سیاسی سنجیدگی۔ قومی شائستگی

پاکستان کی سیاسی تاریخ ہمیشہ سے طاقت کی کشمکش، ریاستی اداروں کے اندرونی توازن اور سیاسی جماعتوں کے باہمی اختلافات سے عبارت رہی ہے۔آج حالات اس نہج تک پہنچ چکے کہ ملکی سیاست ایک ایسے اضطراب میں ہے جو قومی استحکام کے لیے سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔ ایسے وقت میں سیاسی سنجیدگی اور قومی شائستگی محض اصطلاحات نہیں، بلکہ حقیقی ضرورت بن چکی ہیں۔ پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں ہمیشہ دو طبقات نمایاں رہے ہیں۔ ایک طاقتور حلقہ اور دوسرا سیاسی طبقہ۔

طاقتور حلقہ ہمیشہ منظم، متحد اور بااثر رہا، جبکہ غیر طاقتور یعنی سیاسی طبقہ اندرونی اختلافات، گروہ بندی اور قیادت کے بحران کا شکار رہا۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ سیاسی عناصر اکثر انہی طاقتور حلقوں کی تیارکردہ نرسریوں سے پروان چڑھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہ ایک دوسرے پر چاپلوسی یا وفاداری کا الزام لگاتے ہیں، تو دراصل اپنے ہی سیاسی ماضی پر سوال اٹھاتے ہیں۔ یہ تضاد سیاسی کلچر کو کمزور اور جمہوری اقدار کو متاثر کرتا رہا ہے۔ ماضی میں اختلافات صرف اشاروں اور کنایوں تک محدود رہتے تھے۔ آج بیانیہ کھلے عام، سخت اور جارحانہ ہو گیا ہے۔ طرفین کی جانب سے الزامات، القابات، تنقید، گالی گلوچ اور کردار کشی نے سیاسی ماحول کو شدید تقسیم اور تناؤ کا شکار کر دیا ہے۔ سب سے خطرناک پہلو وہ حالات ہیں جن میں مشتعل گروہوں نے حساس اداروں، دفاتر اور تنصیبات پر حملے کیے۔ یہ نہ صرف غیر سیاسی عمل تھا بلکہ سیاسی بلوغت کے فقدان کی بھی مثال تھی۔ ایسے واقعات پورے سیاسی نظام کو عدم استحکام کی جانب دھکیلتے ہیں اور عوام میں بے یقینی پیدا کرتے ہیں۔ ہر صاحبِ شعور شہری یہ سوال کرتا ہے کہ یہ کشمکش کب اور کہاں ختم ہوگی؟ ریاستی اداروں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان اعتماد کی کمی، بیانیے کی شدت اور فیصلہ سازی کی غیر سنجیدگی اس بحران کو بڑھا رہی ہے۔ ریاستی اداروں، حکام، سیاسی جماعتوں پر عوامی اعتماد متاثر ہو رہا ہے۔ ایسے نازک حالات میں سیاسی تناؤ مزید خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ یہی مقام ہے جہاں سیاسی سنجیدگی اور قومی شائستگی کی ضرورت سب سے زیادہ محسوس ہوتی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف آج داخلی و خارجی بحرانوں سے گزر رہی ہے۔ قانونی پیچیدگیاں، تنظیمی کمزوریاں، قیادت کا عدم اتفاق اور وکلاء پر حد سے زیادہ انحصار جماعت کے سیاسی تشخص کو متاثر کر رہے ہیں۔

