Khawateen Ke Deeni Masail

خواتین کے دینی مسائل

حاملہ خاتون کی عدت:

سوال: میرے میاں کے ایک دوست نے ان کے سامنے کئی سوالات رکھے۔ ان میں ایک سوال میرے لیے پریشانی کا باعث ہے، اس کا تسلی بخش جواب دیجیے۔ سوال یہ ہے کہ قرآن کریم کے مطابق شوہر اگر حاملہ خاتون کو طلاق دے دے تو اس کی عدت بچے کی پیدائش پر پوری ہوگی، لیکن سائنس اب بہت صاف طریقے سے ثابت کر رہی ہے کہ اگر ایک شخص سے حمل ٹھہر گیا ہے اور اس پر دو تین ماہ گزر گئے ہیں، پھر شوہر طلاق دے دے یا اس کا انتقال ہوجائے تو دوسرے شوہر سے اس کی کھیتی (بچے) پر کوئی اثر نہیں پڑتا، کسی قسم کا اشتباہ نہیں ہوسکتا، لیکن بے چاری بیوہ یا مطلقہ کو (عدت کے سبب) تنہائی بھگتنی پڑتی ہے۔ اس کا شوہر نہیں رہا، لہٰذا وہ معاشی طورپر بھی دوسروں کی محتاج و محکوم رہے گی، حمل کے سبب وہ محنت مزدوری تو کر نہیں سکتی۔ (عدت بٹھا کر) اسے مجبور کردیا گیا ہے کہ وہ اس پورے عرصے میں اپنی تمام نفسیاتی و جسمانی خواہشات کا گلاگھونٹ دے۔ جبکہ دوسری طرف طلاق دینے والا مرد اگلے ہی دن دوسری شادی کر رہا ہوگا۔ دورانِ حمل اسے سب سے زیادہ ضرورت ہے کسی ساتھی کی جو اسے محبت و پیار دے، ہر طرح اس کا خیال رکھے، لیکن (عدت بٹھا کر) اسے لاچار اور بے بس کردیا گیا کہ وہ بچے کی پیدائش کا کٹھن مرحلہ بھی خود تنہا جھیلے۔ خلاصہ یہ کہ اصولی طورپر حاملہ خاتون کو ایک دن بھی عدت بیٹھنے کی ضرورت نہیں، بچہ جو پیٹ میں ہے اس کے نسب کا کوئی مسئلہ نہیں۔ (م،ف۔ اسلام آباد)

جواب: حاملہ عورت مطلقہ یا بیوہ ہوجائے تو اسے عدت میں بیٹھنا فرض ہے۔ یہ مسئلہ نص قرآن سے ثابت ہے۔ اس پر اعتراض یا نکتہ چینی کرنا کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا، اس کی حکمت و مصلحت صرف وہی نہیں جو سوال میں ذکر کی گئی (کہ کوئی شخص دوسرے کی کھیتی کو سیراب نہ کرے) بلکہ ایک بڑی حکمت یہ بھی ہے کہ نکاح ایک عظیم نعمت تھی جس میں میاں بیوی دونوں کے لیے بے بہا فوائد تھے، عدت کے ایام گزارنا اس عظیم نعمت کے فوت ہونے پر رنج و غم اور سوگ کا اظہار ہے۔ باقی رہا یہ اعتراض کہ عدت کے سبب عورت تنہائی کا شکار ہوتی ہے، معاشی طورپر محتاج و محکوم ہوتی ہے، اس کی خواہشات اور آرزوؤں کا گلاگھٹ جاتا ہے، تو یہ سب خیالی اور فرضی باتیں ہیں۔ حقیقت سے ان کا دور کا بھی تعلق نہیں، ان کا منشا احکام عدت سے جہالت و بے خبری ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ شریعت نے ایک لمحے کے لیے بھی عورت کو بے یار و مددگار اور تنہا نہیں چھوڑا۔ اگر خاتون طلاق کی عدت میں ہے تو اس دوران اس کے تمام اخراجات شوہر کے ذمے ہیں۔ اسی لیے شریعت نے اسے پابند کیا ہے کہ عدت کے ایام شوہر کے گھر میں رہ کر پورے کرے اور اگر خاتون عدت وفات میں ہے تو رہائش تو اسی گھر میں رکھے لیکن اخراجات مرحوم کے ترکہ سے ادا نہیں کیے جائیں گے، ہاں ترکہ میں بیوہ کا حصہ مقرر ہے، اسی سے اخراجات پورے کرے۔ اگر شوہر نے ترکہ نہیں چھوڑا یا بیوہ کا حصہ اخراجات کے لیے ناکافی ہے تو بیوہ کے اخراجات والد کے ذمے ہیں۔ والد نہ ہو یا تنگدست ہو تو درجہ بہ درجہ دوسرے رشتے داروں پر ہیں۔

