پنجاب میں اسموگ گزشتہ کئی برسوں سے سردیوں کا سب سے بڑا ماحولیاتی اور صحت عامہ کا بحران رہا ہے۔ لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، ملتان اور دیگر شہروں میں اکتوبر سے فروری تک ایسی دھند چھائی رہتی تھی جس کے پیچھے نمی سے زیادہ آلودگی کا کردار ہوتا تھا۔ فصلوں کو جلانے کا دیہی طریقہ، فیکٹریوں کا بے قابو دھواں، پرانی گاڑیوں کے دھویں کا اخراج، کوڑا جلائے جانے کی روایت، تعمیراتی کاموں سے اٹھنے والی دھول اور موسمی سنگینی، یہ سب عوامل مل کر فضا کو زہریلا بنا دیتے تھے۔ اس آلودگی نے لاکھوں شہریوں کی صحت متاثر کی، سانس اور دل کی بیماریوں میں اضافہ ہوا، بچے اور بزرگ خصوصی طور پر نشانہ بنتے رہے، اسکولوں کی بندش اور کاروباری سرگرمیوں میں کمی نے معاشی نقصان بھی بڑھایا۔ ہر سال اسپتالوں میں آنے والے مریضوں کی تعداد میں اضافہ اور اموات کے خدشات نے اس مسئلے کو مزید سنگین بنا دیا۔ اس صورتحال نے نہ صرف شہری زندگی کا توازن بگاڑا بلکہ صوبے کی مجموعی پیداوار اور محنت کش طبقات پر بھی منفی اثرات مرتب کیے، کیونکہ آلودگی کے باعث مزدوروں کی حاضری میں کمی اور بیماری کی وجہ سے علاج کے اخراجات میں اضافہ ہوتا رہا۔
رواں برس 2025ء میں پنجاب حکومت نے اس بحران کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے نسبتاً زیادہ مربوط، جدید اور ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔ سب سے اہم تبدیلی یہ سامنے آئی کہ حکومت نے ہوا کی نگرانی کے لیے جدید مانیٹرنگ اسٹیشنز، سینسرز اور موبائل یونٹس کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔ اس سے روزانہ نہیں بلکہ گھنٹہ وار بنیادوں پر آلودگی کی سطح اور اس کے ذرائع کی نشاندہی ممکن ہوئی اور انتظامیہ نے فوری کارروائیاں کیں۔ یہ قدم اس لیے بھی اہم ہے کہ پہلے آلودگی کے درست اعداد و شمار نہ ہونے کے باعث پالیسی سازی میں مشکلات پیش آتی تھیں۔ اب ڈیٹا پر مبنی فیصلے ہورہے ہیں جن کے نتائج زیادہ مؤثر ثابت ہو رہے ہیں۔ زرعی شعبے میں پہلی بار بڑے پیمانے پر مشینری پر سبسڈی دی گئی تاکہ کسانوں کو فصلوں کی باقیات کو جلانے کی بجائے انہیں مٹی میں ملانے یا بروقت تلف کرنے کے جدید طریقے اپنانے کی سہولت ملے۔ اس کے ساتھ ساتھ آگ لگانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی بھی سخت کی گئی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کئی اضلاع میں فصلوں کی باقیات جلانے کے واقعات میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔
شہری علاقوں میں اینٹی اسموگ کینن اور پانی کے چھڑکاؤ جیسے عارضی مگر مؤثر اقدامات کیے گئے جن سے دھول اور آلودہ ذرات کم کرنے میں مدد ملی۔ اس کے ساتھ بڑے شہروں میں مخصوص ہاٹ اسپاٹس کی نشاندہی کی گئی جہاں آلودگی کی سطح مسلسل زیادہ رہتی تھی۔ انہی مقامات پر مسلسل چھڑکاؤ، صفائی اور موقع پر کارروائی سے ہوا کا معیار نسبتاً بہتر دکھائی دیا۔ فیکٹریوں کی چیکنگ، اخراج کے معائنے اور ماحول دشمن سرگرمیوں پر جرمانے پہلے کے مقابلے میں زیادہ سخت کیے گئے۔ حکومت نے کئی صنعتوں کو جدید فلٹر نصب کرنے کی مہلت دی اور واضح کیا کہ مقررہ مدت کے اندر اصلاحات نہ لانے پر سیلنگ سمیت سخت سزائیں دی جائیں گی۔ گاڑیوں کے اخراج پر کنٹرول کے لیے اسموگ فٹنس سرٹیفکیٹ پر سختی کی گئی اور ٹریفک پولیس کو خصوصی ٹاسک سونپے گئے۔ اس کے علاوہ پرانی اور دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف خصوصی مہم چلائی گئی جس کے نتیجے میں ہزاروں گاڑیوں کو جرمانے اور متعدد کو بند کیا گیا۔ گرین پنجاب ایپ کے ذریعے شہریوں کو شکایات درج کرنے اور ان پر کارروائی کی رپورٹ دیکھنے کی سہولت بھی دی گئی، جس سے نظام میں شفافیت اور عوام کا اعتماد بڑھے گا۔
پنجاب حکومت کے لیے ایک بڑی کامیابی عالمی بینک کی جانب سے ملنے والی معاونت ہے، جس کے تحت پنجاب کلین ایئر پروگرام کے لیے خطیر رقم مختص کی گئی۔ یہ فنڈ نہ صرف جدید ٹیکنالوجی اور آلودگی پر قابو پانے والے آلات کی تنصیب میں مدد دے گا بلکہ طویل مدتی اصلاحات، شفافیت اور مانیٹرنگ کے سسٹمز کو بھی مضبوط کرے گا۔ اس معاونت کے تحت تعلیمی اداروں، اسپتالوں اور مصروف سڑکوں پر خصوصی ائیر کوالٹی یونٹس لگانے کی منصوبہ بندی بھی شامل ہے تاکہ زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں فوری اقدامات کیے جا سکیں۔ یوں مجموعی طور پر دیکھا جائے تو 2025میں کیے جانے والے اقدامات نہ صرف پہلے کے مقابلے میں زیادہ عملی اور مربوط ہیں بلکہ ان کا اثر بھی نمایاں نظر آ رہا ہے، تاہم مسئلہ ابھی مکمل طور پر حل نہیں ہوا۔ مستقل بنیادوں پر زرعی اصلاحات، صنعتی شعبے میں جدید فلٹریشن سسٹم کی تنصیب، عوامی آگاہی اور بین الصوبائی ہم آہنگی اس جدوجہد کا اگلا مرحلہ ہے۔ اگر موجودہ رفتار برقرار رہی تو امید کی جا سکتی ہے کہ آنے والے برسوں میں پنجاب اسموگ کے مستقل خطرے سے کافی حد تک نجات حاصل کر لے گا۔

