وسطی ایشیا میں واقع اہم ملک کرغزستان اور پاکستان کے درمیان نہایت ہی اہم تجارتی تعاون کا سمجھوتا طے پاگیا ہے۔ اسلام آباد میں ہونے والے اعلیٰ سطحی ملاقات تجارت، توانائی، معیشت، زراعت، بندرگاہوں کے استعمال، تعلیم، سیاحت سمیت مختلف شعبوں میں باہمی تعاون کے فروغ کے لیے15اہم معاہدے طے پا گئے ہیں جن کے ذریعے دوطرفہ تجارت کا حجم 200ملین ڈالر تک بڑھانے کا عزم کیا گیا ہے۔ 20سال بعد کرغزستان کے صدر صادیر ژاپاروف پاکستان تشریف لائے ۔اپنے دورہ پاکستان کے آغاز پر انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ پاکستان کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون کو مزید بڑھایا جائے اور باہمی اشتراک کے نئے مواقع تلاش کیے جائیں۔ پاکستان گزشتہ چند برسوں کے دوران متعدد وسط ایشیائی ممالک سے تجارتی و سفارتی تعلقات بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔ کرغیزستان وسط ایشیا کا قدرتی وسائل سے مالامال ملک ہے جس کے ساتھ دوطرفہ تعاون بڑھاکر ہم اپنے لیے نئے مواقع پیدا کرسکتے ہیں۔ اس موقع پر پاکستان کے لیے فوری نوعیت کی ایک اہم بات یہ ہوگی کہ 2027ء میں گلوبل کلائمیٹ سمٹ بشکک میں ہو رہی ہے اور پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے، لہٰذا پاکستان کو کرغزستان کے ساتھ اس عنوان کے تحت اپنی شمولیت کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی ضرورت ہوگی تاکہ دنیا کو اس بات کا احساس دلایا جا سکے کہ پاکستان متاثرہ ممالک میںسر فہرست ہے۔
کرغز صدر اور پاکستانی وزیراعظم کی ملاقات صرف دو رہنماؤں کا مصافحہ نہیں بلکہ دو خطوں جنوبی ایشیااور وسطی ایشیا کے ملاپ کا اشارہ اور ایک نئے باب کا آغاز بھی ہے۔ یہ 15معاہدے محض کاغذ پر سیاہی نہیں بلکہ آنے والے مستقبل کی دستک ہیں۔ پاکستان کے لیے وسط ایشیا کے دروازے اور کرغزستان کے لیے پاکستان کی بندرگاہوں کے راستے کھول دیے گئے ہیں۔ سیاحت پر کام کے لیے معاہدہ کرلیا گیا ہے۔اگر ان معاہدوں پر عمل درآمد کے لیے دونوں ملکوں نے تیزی سے کام کرنا شروع کردیا ہے تو ایسی صورت میں فوری طور پر دنوں ملکوں کے درمیان معاشی سرگرمیوں میں تین گنا اضافے کی توقع کی جا رہی ہے اور 20کروڑ ڈالر سے بھی زیادہ کی تجارت ممکن ہے۔
لیکن فی الحال افغانستان کی راہداری کی صورت حال مزاحم ہے۔ اس وقت چین، روس، امریکا سب کی نظریں وسطی ایشیا پر ہیں۔ ایسی صورت میں دونوں ملکوں کے درمیان تعاون ایک نئی علاقائی صف بندی کی شروعات ہو سکتی ہے، اگر ان معاہدوں پر عمل درآمد شروع ہوگیا اور افغانستان کے حالات میں بہتری آ گئی تو پاکستان کو وسطی ایشیا کی نئی منڈیوں تک پہنچنے کا موقع ملے گا۔ برآمدات میں اضافہ ہوگا۔ وسطی ایشیا کا قدرتی اتحادی پاکستان ہی ہوگا کیونکہ ان کے لیے سمندر تک رسائی اب خواب سے حقیقت بن جائے گی۔ جنوبی ایشیا کی مارکیٹ ان ملکوں کی مصنوعات کے لیے مکمل کھل جائیں گی۔ یہ 15معاہدے دراصل مستقبل کے 15چراغ ہیں جس سے ترقی کی راہیں کھلیں گی لیکن اصل معاملہ افغانستان سے راہداری ملنے کا ہے۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان موجودہ کشیدہ صورت حال میں اس سلسلے میں کسی فوری پیشرفت کی تو توقع نہیں ہے تاہم آگے چل کر دونوں ملکوں کو بہر حال معاملات کو درست کرنا ہوگا۔
وسطی ایشیا صدیوں سے خاموش مگر قیمتی خزانہ رہا ہے۔ معدنیات، توانائی، ہنرمند افرادی قوت اور جغرافیائی مرکزیت کے باعث پاکستانی زمینی راستے سے ان ملکوں تک پہنچنے کے لیے کوشش کر رہا ہے۔ چین کے لیے بھی ‘سی پیک’ کے ذریعے افغانستان اور ان ملکوں تک پہنچنے کا فائدہ ہوگا۔ ان منصوبوں میں پاکستان کے لیے ایک اہم منصوبہ توانائی سے متعلق ہے۔ وفاقی وزیر توانائی نے اس بات کی ضرورت پر زور دیا ہے کہ کم قیمت بجلی کی دستیابی کے لیے حکمت عملی اختیار کی جائے۔ دونوں ملکوں کے وزیر توانائی کے ملاقات میں اس مسئلے پر بات چیت ہوئی ہے۔ وفاقی وزیر نے کرغزستان، چین ٹرانسمیشن منصوبے میں پاکستان کے شمالی علاقہ جات کو شامل کرنے کی تجویز بھی پیش کی ہے اور مستقبل میں دوطرفہ توانائی تعاون کے لیے پانچ نکاتی فریم ورک پیش کیا۔
پاکستان کرغزستان بزنس فورم کے ذریعے معاشی تعاون کی نئی راہیں کھلیں گی۔ صدر کرغزستان نے اس دورے کے موقع پر نہایت ہی اہم بات یہ کی کہ پاکستان جنوبی ایشیا میںکرغزستان کا اہم شرکت دار ہے۔ ہم نے دوطرفہ اور مستقبل کے منصوبوں پر تفصیلی بات کی ہے۔ توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کاسا 1000منصوبہ اہمیت کا حامل ہے۔ تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی کے شعبوں میں بھی تعاون کو بڑھانا ہے۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اس وقت 12ہزار پاکستانی طلبہ کرغزستان میں زیر تعلیم ہیں، نیز دونوں ممالک نے اسلام آباد اور بشکیک کو جڑواں شہر قرار دینے کا معاہدہ بھی کیا ہے، پاکستان کی حکومت کو ملک کے دیگر شہروں کا بھی خیال کرنا ہوگا۔ ملک میں 5یا 7ایسے بڑے شہر ہیں جن میں کراچی لاہور بھی شامل ہیں۔پاکستان کے نوجوانوں کو وسط ایشیا ئی ممالک میں تعلیم اور تجارت کے لیے مواقع کی تلاش میں رہنمائی اور مدد فراہم کی جائے۔اس کے لیے ان ممالک میں پاکستان کے سفارت خانوں کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔

