مشق اور ریہرسل

جمعرات11 دسمبر 2025 کو آئی ایس پی آر سے جاری کردہ پریس ریلز کے مطابق فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو 14 سال قیدِ بامشقت کی سزا سنا ئی ہے آ ئی ایس پی آر کے مطابق سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کے تحت فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی پندرہ ماہ تک چلنے والی کارروائی 12 اگست 2024 کو شروع کی گئی ۔ملزم پر چار الزامات کے تحت مقدمہ چلایا گیا جو1- سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے2- سرکاری راز کے قانون کی خلاف ورزی (جو ریاست کی سلامتی اور مفاد کے لیے نقصان دہ تھی))3-اختیارات اور سرکاری وسائل کے غلط استعمال اور4- افراد کو غلط مالی نقصان پہنچانے سے متعلق تھے۔طویل اور محنت طلب قانونی کارروائی کے بعد، عدالت نے ملزم کو تمام الزامات میں قصوروار پایا،فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے تمام قانونی دفعات کی تعمیل کی۔ ملزم کو ان کے انتخاب کی دفاعی ٹیم سمیت تمام قانونی حقوق فراہم کیے گئے۔ مجرم متعلقہ فورم پر اپیل کا حق رکھتا ہے۔
٭٭٭

گزشتہ کئی ماہ سے صحافتی اور سیاسی حلقوں میں خاصی بے چینی محسوس کی جا رہی تھی ،کئی حلقے بڑے مضطرب تھے کہ ایک سال سے زیادہ وقت ہو گیا ہے کہ فیض حمید گرفتار ہیں ،کورٹ مارشل ہورہا ہے لیکن کوئی فیصلہ اور نتیجہ سامنے نہیں آرہا ، کچھ حلقوں کا خیال تھا معاملہ خاصا پیچیدہ ہے ،اس لیے تمام پہلوؤں پر تحقیق ہورہی ہے، کچھ ذرائع مصر تھے کہ مسٹر فیض کو نہ صرف سزا نہیں ہوگی بلکہ موصوف بڑے اعزاز کے ساتھ ایک ریسٹ ہاس میں آرام فرما رہے ہیں اور انہیں ہر طرح کی سہولت میسر ہے ۔ مقدمہ اور کورٹ مارشل بس ایک ڈھونگ ہے ،جو ایک سیاسی پارٹی کو رگڑا دینے کے لیے رچایا گیا ہے۔فوجی ترجمان سے کئی بار صحافی برادری نے آڑھے ترچھے سوالات کیے اور جاننے کی کوشش کی کیا ہو رہا ہے۔کئی نامی گرامی صحافی اندر کی خبریں لانے کی کوشش میں سرگرداں پائے گئے ۔ ان باخبر لوگوں کے پاس بھی اپنے اپنے مزاج اور خواہش کی خبریں تھیں۔ جیسا کہ ہر معاملے میں ہوتا ہے ۔
٭٭٭

سزا سنا دی گئی ،اپیل کا حق دیا گیا لیکن اس سب کے ساتھ اس پریس ریلز کے آخر ی جملے نے سب ہی کو چونکا دیا اور کئی ایک کو بڑھکا بھی دیا ؛جملہ یہ ہے : “سیاسی عناصر کے ساتھ مل کر مخصوص سیاسی اشتعال انگیزی اور عدم استحکام کو ہوا دینے اور بعض دیگر معاملات میں مجرم کی شمولیت سے علیحدہ طور پر نمٹا جا رہا ہے۔”
یعنی تحقیق کا باب جاری ہے ۔ابھی کئی راز افشا ہونا باقی ہیں ،کئی پردہ نشین اور ان پر دہ نشینوں کے آلہ کار و سرپرستوں کے نام بھی سامنے آسکتے ہیں اور انھیں سزا بھی مل سکتی ہے ۔ کئی لوگوں کے کان کھڑے ہو گئے ہیں ،کئی ایک کے دل دھڑکنے لگے کہ بابا !جب انھوں نے اپنے ہائی فائی بندے کو رگڑا دے دیا ، سزا سنا دی تو ہم تم بھلا کس کھیت کی مولی اور کس باغ کے آم سیب ہو کہ ہمیں تمھیں چھوڑ دیا جائے گا۔ اس لیے کئی لوگوں نے چپ کا روزہ رکھ لیا ہے اور کسی بھی تبصرے سے انکار ہی میں عافیت جانی ہے۔ کہ کہیں چور کی ڈاڑھی میں تنکے والی مثال نہ بن جائے ۔
٭٭٭

“اصلاحات اور احتساب ” ہر جاتی حکومت کے ساتھ ہی اس بابت اعلانات اور دعوے سامنے آتے ہیں اور نئی حکومت آنے کے کچھ وقت بعد اس کا شور غوغا سنائی دیتا ہے اور پھر کچھ عرصے بعد احتساب کی بساط لپیٹ دی جاتی ہے اور اصلاحات کا باب بھی بند ہو جاتا ہے ۔ کیا اس بار بھی ایسا ہی ہوگا ؟ اس بابت اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا جا رہا ہے ،ہمارے ہاں رائے اصل میں خواہش ہوتی ہے ،اس لیے ایسی رائے جس کا تعلق خواہش سے ہوتا ہے ،اس بابت کچھ کہنا یا اسے تجزیے کے طور پر لینا کوئی دانش مندی اور سمجھ داری نہیں ہوتی ۔ بہر حال خواہش تو خواہش ہی ہوتی ہے ،کوئی مانے یا نہ مانے کوئی سمجھے یا نہ سمجھے۔

رائے ہے یا خواہش ، خبر ہے یا آرزو ، کچھ بھی نام دیا جائے جب جو پایاجائے گا اسے بیان تو کیا جائے گا ۔ ایک حلقہ کہہ رہا ہے کہ یہ سب قیدی نمبر فلاں یعنی وڈے خان صاحب کے خلاف بہانے بازی ہے ، خان کو کھڈے لائن لگانے کے لیے کرتب دکھائے جا رہے ہیں۔ چورو ں لٹیروں ڈاکوں کو حکومت دے دی گئی ہے، اسمبلی جعلی ہے ، سینیٹ بھی جعلی اور حکومت تو خیر سے ہے ہی جعلی۔(سوائے کے پی حکومت کے)۔ دوسری پارٹی کا کہناہے ،یہ سب مکافات عمل ہے لیکن جو ہو رہا ہے ،وہ کچھ زیادہ ہی ہو رہا ہے اور جو آج کر رہے ہیں، انھیں کل بھگتنا پڑے گا ،اس لیے سوچ سمجھ کر دیکھ بھال کر کریں ،سب جب گلے پڑے گا تو سنبھالا نہ جائے گا ۔ ایک تیسرا گروپ بھی ہے اس کا کہنا ہے ، ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے سب کی باری آئے گی ، سب کو رگڑا ملے گا سب کی ایسی تیسی پھر ے گی ، ڈنڈا چلے گا، بڑی بے رحمی سے چلے گا اور اس بار معاملہ رکنے والا نہیں جو ہو رہا ہے اسے یوں سمجھیے کچھ بلکہ بہت کچھ بڑا ہونے کی مشق اور ریہرسل ہے یا جو نظرآ رہا ہے وہ تو بس نمونہ اور ٹریلر ہے، ابھی فلم کی جھلکیاں چل رہی ہیں ۔