شام میں حالیہ انقلاب کے بعد اس ملک کے بارے میں لوگوں میں دلچسپی پیدا ہوئی ہے، اس لیے ہم نے شام کی تاریخ کا خلاصہ عوام کے استفادے کے لیے مرتب کیا ہے۔
شام مغربی ایشیا میں واقع ایک تاریخی اسلامی ملک ہے۔ اس کے شمال میں ترکیہ‘ جنوب میں اُردن‘ مشرق میں عراق‘ مغرب میں اُردن و بحیرہ روم اور جنوب مغرب میں مقبوضہ فلسطین واقع ہے۔ اس ملک کا نام قدیم عربی میں شامین یا شام جدید عربی میں ’سوریا‘ انگریزی میں Syria ہے۔ یہ نام قدیم اشوریہ سے ماخوذ ہے۔ اشوری سلطنت پونے تین ہزار سال پہلے عراق مغربی ایران جنوب مشرقی و وسطی ترکی، لبنان، اردن، فلسطین، شمالی مصر اور شام پر محیط تھی۔ اس کا دارالحکومت اشور دریائے دجلہ کے کنارے عراق میں واقع تھا۔ یہ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے سام سے منسوب ہے۔ اُن کی اولاد یہاں آباد ہوئی۔ عہد اسلام میں اسے شام ہی کہا جاتا رہا۔ اس کا ایک قدیم نام ارام یا اِرم تھا۔ یہ دراصل سام بن نوح کا نام تھا۔ قرآن کریم میں ارم کی اولاد قوم عاد کو ’عادِ اِرم‘ کہا گیا ہے۔ اُردو بائبل کے عہد نامہ قدیم میں اس ملک کا نام ارام (Aram) اور انجیل لوقا (Luke) میں سوریا (Syria) آیا ہے۔ اِسلامی دور میں شام کی حدود جنوبی ترکی سے شمالی سعودی عرب تک وسیع تھیں اور اس میں موجودہ شام کے علاوہ ترکی کے جنوبی شہر لبنان، اردن اور فلسطین شامل تھے۔ تبوک تک کا سعودی علاقہ بھی شام کا حصہ شمار ہوتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کے لیے دعا مانگی تھی: ”اے اللہ! شام میں ہمارے لیے برکت عطا فرما۔“ (بخاری)
شام قدیم تہذیبی ورثے کا حامل ہے۔ شمالی شام میں ابلا (اِدلِب کے قریب موجودہ تل مردیخ) سے دریافت ہونے والی پندرہ ہزار تختیوں سے ساڑھے چار ہزار برس قدیم ابلا (Ebla) تہذیب کے آثار معلوم ہوئے ہیں۔ ابلا بادشاہت 2500 قبل مسیح میں قائم ہوئی اور 700 سال قائم رہی۔ فرعونوں کے آثار سے ابلا اور مصر کے تجارتی تعلقات کا پتا چلتا ہے۔ اکاد (جنوبی عراق) کے بادشاہ سارگون ثانی نے 2260 ق م میں ابلا فتح کرلیا تھا۔ 1800تا 2000 قبل مسیح کے لگ بھگ حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق سے حزان آئے اور حزان (ترکی) سے ہجرت کرکے شمالی شام کے شہر حلب (Aleppo) پہنچے اور یہاں ان کے دودھ تقسیم کرنے کے باعث اس شہر کا نام حلب (دودھ) پڑ گیا تھا۔ حلب سے ابراہیم علیہ السلام فلسطین آگئے تھے۔ 1000 تا 2000 ق م کے دوران یہاں کنعانیوں، فنیقیوں اور مصریوں کا قبضہ رہا۔ ان کے بعد یہاں ارامی اشوریا اور بابلی (کلدانی) قابض رہے۔
1450 ق م کے بعد دمشق پر مصری اس کے بعد ہتی اور پھر مصری حکمران رہے۔ ارامی سلطنت 1000ق م سے 732 ق م تک قائم رہی۔ اس کا دارالحکومت دِمشق تھا۔ دسویں صدی ق م میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی سلطنت میں خلیج عقبہ سے دریائے فرات تک کے علاقے شامل تھے۔ کلدانی بادشاہ بخت نصر (Nebuchad Nezzar) نے چھٹی صدی ق م کے اوائل میں شام فتح کرلیا تھا۔ قدیم شام کے مشہور شہر ارپد (تل ارنود)، حلب قادس (kadesh)، حما دِمشق اور تدمر (Palmyra) تھے۔ چھٹی صدی ق م کے وسط میں ایرانی بادشاہ کوروشس (یونانی نام سائرس) نے شام فتح کرلیا۔ 