٹرنری نرس ( جانوروں کی نرس) ہے۔
اتوار کو اسرائیلی فوجی گاڑیوں کے قافلے میں جب ان تینوں خواتین کو وسط اسرائیل کے علاقے رامات غان میں واقع شیبا ہسپتال پہنچایا گیا جہاں سب سے پہلے ان کے متعدد ٹیسٹ کروائے گئے۔ سینئر ڈاکٹر نے اعلان کیا کہ تینوں خواتین ذہنی وجسمانی طور پر مکمل فٹ اور تندرست ہیں۔ اس عمل سے اسرائیلی حکومتی پروپیگنڈا دم توڑ رہاہے اور حماس کے بارے تاثرات میں تبدیلی آرہی ہے۔ یروشلم پوسٹ نے لکھا ہے کہ یرغمالیوں کی حوالگی کے وقت القسام بریگیڈ کے کمانڈوز کی عسکری نمائش اس بات کا ثبوت ہے کہ حماس ختم نہیں ہوئی اور وہ پہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ موجود ہے۔
اسرائیلی براڈکاسٹنگ کارپوریشن نے کہا ہے کہ اتوار کو القسام کے سینکڑوں اسلحہ بردار کمانڈوز کے جم غفیر میں اسرائیلی یرغمالی خواتین کی رہائی نے اسرائیلی حکام کو گہری پریشانی میں ڈال دیا ہے۔ اسرائیل اس طریقہ کار کو پسند نہیں کرتا۔ عبرانی جریدے کے مطابق اسرائیلی حکام نے ثالثوں سے اس طریقہ کارپر اپنے اعتراض سے آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدی تبادلے کا دوسرا راونڈ آئندہ ہفتہ یا اتوار کے روز ہوگا جس میں حماس 4 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہائی دے گی۔ خیال رہے کہ حماس کے پاس موجود ہر اسرائیلی فوجی کے بدلے اسرائیلی جیلوں سے 50 قیدی رہا ہوں گے جن میں سے 30 افراد عمرقید اور 20 ہائی پروفائل کیسسز میں مقدمات ہیں جبکہ سویلین یرغمالی کے بدلے 30 افراد کی رہائی ہوگی۔
19 جنوری سے سولہ روز گزرنے پر حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے دوسرے مرحلے پر مذاکرات شروع ہوں گے ، تاہم بیشتر ذرائع کا خدشہ ہے کہ ان مذاکرات میں رکاوٹیں پیش آسکتی ہیں کیونکہ اسرائیل کے حکومتی وزرا اس کی مخالفت کررہے ہیں جن میں وزیر خزانہ بتسلئیل سموتریش کا نام سرفہرست ہے، جن کے پاس پارلیمنٹ میں 8 سیٹیں ہیں اور وہ نیتن یاہو کے ساتھ حکومت میں شامل ہے۔ بتسلئیل نے نیتن یاہو پر زور دیاہے کہ غزہ میں انسانی امداد کی بحالی روکی جائے جبکہ جنگ کی جانب دوبارہ آنے کے ساتھ مغربی کنارے میں غزہ کے طرز پر جنگ کا فیصلہ کیا جائے۔ اسرائیل مغربی کنارے میں واقع متعدد کیمپوں سے پریشان ہے اور یہ مستقبل میں اسرائیل کی قومی سلامتی کے لئے خطرہ ہے۔