پہلے آپ یہ کہانی پڑھ لیں، پھر اس سے آگے بڑھتے ہیں، اگر آپ نے سوشل میڈیا پر پچھلے دو تین دنوں میں اس کہانی کو پڑھا ہو تو معذرت، مگر فکر نہ کریں، ہم آج کے کالم میں آپ کو یہ چلا ہوا پرانا سودا نہیں بیچ رہے، کچھ اور کہنا ہے۔ پاکستانی سوشل میڈیا پر انجانے سورس سے نمودار ہونے والی کہانی کچھ یوں ہے:
ایک تصویر پورے جرمنی میں تیزی سے وائرل ہوئی، گیمز آف تھرون کے ایک مقبول اور مشہور کردار آریا اسٹارک کو ادا کرنے والی اداکارہ میسی ولیمز جرمن میٹرو میں بیٹھی ہے، اس کے ساتھ بیٹھا نوجوان بالکل بے نیاز ہے، اسے کوئی پروا نہیں کہ سائیڈ والی چیئر پر اتنی مشہور اداکارہ اور سیلیبریٹی بیٹھی ہے۔ مشہور جرمن میگزین ڈیر شپیگل نے اس تصویر کی کھوج شروع کی اور اس میں بیٹھے بھارتی نوجوان کو ڈھونڈنے نکل پڑے۔ آخرکار سراغ میونخ میں ملا اور پتا چلا کہ وہ نوجوان وہاں غیر قانونی طور پر رہ رہا تھا۔ صحافی نے اس انڈین نوجوان سے پوچھا، تمہیں پتا بھی تھا کہ تمہارے ساتھ بیٹھی سنہری بالوں والی لڑکی معروف اداکارہ میسی ولیمز تھی؟ لوگ اس سے ایک سیلفی لینے کے لیے بھی ترستے ہیں اور تم نے کوئی خاص ردعمل ہی نہیں دیا، کیوں؟
وہ نوجوان بالکل پرسکون تھا، اس نے بس اتنا کہا، جب تمہارے پاس رہائش کا کاغذ نہ ہو، جیب میں ایک یورو بھی نہ ہو، اور تم روز ٹرین میں چھپ کر سفر کرتے ہو، تو پھر تمہیں اس بات کی فکر ہی نہیں رہتی کہ تمہارے ساتھ کون بیٹھا ہے۔ نوجوان کی صاف گوئی نے صحافی اور میگزین کو اتنا متاثر کیا کہ ڈیر شپیگل نے اسے فوراً ایک ڈاکیے کی نوکری دے دی۔ تنخواہ 800یورو ماہانہ۔ اسی ملازمت کے کنٹریکٹ کی بنیاد پر اسے باقاعدہ رہائشی اجازت نامہ بھی مل گیا۔ وہ سارا مسئلہ جو اس کے سر پر تلوار بنا ہوا تھا، لمحوں میں ختم ہوگیا۔ یہ پوری کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ رزق کہاں سے اور کس طرح آ جائے، انسان سوچ بھی نہیں سکتا، بس دل ہمت نہ ہارے۔ مشکلیں وقتی ہوتی ہیں اور اللہ ہمیشہ وہی راستہ کھولتا ہے جس کی ہم نے توقع بھی نہیں کی ہوتی۔ امید رکھو، بھروسہ رکھو۔ تمہارا وقت بھی آتا ہے۔
یہ دلچسپ موٹیویشنل اسٹوری گزشتہ روز پڑھی، پھر رات بھر میں اسے کئی پوسٹوں کی زینت بنے دیکھا۔ ہمارے ہاں کاپی پیسٹ کرنے کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے۔ لوگ ایک سکینڈ میں پوسٹ کاپی کرکے اپنے پاس چسپاں کردیتے ہیں۔ بعض اوقات نیک نیتی اور کسی اچھی تحریر کو مثبت تشہیر کے لیے پھیلانے کے خیال سے بھی یہ کیا جاتا ہے کہ پوسٹ شیئر کرنے سے زیادہ ریچ نہیں ملتی، البتہ کاپی پیسٹ کرنے سے وہ اوریجنل پوسٹ کی طرح بڑی ریچ لے سکتی ہے۔ مجھے اس اسٹوری میں ایک دو باتیں کھٹک رہی تھیں، ایک تو یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ ایسے ایک رینڈم تصویر سے کسی اخبار یا صحافی کے لیے کسی گمنام مسافر کو کھوجنا آسان نہیں، پھر اس تصویر میں ایسا کوئی اچھوتا پن بھی نہیں تھا کہ کوئی اتنا کشٹ اٹھاتا۔ خیر میں نے اس اسٹوری کو جانچنے کا فیصلہ کیا، خوش قسمتی یا بدقسمتی سے (اس بدقسمتی کی وضاحت آگے کروں گا) ہم آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے دور میں جی رہے ہیں جہاں کچھ مفت میں اور پھر تھوڑے سے پیسے دے کر پیڈ اے آئی ایپس بہت سا کام کر دیتی ہیں۔ میں نے دو تین مختلف پہلوانوں کو یہ ٹاسک سونپا۔ چیٹ جی پی ٹی، گروک، جیمنائی۔ نتیجہ دلچسپ نکلا۔ پتا چلا کہ یہ اسٹوری بالکل جعلی ہے۔ ایسا کوئی واقعہ جرمنی میں نہیں ہوا۔ ڈیر شپیگل نے ایسی کوئی اسٹوری سرے سے شائع ہی نہیں کی۔ عالمی میڈیا کو کھنگالنے سے میسی ولیمز کے حوالے سے ایسی کوئی اسٹوری نہیں ملی۔ میسی ولیمز نے اپنے کسی انٹرویو میں بھی اس حوالے سے نہیں بتایا۔ اب آیا تصویر کا معاملہ، گوگل پر ریورس امیج کی سہولت دستیاب ہے جس سے یہ پتا چل جاتا ہے کہ یہ تصویر اصلی ہے یا جھوٹی، یا کب کی ہے۔ تھوڑی سی تحقیق ہم نے بھی فرمائی مگر زیادہ ہم نے چیٹ جی پی ٹی اور گروک سے کرائی۔ معلوم ہوا کہ یہ تصویر جرمنی میٹرو کی ہے ہی نہیں، یہ لندن میٹرو کی تصویر ہے اور 2019کی ہے یعنی 6سال قبل کی۔ گوگل ریورس امیج نے تو 6سال پرانا ایک ٹوئٹ بھی نکال کر دکھا دیا جس میں کسی نے ٹوئٹ کیا تھا کہ جس طرح یہ نوجوان میسی ولیمز کو اگنور کررہا ہے ویسے میں ہر ایک کو اگنور کرنا چاہتا ہوں۔
اب یہاں تک پہنچ کر یہ قصہ تو تمام ہوا، ثابت ہوگیا کہ یہ ایک فرضی اور جعلی کہانی کسی نے موٹیویشنل مقصد کے لیے گھڑ کر پھیلا دی۔ ہمارے معصوم جنوبی ایشیائی کنزیومرز نے اسے وائرل کردیا۔ چلیں ٹھیک ہوگیا، بات کلیئر ہوگئی۔ میرا دکھ مگر یہ نہیں، بطور لکھاری میرا افسوس اور غم یہ ہے کہ یہ کم بخت مارے اتنے سارے تفتیشی ایجنٹ پیدا ہوگئے ہیں کہ بندہ اپنے کالم میں اب کچھ فکشن بھی نہیں ڈال سکتا۔ ہم سے پہلے والے کیا کچھ نہیں کرتے رہے۔ ہر قسم، ہر نسل اور ہر رنگ کی کہانیاں انہوں نے گھڑ کر اپنے کالموں کی زینت بنائیں اور خوب شہرت اور نام کمایا۔ ایک معروف کالم نگار تو کالم میں دھڑلے سے عجیب وغریب اعداد وشمار بھی دے دیتے، جیسے لکھ ڈالتے کہ پاکستان میں 13لاکھ 87ہزار 512موٹر سائیکلیں ہیں۔ تو بھائی لوگو، لکھنا اب اتنا آسان نہیں رہا۔ اب کچھ اچھا، متاثرکن، موثر لکھنے کے لیے پتا پانی کرنا پڑے گا، جان مارنا پڑے گی، پھر لفظوں میں زندگی کے اثار نظر آئیں گے۔
اردو کے منفرد لکھاری محمد خالد اختر نے اپنے ایک دلچسپ مضمون میں ایک کردار کی زبانی بتایا کہ اس نے سمرسٹ ماہم اور تین چار دیگر انگریزی کے ادیبوں کی کہانیوں کے ٹکڑے لے کر ایک کہانی بنا ڈالی، اسے ایک اردو ادبی جریدے میں بھیج دیا۔ جریدے میں وہ کہانی ایک شاندار تعریفی نوٹ کے ساتھ چھپ گئی۔ وہ ادیب چوڑا ہو کر ہر ادبی اجلاس میں پہنچ جاتا اور تعریف وصول کرتا۔ یہ اور بات کہ اگلے شمارے میں ایک پرانے کہنہ مشق، محقق مزاج نقاد کا مضمون چھپا جس نے ان تمام انگریزی کے ادیبوں کے اصل ٹکڑے نقل کرکے بتایا کہ کس طرح ادبی سرقہ کیا گیا۔ مصنف پر تو گویا بجلی گر گئی۔ وہ کئی دنوں تک گھر سے ہی نہ نکلا اور قسم کھائی کہ جب تک اس محقق نقاد جیسے منحوس زندہ ہیں، تب تک کوئی ادبی مضمون یا کہانی نہیں لکھنی۔
آج کے دور میں قلم سے کمانے والے ہم معصوم، نمانے لکھاریوں کا المیہ زیادہ بڑا ہے کہ اب واسطہ مصنوعی ذہانت سے ہے۔ ان ایپس سے ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید بہتر ہوں گی، ان کی پرفارمنس، ایکوریسی بہتر سے بہترین ہوتی جائے گی۔ اس لیے ان کے فنا ہونے کی امید یا توقع لاحاصل ہے، اپنے آپ ہی کو بہتر بنانا ہوگا۔ زیادہ تخلیقی، زیادہ محنتی، زیادہ مرتب، انسانی دماغ کا مقابلہ مصنوعی ذہانت سے ہے۔ دیکھیں مقابلہ کس راونڈ تک جاتا ہے؟ یہ بھی کہ فاتح کون ہوگا؟