333ق م میں یونانی فاتح سکندراعظم نے شام فتح کیا۔ پھر یہ یونانی سلیوکی سلطنت کا حصہ رہا جو سکندر کے جرنیل سلیوکس نے قائم کی تھی۔ اس کا دارالحکومت انطاکیہ (Antioch) تھا جو ماضی میںشام میں شامل تھا مگر اب ترکی کا حصہ ہے۔ پھر دمشق دارالحکومت بنا۔ سلیوکی سلطنت 311 ق م سے 65 ق م تک قائم رہی۔ سلیوکی بادشاہ انتیوکس (انطاکس) اوّل نے 301 ق م میں انطاکیہ کی بنیاد رکھی تھی۔ 64 ق م میں رومیوں نے شام پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس دور میں پانچ لاکھ آبادی کا شہر انطاکیہ روم اور اسکندریہ کے بعد رومی سلطنت کا تیسرا بڑا شہر تھا۔ رومی سلطنت کا قیصر الیگزینڈر سیوروس (222 تا 235) شام کا باشندہ تھا۔ بت پرست رومیوں کی تین چار صدیوں میں شام کے شہر بعلبک، اِنطاکیہ، دمشق اور بیت المقدس میں مشتری (Jupiter) دیوتا کے مندر تعمیر ہوئے۔
بیت المقدس کا مشتری مندر دوسرے ہیکل سلیمانی کے کھنڈر پر بنایا گیا تھا۔ اسے 70 میں رومی جنرل ٹائٹس نے تباہ کردیا تھا۔ پہلی سے تیسری صدی عیسوی تک شام کے شہر تدمر میں ایک عرب سلطنت قائم رہی جو سلطنت روم کی باجگزار تھی۔ تدمر ایک مشہور نخلستان تھا جس نے اہم تجارتی مرکز کی حیثیت حاصل کر لی تھی۔ یہاں کا حکمران رومیوں سے مل کر ایران کے خلاف جنگ کرتا رہا وہ وفات پا گیا تو اس کی ملکہ زنوبیہ (زینب 267تا 272) کاروبارِ حکومت چلاتی رہی۔ اس کے مختصر عہد میں تدمر نے رومیوں سے آزادی حاصل کرلی۔ آخرکار رومی قیصر اورلیانس حملہ آور ہوا۔ اُس نے زنوبیہ کو گرفتار کرکے روم بھیج دیا جہاں اسے ایک جاگیر دے دی گئی اور اس نے وہیں وفات پائی۔
آگسٹس سیزر کے دور میں حضرت عیسی علیہ السلام بیت اللحم میں پیدا ہوئے۔ آپ کی رفعِ سماوی کے بعد سینٹ پال کی کوششوں سے عیسائیت پھیلنے لگی اور جب قیصر قسطنطین اعظم نے عیسائیت قبول کرلی تو شام کی بیشتر آبادی نے عیسائیت قبول کرلی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا کی معیت میں ایک سفر شام کی طرف کیا تھا۔ اس میں بحیرا راہب سے آپ کی ملاقات ہوئی تھی۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی پیشگوئی کی تھی۔ بحیرا شام کے شہر بصری کے مشہور راہب گزرے ہیں۔ خلافتِ صدیقی میں خالد بن ولیدؓ اور ابوعبیدہ بن جراحؓ نے 13ہجری میں شام کی فتح کا آغاز کیا اور 14ہجری میں شام کے شہر دِمشق، بعلبک اور حِمص فتح ہو گئے۔ اس کے بعد قِنِسرِین، حلب اور اِنطاکیہ اور تمام شمالی شام کو فتح کیا۔ اس کے بعد رقہ فتح ہوا۔ جنگ یرموک کی فتح دراصل وہ اہم موڑ ہے جس نے شام، فلسطین، مصر اور طرابلس کی فتح کے دروازے کھول دیے اور اس کے بعد 17 ہجری میں شام مکمل طور پر فتح ہوگیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ دمشق کے گورنر تھے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں پورے شام کا گورنر بنادیا۔ 37 ہجری کو شام کی جنگ صفین میں حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان غیرفیصلہ کن جنگ ہوئی۔ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سے صلح ہوجانے پرحضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے دمشق کو دارالخلافہ بنایا جو 132 ہجری تک اموی خلافت کا دارالخلافہ رہا۔ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد اُن کی اولاد نے چار سال حکومت کی۔ 64 ہجری میں مروان بن حکم نے خلافت سنبھالی اور ان کی اولاد نے 132 ہجری تک حکومت کی۔ ان کی خلافت میں دمشق دارالخلافہ رہا۔
