Editor Ke Qalam SE

سلام ہمتِ مدیراں

راحت العین

’’شلاماں لیکھم‘‘)السلام علیکم)

’’وعلیکم السلام! جی کون کہاں سے؟‘‘ میں نے مدیروں والا روایتی سوال کیا۔
’’جی… دیش بھاڑت، انڈیا یا ہندوشتان کی ڑیاشت گجڑات کے شہڑ کھیڈا شے زیتون بانو۔ کہنا یہ تھا کہ آپ کا جو ہفت ڑوزہ ’عوڑت‘ کل چھائع ہوا ہے، اس کے شفحہ نمبر پندڑہ پڑ تحڑیڑ ’مشرقی عوڑت بے بش نہیں‘ نقل چھدہ ہے۔

’’جی! آپ کو کیسے معلوم ہے کہ یہ نقل شدہ ہے؟ یہ تو میری اپنی تحریر تھی۔ ہوسکتا ہے کہ عنوان یا مرکزی خیال کسی کی کہانی سے مماثلت رکھتا ہو۔ ‘‘
’’نہیں جی عینا جی! یہی کہانی ممبئی یا بمبئی کے ماہنامہ ’پنجابی ویڑ‘ میں لفج بہ لفج (لفظ بہ لفظ) چھائع ہوئی تھی۔ ‘‘

’’اچھا!… پھر آپ مجھے ’پنجابی ویر‘ میں شائع شدہ تحریر رسالے کے ساتھ بھجوادیں۔ ‘‘
’’ہلَّا‘‘ اور فون بند ہوگیا۔ میں عجیب کشمکش میں مبتلا ہوگئی۔ کافی دیر سوچنے کے بعد تازہ ڈاک کا پہلا لفافہ چاک کرکے کہانی پڑھنی شروع کی ہی تھی کہ پھر فون کی گھنٹی بجنے لگی۔

’’ہیلو! یہ جو کل کا ’عورت‘ شائع ہوا ہے، اس میں ایک کہانی ’پیڑھی بنائو‘ سراسر فضول ہے۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، سراسر بکواس، فالتو چخ چخ اوکے بائے۔ ‘‘ اور میں ہاتھ مسلتی رہ گئی۔ کہانی کے ساتھ شہزا نور کا خط بھی تھا۔
’’مجھے معلوم ہے کہ جب آپ کو کہانی کے ساتھ پیسوں کا بھاری لفافہ لے گا تب آپ کو میری کہانی پسند آئے گی اور آپ تعریف کے ساتھ شائع کریں گی۔ صوفیہ فاروقی، ثمینہ احمد، میمونہ طاہر اور فاکہہ اسد حیدری وغیرہ کی بے تکی سی کہانیاں صرف اس وجہ سے تعریف کے ساتھ شائع ہوتی ہیں کہ وہ امیر کبیر خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں اور آپ کو باقاعدگی کے ساتھ ’بھاری لفافہ‘ بھیجتی ہیں۔ واقعی عینا صاحبہ! میرے پاس آپ کو دینے کے لیے کوئی ’بھاری لفافہ‘ نہیں ہے۔ اس لیے میری کہانیاں شائع نہیں ہوتیں…‘‘ (طویل طنز بھرا خط)

اور میں نے شہزا صاحبہ کی تحریر میں ’کہانی‘ اور قابل اشاعت کوئی نکتہ یا پیرا گراف ڈھونڈنے کی بھر پور کوشش کی مگر ناکامی ہوئی۔ اتنے میں فون کی گھنٹی بجنے لگی۔
’’السلام علیکم! میری کہانی ’بے تاج ملکہ‘ کا کیا بنا؟‘‘

یہ ’بھاری لفافے‘ والی صوفیہ فاروقی تھیں۔
’’وعلیکم السلام! دیکھیں روزانہ 120 کے قریب ڈاک آتی ہے۔ اب میں ان تمام کہانیوں یا مصنفوں کا نام تو یاد نہیں رکھ سکتی۔ اگر قابلِ اشاعت ہوئی تو ان شاء اللہ جلد شائع ہوگی۔ ‘‘

’’شکریہ میم! آپ سے یہی توقع تھی۔ ‘‘ بڑبڑاہٹ کے ساتھ فون بند ہوگیا۔ ابھی سکون کا سانس نہ لے پائی تھی کہ پھر فون کی گھنٹی بجی۔
’’السلام علیکم! بدین سے حفصہ حسین بات کررہی ہوں۔ میری کہانیوں ’عورتوں کا جزیرہ، نیلا سمندر، سبز آنکھیں، ڈوبتا سورج‘ اور ڈھیر سارے لطیفوں کا کیا بنا؟‘‘

’’تھوڑا سا انتظار کرلیں۔ ‘‘ میں نے بڑی مشکل سے غصہ دبا کر تحمل سے جواب دیا اور فون بند کردیا۔ تھوڑی دیر میں پھر گھنٹی بجنے لگی۔
’’السلام علیکم! میں آپ سے ملاقات کرنے آرہی ہوں۔ ‘‘

’’وعلیکم السلام! آپ فی الوقت ہیں کہاں؟‘‘
’’بلند ٹائون میں‘‘

’’بلند ٹائون اور ہمارے دفتر میں ایک گھنٹے کی مسافت ہے اور عشا کی اذان بس ہونے ہی والی ہے۔ اذان کے بیس منٹ بعد ہمارا دفتر بند ہوجاتا ہے، تمام ورکرز نماز پڑھ کر گھر چلے جاتے ہیں۔ اب زحمت نہ کیجیے۔ کل صبح آجائیے گا۔ آپ ساڑھے نو بجے یہاں پہنچیں گی تو ہمارا دفتر بند ملے گا۔ ‘‘
’’نہیں نہیں… میں ابھی آرہی ہوں۔ کل صبح تو مجھے واپس بلوچستان جانا ہے۔ ‘‘ اور فون بند ہوگیا۔

سامنے لفافوں کا ڈھیر لگا تھا، آج بخار کی وجہ سے بارہ بجے دفتر پہنچی تھی۔ اوپر سے کالز اور طنزیہ خطوط نے مزید بے دم کردیا۔ وقت دیکھنے کے لیے ٹیبلٹ اٹھایا تو 26 میسج لکھا نظر آیا۔ ان باکس کو کھولا تو سب سے پہلا میسج کچھ یوں تھا:
’’عورت کی ادارت چھوڑ دیں۔ ’عبوری مدیر‘ لائیں۔ آپ کو اپنے دستخط کرنے نہیں آتے، عینا کو ’چینا‘ لکھی ہیں اور ہمیں کیا خاک ادب اور خوشخطی سکھائیں گی۔ ‘‘

(دوسرا میسج) ’’عورت‘ کا ٹائٹل کس اناڑی نے بنایا تھا؟ ڈوبتے سورج کا منظر؟!بطخ کو مرغی بنادیا، سمندر جیسے خوف ناک کھائی اور پہاڑ جیسے چار پائیاں کھڑی ہیں۔ ٹائٹل بنایا تو ’شام ڈھل رہی ہے ‘ کے لیے گیا تھا مگر میچ ’خوف ناک دن‘ سے کررہا تھا۔ ‘‘

(تیسرا میسج+) ’’میری کہانی ’دراڑ‘ کو ’دراز‘ بنادیا۔ سبحان اللہ! یہ غلطی تھی؟ اور غلطی صرف میری کہانی پر؟! اپنی فضول کہانی ’مشرقی عورت بے بس نہیں‘ کو ’مشرفی‘ نہیں بناسکتی تھیں؟ ارے! بخیل، کنجوس حاسدہ!…‘‘ (نمرہ عمیر)

ادھر عشا کی اذان ہونے لگی۔ میں نے سر تھام لیا۔