معترض کا یہ خیال کہ دوران حمل اسے ساتھی (خاوند) کی ضرورت ہے جو محبت و پیار دے، اصولی طورپر حاملہ کو ایک دن بھی عدت میںبیٹھنے کی ضرورت نہیں، ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ قطع نظر اس سے کہ یہ نظریہ قرآن سے متصادم ہے، معترض میں شمہ برابر عقل ہو تو سوچ کر فیصلہ کرے کہ مطلقہ یا بیوہ خاتون غم و اندوہ سے نڈھال، حال سے بے حال سوگ میں بیٹھی ہے، حمل کی کلفت و مشقت اس پر مستزاد، ایسی بے حال عورت کا کسی مرد کی طرف یا مرد کا ایسی عورت کی طرف جنسی میلان ہوگا؟ ایسی حالت سے دو چار عورت کو شادی کا مشورہ دینا اظہارِ ہمدردی ہے یا بھونڈا مذاق؟

حالتِ احرام میں سر اور چہرہ ڈھانکنا:

سوال: ہم میقات سے احرام باندھ کر عمرہ کرنے جاتے ہیں جب مکہ مکرمہ پہنچتے ہیں تو کبھی پہنچتے ہی عمرہ کرلیتے ہیں، لیکن کبھی تھکاوٹ بہت زیادہ ہوتی ہے اور فوری عمرہ کرنا ممکن نہیں ہوتا، اس لیے قیام گاہ پہنچ کر سوجاتے ہیں اور صبح اٹھ کر عمرہ کرتے ہیں، سونے کی حالت میں چادر بلکہ بعض اوقات لحاف یا کمبل اوڑھ لیتے ہیں، اس کا کیا حکم ہے؟ اس کی وجہ سے دَم یا صدقہ تو واجب نہیںہوجاتا؟ میری ایک عادت ہے کہ سوتے وقت آنکھوں پر کپڑا ڈال لیتا ہوں۔ اس کے بغیر نیند نہیں آتی، اس کا کیا حکم ہے؟ (حاجی جاوید اقبال۔ احمد آباد، 18 ہزاری، جھنگ)

جواب: حالتِ احرام میں مرد کو سر اور چہرہ اور عورت کو چہرہ ڈھانکنا ناجائز ہے، اگر ان میں سے کوئی عضو مکمل یا کم از کم چوتھائی حصہ ڈھانک لیا تو دم واجب ہوگا بشرطیکہ پورا دن یا پوری رات یا اتنی مقدار کسی بھی وقت ڈھانک کر رکھے اور اگر دن یا رات سے کم وقت میں ڈھانکا یا پورا دن یا پوری رات ڈھانک کر رکھا، لیکن چوتھائی عضو سے بھی کم مقدار، تو دَم نہیں بلکہ صدقہ واجب ہوگا۔

صورتِ سوال میں اگر محرم عشا پڑھ کر سویا اور صبح فجر میں اٹھ کر عمرہ کیا تو سر یا چہرہ یا دونوں عضو ڈھانپنے کی صورت میں صدقہ واجب ہوگا۔ صدقۂ فطر کی مقدار میں غلہ یا اس کی قیمت صدقہ کرے۔

آنکھوں پر کپڑا اوڑھنے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر ڈھکا ہوا حصہ کل چہرے کا چوتھائی حصہ یا اس سے زائد بنتا ہے تو پوری رات ڈھانکنے کی صورت میں دم واجب ہوگا۔ چوتھائی چہرہ سے کم یا پوری رات سے کم وقت ڈھانکنے کی صورت میں صدقہ واجب ہوگا۔

محرم میں میت کے لیے ایصالِ ثواب:

سوال: بعض جگہ یہ رواج ہے کہ یکم محرم سے دس محرم تک کسی کا انتقال ہوجائے تو لواحقین ۱۳کے بعد ایصالِ ثواب کرتے ہیں، کیا یہ طریقہ درست ہے؟

جواب: یہ طریقہ درست نہیں، ایصالِ ثواب جب چاہیں کرسکتے ہیں۔ سال بھر میں کوئی تاریخ ایسی نہیں جس میں ایصالِ ثواب کی ممانعت یا کراہت ہو، نیکی میں جس قدر ممکن ہو جلدی کی جائے۔ دنیا سے رخصت ہونے والا مسلمان دعا اور ایصالِ ثواب کا محتاج ومنتظر رہتا ہے۔ اخرج ابن ابی الدنیا عن سفیان قال کان یقال: الاموات احوج الی الدعاء من الاحیاء الی الطعام والشراب (شرح الصدور للامام السیوطی ص ۵۳۸)