وکلاء قانونی معاونت فراہم کرسکتے ہیں، مگر سیاسی قیادت اور حکمت عملی کا متبادل نہیں۔ سیاست عدالتوں میں نہیں بلکہ عوام، اسمبلی اور مکالمے میں چلتی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ کئی بڑی جماعتیں داخلی غلطیوں اور ریاستی اداروں سے مسلسل محاذ آرائی کی بدولت سیاسی منظر نامے سے غائب ہوئیں۔جماعت کو اندرون و بیرون ملک متحرک یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا کارکنان کے چنگل سے نکالنا ہوگا۔ کئی مواقعوں پر اپنے خدشات کا اظہار کر چکا ہوں کہ امریکہ و یورپ میں بیٹھے عمران خان اور پارٹی کے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹس چلانے والے افراد اور انکے انتہائی قریبی رشتہ دار اپنی غیر دانشمندانہ اقدامات کی بدولت موصوف کو پھانسی گھاٹ تک پہنچا کر ہی دم لیں گے۔ پی ٹی آئی کو ایسے رہنماؤں کی ضرورت ہے جو سیاسی فہم رکھتے ہوں، اختلافات رکھتے ہوئے بھی رابطے اور مفاہمت کو ترجیح دیں۔ فواد چودھری، پرویز الٰہی اور بیرسٹر سیف اللہ خان ایسے تجربہ کار رہنما جماعت کو سنجیدہ اور حقیقت پسندانہ سیاست کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے بچاؤکیلئے عمران خان کو جیل کی سلاخوں سے باہر نکلوانا وقت کی اشد ضرورت ہے، بالکل اسی طرح جیسے نواز شریف کو دو مرتبہ طاقتوروں کے حصار سے ان کی پارٹی اورقریبی رشتہ دار شخصیات نے نکلوا لیا تھا۔ خدانخواستہ اگر پی ٹی آئی اپنے قائد کو ذوالفقار علی بھٹو بنوانے کیلئے بضد ہے تو یاد رہے پی ٹی آئی کے پاس جماعت سنبھالنے کیلئے نصرت بھٹو یا بے نظیر بھٹو ایسی کوئی شخصیت موجود نہیں ہے۔ حالات یہ ہیں کہ عمران خان کی گرفتاری تا امروز ان کی لندن میں مقیم اولاد ملاقات کرنے کی زحمت گوارا نہ کرسکی۔ باوجود اس کے کہ ان کی اولاد کرکٹ میچ دیکھنے متحدہ عرب امارات کی یاترا کرچکی ہے مگر اپنے باپ سے اڈیالہ جیل ملاقات کیلئے مزید اڑھائی گھنٹے کی فلائٹ کا سفر کرنے کی ہمت نہ کرسکی۔حد تویہ ہے کہ آج تک ان کی اولاد نے اپنے والد کی رہائی کی خاطر لند ن میں منعقدہ کسی سیاسی مظاہرے، احتجاجی ریلی میں حصہ نہیں لیا۔

پاکستان کی موجودہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ سیاسی حلقوں کو اختلاف اور دشمنی میں تمیز پیدا کرنی ہوگی۔ موجودہ ماحول میں الزام تراشی، محاذ آرائی اور ایک دوسرے کو دیوار سے لگانے کی روش نے نہ صرف سیاسی عمل کو کمزور کیا ہے بلکہ عوام کا سیاسی قیادت پر اعتماد بھی متزلزل کر دیا ہے۔ سب سے بڑی ذمہ داری میاں نواز شریف، آصف زرداری اور عمران خان کے کندھوں پر عائد ہوتی ہے، جو تین دہائیوں سے ملکی سیاست کے سب سے بااثر کردار ہیں۔ ان رہنماؤں کو ماضی کی تلخیوں کو بھول کر اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ باہمی محاذ آرائی کا فائدہ کسی ایک جماعت کو نہیں بلکہ صرف غیر سیاسی عناصر کو پہنچتا ہے۔

یہ بھی طے کرنا ہوگا کہ سیاسی ماحول اور سیاسی طاقت کو سیاست دانوں کے ہاتھوں میں ہی رکھنا ہے یا پھر اسے طاقتور حلقوں کے فیصلوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا ہے۔ اگر سیاسی قیادت نے ماضی سے سبق نہ سیکھا تو یہی کشیدگی ملک کے لیے کسی بڑے سانحے کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ دوسری جانب طاقتور حلقوں کو بھی یہ سوچنا ہوگا کہ قوم کا استحکام محاذ آرائی میں نہیں بلکہ سیاسی ہم آہنگی اور آئینی بالادستی میں ہے۔آج پاکستان اس نازک موڑ پر کھڑا ہے جہاں ایک غلط قدم بحران کو مزید بدترین بنا سکتا ہے۔ معیشت کی کمزوری، عوامی بے چینی، مہنگائی اور ادارہ جاتی عدم توازن ملک کو اس مقام تک لے آئے ہیں کہ اب سیاسی غلطیوں کی گنجائش نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ قومی مفاد، اجتماعی دانش اور سیاسی بلوغت ہی وہ راستے ہیں جو ہمیں تقسیم، تنازع اور محاذ آرائی سے نکال سکتے ہیں۔وقت کا تقاضا یہی ہے کہ سیاست دان سنجیدگی اپنائیں، قومی شائستگی کے ساتھ آگے بڑھیں، اپنے بیانیوں کو عوامی جذبات بھڑکانے کے بجائے قومی تعمیر و استحکام کے لیے استعمال کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ طاقتور طبقات کو بھی تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا، کیونکہ یکطرفہ فیصلے ملک کو مزید عدم استحکام کی طرف دھکیلتے ہیں۔ یہی رویہ پاکستان کے محفوظ، مضبوط اور باوقار مستقبل کی حقیقی بنیاد رکھ سکتا ہے، بشرطیکہ تمام فریق انا سے بالاتر ہو کر قومی سوچ اختیار کریں۔