کینٹربری اور یارک انگلینڈ کے دو تاریخی شہر ہیں۔ یہ تاریخی ہونے کے ساتھ انگلینڈ میں عیسائیت کی تاریخ کے بھی گواہ ہیں۔ چوتھی صدی عیسوی میں یہاں عیسائیت کو فروغ حاصل ہوا۔ ازمنہ وسطیٰ میں یہ دونوں شہر مسیحی مذہبی اقتدار کے بنیادی ستون تھے۔ چرچ کی ساری پالیسی ان دونوں شہروں میں بنتی تھی۔ پالیسی سازی کے لیے دنیا بھر سے بشپ اور پادری ان شہروں میں اکٹھے ہوتے تھے اور کئی کئی گھنٹے طویل مجالس منعقد ہوتی تھی۔ ان مجالس کا حکم بادشاہ، آرچ بشپ یا چرچ کے اعلیٰ حکام دیتے تھے اور ان میں سینکڑوں مذہبی شخصیات شریک ہوتی تھیں۔ ان میں بشپس، ڈینز، پادری اور ماہرین الٰہیات شامل ہوتے تھے۔ ان مجالس میں مذہبی قوانین کی تشکیل، مالیاتی امور، تعلیم کے معیار اور چرچ کے نظم و ضبط کے حوالے سے فیصلے کیے جاتے تھے۔ پالیسی سازی کے لیے منعقد ہونے والی ان مجالس کو ”Convocation ” کہا جاتا تھا۔ ان مجالس کے فیصلے اتنے اہم ہوتے تھے کہ بادشاہ بھی ان سے انحراف نہیں کر سکتا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1530جب ہنری ہشتم نے چرچ کو حکومت سے الگ کیا تو کینٹربری کی مجلس Convocation کئی سال تک پارلیمنٹ سے زیادہ بااختیار رہی اور اہم فیصلے پارلیمنٹ کی بجائے اس مجلس سے جاری ہوتے تھے۔
سولہویں صدی کے دوسرے نصف تک انگلینڈ میں چرچ کا اثر کم ہو چکا تھا، حکومت کے اختیارات پادریوں کی بجائے بادشاہوں کومنتقل ہو چکے تھے اور سماج چرچ کے اثر و رسوخ سے آزاد ہو چکا تھا۔ اس تبدیلی کے باوجود لفظ Convocation کا اثر باقی رہا اور سولہویں صدی کے آخر میں جب آکسفورڈ اور کیمبرج جیسی یونیورسٹیاں یورپ میں علم کے بڑے مراکزکے طور پر سامنے آئیں تو انہوں نے چرچ کی اصطلاح کو علمی دنیا کی روایت میں بدل دیا۔ وہ لفظ جو کبھی پادریوں کے سنجیدہ اور بھاری بھرکم اجلاسوں کے لیے استعمال ہوتا تھا ہزاروں طلبہ کی مسکراہٹوں، کامیابیوں اور خوابوں کا نشان بن گیا۔ 1577میں آکسفورڈ یونیورسٹی نے پہلی مرتبہ اپنے گریجویٹس کے اجتماع کیلئے Convocation کا لفظ استعمال کیا۔ یوں ایک ایسا لفظ جس نے کینٹربری اور یارک میں منعقد ہونے والی پادریوں کی مجالس میں جنم لیا تھا، آہستہ آہستہ وہ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں خوشی، محبت، کامیابی اور اْمید کا استعارہ بن گیا۔ آج ہزاروں طلبہ گاؤن اور کیپ پہنے، اپنے والدین اور خاندانوں کے ساتھ دلوں میں ہزاروں سپنے سجائے اور مستقبل کے عزائم لیے خوشی سے نہال ہوتے ہیں تو وہ اس لفظ کی صدیوں پر محیط ایک ایسی تاریخی روایت کا حصہ بن جاتے ہیں جس نے مذہبی مجلس سے تعلیمی جشن تک کا سفر طے کیا ہے۔
پچھلے دنوں نمل یونیورسٹی لاہور کیمپس کے چوتھے کانووکیشن کا انعقاد ہوا۔ اس کانووکیشن میں چارسو سے زائد طلبہ و طالبات کو ڈگریاں عطا کی گئیں۔ کانووکیشن کے دوران طلبہ کے چہروں پر خوشی اور امیدکی چمک تھی۔ ان کے چہروں پر مستقبل کی امیدوں، ارادوں اور امکانات کے رنگ بکھرے ہوئے تھے۔ والدین کی آنکھوں میں فخر اور امید کے رنگ بکھرے ہوئے تھے۔ تقریب کے چیف گیسٹ میجر جنرل (ر) شاہد محمود کیانی، ہلال امتیاز (ملٹری) تھے۔ انہوںنے اپنی شائستہ اور پُرسوز گفتگو سے حاضرین و سامعین کو ہمہ تن گوش رکھا۔ انہوں نے طلبہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آج کی یہ کامیابی آپ کے والدین کی برسوں کی محنت کا ثمر ہے۔ آج داد و تحسین کے اصل حق دار وہ والدین ہیں جنہوں نے آپ کے خوابوں کو سہارا دیا۔ اپنے وسائل، وقت اور جذبات کو آپ پر نچھاور کیا۔