132 ہجری میں عباسی خلافت کے قیام پر دارالخلافہ شام سے عراق منتقل ہوا۔ 274 ہجری میں بنوطولون شام پر قابض ہو گئے۔ 330ھ میں حمدانی 406 ھ میں فاطمی اور 462ھ سے 518ھ تک سلجوق یکے بعد دیگرے حکمران رہے۔ فاطمیوں کا شام پر تسلط 977ءسے 1098ءتک رہا، حتی کہ یورپی صلیبیوں نے ساحل شام پر قبضہ کر لیا تاہم دمشق پھر بھی فاطمیوں کے تسلط میں رہا۔ 1128ءمیں عماد الدین زنگی نے حلب فتح کیا اور 1154ءمیں اس کے جانشین سلطان نورالدین زنگی نے دمشق پر قبضہ کرکے اسے عیسائیوں کے تسلط میں جانے سے بچایا اور اس کو اپنا دارالحکومت بنایا۔ سلطان نورالدین زنگی کی وفات 1174ءمیں ہوئی تو دمشق کو صلیبیوں کی طرف سے خطرہ پیدا ہوا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی مصر سے دمشق آگئے اور اگلے چند برسوں میں انہوں نے صلیبیوں کو واپس سمندر کی طرف دھکیل دیا۔ 1187ءمیں سلطان نے جنگ حِطِین میں فتح پاکر بیت المقدس کو صلیبی قبضے سے آزاد کرا لیا۔ 1193ءمیں سلطان نے وفات پائی اور دمشق میں مدفون ہوئے۔
1258عیسوی میں بغداد کی تباہی کے بعد قاہرہ میں عباسی خلافت کا سلسلہ جاری ہوا مملوک سلاطین رکن الدین بیبرس سیف الدین قلاوون اور خلیل الاشرف بن قلاوون نے صلیبیوں سے شام اور فلسطین کے بقیہ ساحلی شہر اور قلعے آزاد کرا لیے ان میں طرطوس، صور، صیدا اور بیروت شامل تھے۔ آخری قلعہ عکہ (Acre) 1291میں سلطان خلیل الاشرف نے فتح کیا۔ 1400میں مغل فاتح تیمور لنگ نے حلب اور دِمشق میں لوٹ مار کی اس کے حکم پر دمشق کی جامع اموی کو آگ لگا دی گئی۔ 1516میں عثمانی ترک سلطان سلیم اول نے پرتگالی صلیبیوں کا خطرہ بھانپ کر شام ومصر کو کمزور ممالیک حکمرانوں کے تسلط سے نکالنے کا آغاز کیا اور جنگ مرج دابِق (نزد حلب) میں ممالیک کو شکست دے کر شام پر قبضہ کرلیا۔ پھر اگلے سال مصر وحجاز کے عثمانی سلطنت میں شامل ہونے سے خلافت بھی عثمانیوں کومنتقل ہو گئی اور سیلم اول قسطنطنیہ میں پہلا ترک خلیفہ بنا۔
انیسویں صدی کے اواخر میں ترکوں نے دمشق کو ریلوے لائن کے ذریعے قسطنطنیہ سے ملا دیا اور 1908میں دمشق تا مدینہ ریل چلنے لگی۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران اکتوبر 1918میں برطانوی فوجیں شام پر قابض ہو گئیں پھر ایک خفیہ معاہدے کے تحت جولائی 1920میں فرانسیسی سامراج نے شام پر قبضہ کر لیا۔ 1941میں فرانس نے لبنان کو شام سے الگ کرکے آزاد کر دیا۔ 1946میں شام نے فرانسیسی استعمار سے آزادی حاصل کر لی اس دوران میں 1943سے1949تک شکرِ ی القوتلِی شام کے صدر رہے۔ مارچ 1949میں کرنل حسنِی الزعِیم نے حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ یہ عرب دنیا کا پہلا فوجی انقلاب تھا۔ اسی سال اگست میں دوسرے فوجی انقلاب میں صدر حسنِی الزعِیم مارے گئے اور سامی حناوی صدر بنے۔ اس کے بعد کرنل ادیب شِشکلِی نے اقتدار سنبھالا ان کی حکومت 1954تک قائم رہی۔ پھر ان کو ملک چھوڑنا پڑا۔ 1955میں شکرِ ی القوتلِی دوبارہ صدر بنے القوتلی کے دوسرے عہدِ صدارت میں شام اور مصر کا اتحاد ”متحدہ عرب جمہوریہ“ قائم ہوا مگر ستمبر 1961میں عبدالکریم نہلاوی نے فوجی انقلاب برپا کرکے شام کی مصر سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ 8 مارچ 1963کو عرب کی اشتراکی جماعت حزب البعث کی شراکت سے شام میں فوجی انقلاب برپا ہوا۔ ڈاکٹر نور الدین العطاشی صدر اور یوسف زین وزیراعظم بنے۔ نومبر 1970میں وزیر دفاع حافظ الاسد نے حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ ان کا تعلق اقلیتی ُنصیری فرقے سے تھا۔ جولائی 2000میں ان کی وفات پر ان کے بیٹے بشار الاسد صدر بنے اور ایک عوامی بغاوت کے نتیجے میں 8 دسمبر 2024کو باغی رہنما محمد الجولانی کی قیادت میں بشار حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ یہ اسد خاندان کے 54 سالہ دورِ اقتدار کا خاتمہ تھا۔ اس طرح اقتدار ”ہیئة تحرِیرِ الشام“ کے عبوری وزیراعظم محمد البشیر کو منتقل ہوا۔
شام کے مشہور شہر: دِمشق جو علم وادب کا مرکز رہا ہے اور ہزاروں سال سے شام کا دارالحکومت چلا آ رہا ہے ۔41ھ سے 132ھ تک اموی دارالخلافہ رہا ہے۔ یہاں پر 4000ق م کے شہر کے آثار ملتے ہیں۔ (2) حلب: حضرت ابراہیم علیہ السلام فلسطین جاتے ہوئے یہاں سے گزرے تھے۔ اس شہر کوسکندرِ رومی اور عربوں نے فتح کیا ۔یہ شہر حمدانی اور زنگی حکومتوں کا دارالحکومت رہا ہے۔ حلب شام کا دوسرا بڑا شہر اور صنعتی وتجارتی مرکز ہے۔ حلب کی جامع مسجد میں حضرت زکریا علیہ السلام کا مزار ہے۔ (3) بصری: یہ جنوبی شام میں اردن کی سرحد کے پاس واقع ہے ۔یہاں بحیرا نامی مسیحی راہب نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لڑکپن میں آپ کی نبوت کی پیشگوئی کی تھی۔ بصری عہدِ فاروقی میں فتح ہوا۔ (4) لاذِقِیہ: نہر الکبیر الشمالی کے دہانے کے قریب یہ شام کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے۔ یونانی بادشاہ سلیوکس اول نے اپنی ماں کے نام پر اس شہر کی بنیاد رکھی تھی۔ (5) طرطوس: شام کے ساحل پر واقع اس تاریخی بندرگاہ میں ان دنوں روس کا بحری اڈا قائم ہے۔ یہ جزیرہ رواد کے مقابل واقع ہے۔ عراقی تیل کی پائپ لائن طرطوس پہنچتی ہے ۔یہ شہر عبادہ بن صامت کی قیادت میں 17ھ میں فتح ہوا اس کا قدیم نام انطرطوس تھا۔ 1099میں صلیبی اس پر قابض ہوئے اور 1291میں مملوک سلطان خلیل الاشرف نے اسے آزاد کرایا۔ (6) تدمر: یہ شہر صحرائے شام کے اندر واقع ہے اس کو عروسِ صحرا کہا جاتا ہے۔ تیسری صدی عیسوی میں تدمر عرب مملکت کا دارالحکومت رہا، ملکہ زنوبیہ کی قیادت میں رومیوں کے مقابل رہا۔ (7) رقہ: یہ شمالی شام میں فرات کے کنارے مشہور شہر ہے ۔اس کو سلیوکی یونانیوں نے آباد کیا۔ ہارون الرشید کا گرمائی دارالحکومت رہا ہے۔ تاتاریوں نے اس شہر کو تباہ کیا تھا۔ (8) اِدلِب: شمالی شام کا ایک صوبہ ہے اور بغاوت کے دوران مسلح تحریکوں کا گڑھ رہا ہے۔ اس کے علاوہ حما، درعا، دیر الزور وغیرہ بھی شام کے مشہور شہروں میں شامل ہیں۔
شام کی فضیلت کے بارے میں احادیثِ مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت سے پہلے حضرموت کے سمندرکی طرف سے ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو اکٹھاکرے گی صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اس وقت آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم شام چلے جانا (ترمذی) ۔جب شام والوں میں خرابی پیدا ہو جائے گی تو تم میں کوئی اچھائی باقی نہیں رہے گی۔ میری امت کے ایک گروہ کو ہمیشہ اللہ کی مدد حاصل رہے گی اس کی مدد نہ کرنے والے قیامت تک اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے (ترمذی) (3)ایمان یمن کی طرف سے نکلا ہے اورکفر مشرق کی طرف سے، سکون واطمینان والی زندگی بکری والوں کی ہے اور فخر وریاکاری گھوڑے اور اونٹ والوں میں ہے، جب مسیح دجال احد کے پیچھے آئے گا تو فرشتے اس کا رخ شام کی طرف پھیر دیں گے اورشام ہی میں وہ ہلاک ہو گا (ترمذی)(
4) حضرت زید بن ثابت بیان کرتے ہیں: ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کاغذ کے پرزوں سے قرآن کو مرتب کر رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مبارک ہو شام کے لیے ہم نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کس چیز کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس بات کی کہ رحمن کے فرشتے ان کے لیے اپنے پر بچھا تے ہیں (ترمذی) (5) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کی ایک جماعت اللہ کے حکم پر قائم ودائم رہے گی، اس کا مخالف اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا وہ اپنے دشمنوں سے جہاد کرتی رہے گی جب ایک لڑائی ختم ہو گی تو دوسری جنگ چھڑ جائے گی اللہ تعالی ایک قوم کو ان کے مقابل کھڑا کرے گا تاکہ ان سے (مال غنیمت کے ذریعے) ان کو رزق ملتا رہے حتی کہ قیامت آ جائے گی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اہل شام ہیں (المعجم الاوسط) (6) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شام اللہ کا چنیدہ ملک ہے وہ اپنے منتخب بندوں کو اس میں جمع فرمائے گا تو جو شام سے نکل کر اس کے غیر کی طرف جائے گا یہ اللہ کی ناراضی سے ہوگا اور جو اس میں داخل ہوگا یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہوگا ۔ (معجم الکبیر) (7) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حالات اس طرح ہو جائیں گے کہ تم لوگ مختلف گروہوں اور لشکروں میں بٹ جاﺅ گے ایک لشکر شام میں ہوگا ایک یمن میں اور ایک عراق میں۔ ابن حوالہ کہتے ہیں: میں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری رہنمائی فرمائیے! اگر حالات ایسے ہو جائیں تو کہاں سکونت اختیار کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شام میں، بلاشبہ یہ علاقہ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ ہے، اللہ تعالیٰ اپنے پسندیدہ بندوں کو یہاں جمع فرمائے گا لیکن اگر تم لوگ اس سے انکار کرو تو پھر اپنے یمن کو اختیار کرنا اور اپنے تالابوں کا پانی پینا بلاشبہ اللہ نے مجھے شام اور اہل شام کے متعلق (فتنوں سے حفاظت کی) ضمانت دی ہے (ابوداﺅد)۔
نوٹ: ہم نے مقامات کے ناموں پر حرکات لکھی ہیں تاکہ قارئین صحیح تلفظ کے عادی ہو جائیں نیز ابن عبد الہادی کی کتاب ’سرزمین شام‘ کی تقدیم میں محسن فارانی نے تاریخِ شام کا جو خلاصہ لکھا ہے، یہ کالم اسی سے مرتب کیا۔