کانووکیشن کے انتظامات ریجنل ڈائریکٹر بریگیڈیئر (ر) ہمایوں ضیاء چوہان ستارہ امتیاز (ملٹری) بذات خود دیکھ رہے تھے۔ وہ کئی ہفتوں سے ہر انتظامی، تکنیکی اور تنظیمی پہلو پر مسلسل نظر رکھے ہوئے تھے۔ ان کا مزاج یہ ہے کہ وہ کام کی صرف تکمیل نہیں بلکہ بہترین طریقے سے تکمیل چاہتے ہیں۔ ان کی یہی سنجیدگی، نظم و ضبط اور پیشہ ورانہ مہارت یونیورسٹی کے ماحول میں جھلکتی ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پچھلے ایک سال سے نمل لاہور کیمپس نے جو کامیابیاں سمیٹی ہیں اس کے پیچھے بریگیڈیئر (ر) ہمایوں ضیاء چوہان کی انتظامی صلاحیتوں، ادارہ سازی کے تجربے اور یونیورسٹی کے مستقبل کے لیے ان کے واضح وژن نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے نہ صرف فیکلٹی، طلبہ اور اسٹاف کو سہولیات کی فراہمی پر خصوصی توجہ دی بلکہ یونیورسٹی کے علمی ماحول میں بھی وہ استحکام پیدا کیا ہے جو کسی بھی معیاری ادارے کی بنیاد ہوتی ہے۔ ان کی رہنمائی میں کیمپس نے نہ صرف اپنے تعلیمی معیار کو بلند کیا ہے بلکہ انتظامی شفافیت، ڈسپلن اور نظم و ضبط کو بھی اپنا امتیازی نشان بنایا ہے۔ حالیہ کانووکیشن کی کامیابی بھی اسی تسلسل کا ایک حسین باب ہے۔
نمل یونیورسٹی لاہور کیمپس شہر کے مرکز میں پنجاب اسمبلی کے پہلو میں واقع ہے۔ یہاں مختلف ڈیپارٹمنٹس میں ہزاروں طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ لاہور جیسے تاریخی و تہذیبی شہر میں، اس کے توانائی بھرے ماحول اور قدیم علمی روایات کے درمیان یہ یونیورسٹی ایک ایسا تعلیمی مرکز ہے جہاں روایتی کتابی علم اور جدید پیشہ ورانہ تربیت دونوں ایک ساتھ پروان چڑھتے ہیں۔ یہاں بی ایس اور ایم فل کے درجنوں پروگرامز چل رہے ہیں جن میں سر فہرست کمپیوٹر سائنسز، میڈیا اسٹڈیز، سائیکالوجی، سوشل سائنسز، لینگویجز اور دیگر شعبے شامل ہیں۔ نمل یونیورسٹی کی بنیاد لینگویجز کے لیے رکھی گئی تھی اور آج بھی یہ اعزاز اس کے پاس ہے کہ یہ زبانیں سکھانے کے اعتبار سے پاکستان کی نمبر ون یونیورسٹی ہے۔ دنیا کی بڑی زبانیں عربی، انگریزی، چینی، جرمن، ترک، جاپانی، کورین، فارسی اور فرانسیسی یہ سب زبانیں یہاں پڑھائی جاتی ہیں۔ یہ وہ علمی امتیاز ہے جس نے نمل کو صرف ایک یونیورسٹی نہیں بلکہ ثقافتوں، تہذیبوں اور قوموں کے درمیان باہمی رابطے کا پل بنا دیا ہے۔ لاہور جیسے شہر میں جو پہلے ہی فکری تنوع کا بڑا مرکز ہے، نمل کیمپس نے اس تنوع کو اور زیادہ رنگین، وسیع اور بامعنی بنا دیا ہے۔
نمل یونیورسٹی کا یہ کانووکیشن صرف ایک تقریب نہیں تھی، یہ ایک علامت تھی کہ پاکستان کا نوجوان طبقہ اپنے خوابوں، صلاحیتوں اور ارادوں کے ساتھ زندہ ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ تعلیمی ادارے اگر مضبوط وژن، بہتر انتظام اور سنجیدہ قیادت کے ہاتھوں میں ہوں تو وہ معاشرے کی فکری بنیادوں کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔

