اسلام کا افتخار: بلا امتیاز احتساب

آج کل ہمارے ہاں ریاست اور مقتدرہ کے سربراہ کے استثناء (Immunity)یعنی فوجداری معاملات میں اُنھیں کسی عدالت میں تاحیات طلب نہ کیے جانے پر شدّومد کے ساتھ بحث ہو رہی ہے۔ استثناء سے مراد صاحبِ اقتدار کا ماورائے احتساب ہونا ہے۔ پہلے صدر اپنے عہدۂ صدارت کے دورانیے تک مسئولیت سے مستثنیٰ تھے، اب اس مدتِ استثناء کو تاحیات کر دیا گیا ہے اور یہی استثناء چیف آف ڈیفنس فورس کو بھی عطا کر دیا گیا ہے۔ کئی لوگوں نے رابطہ کیا کہ اس بارے میں اسلام کی تعلیمات کیا ہیں، اس کے بارے میں گزارش ہے۔

ذاتِ پاکِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ”اُسوہ اور قُدوہ” یعنی ایک رول ماڈل اور مثالیہ قرار دیا ہے کہ اُن کی تقلید کی جائے اور اُن کے شعار پر عمل کیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبی اور رسول تھے۔ حاکمِ اعلیٰ بھی تھے، قاضی القضاة بھی تھے، سپہ سالار بھی تھے اور مؤمنوں کی جانوں پر آپ کو اختیار بھی تھا۔ اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کوقصاص اور احتساب کے لیے پیش کیا جبکہ فاروقِ اعظم وحیدرِ کرّار رضی اللہ عنہما نبوت ورسالت اور مومنوں کی جانوں پر اختیار کے علاوہ باقی تمام مناصب کے حامل تھے، انھوں نے بھی احتساب کے لیے اپنے آپ کو پیش کیا۔ جدید دنیا کے جمہوری اور متمدن ممالک میں حالتِ جنگ میں بنیادی حقوق کو معطل کر دیا جاتا ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عینِ جنگ میں بھی بنیادی حقوق کو معطل نہیں فرمایا۔

حدیث پاک میں ہے: ”غزوۂ بدر کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں نیزہ تھا، آپ مجاہدین کی صفیں درست فرما رہے تھے، سواد بن غَزِیَّہ صف سے آگے نکلے ہوئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں متوجہ کرنے کے لیے نیزے سے ٹہوکا دیا اور فرمایا: ”سواد! سیدھے ہو جائو”۔ انہوں نے عرض کی: یارسول اللہ! مجھے تکلیف پہنچی ہے اور اللہ نے آپ کو عدل پر مامور کرکے بھیجا ہے، مجھے قصاص چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میں حاضر ہوں) قصاص لے لو۔ سواد نے عرض کی: جب آپ نے مجھے ٹہوکا دیا تھا تو میرے بدن پر قمیص نہیں تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا کپڑا اٹھایا اور فرمایا: قصاص لو۔ اس پر سواد نے آگے بڑھ کر آپ کے جسم مبارک کو بوسا دیا اور آپ کوگلے لگاکر عرض کی: یارسول اللہ! میرا مقصد تو فقط یہی تھا (کہ آپ کے بدنِ مبارک سے میرا بدن مَس ہو جائے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سواد! تمہیں اس پر کس چیز نے برانگیختہ کیا۔ انہوں نے عرض کی: یارسول اللہ! آپ کو تو معلوم ہے کہ ہم میدانِ جہاد میں کھڑے ہیں اور موت بھی نگاہوں کے سامنے ہے تو میں نے چاہا کہ زندگی کے آخری لمحات میں میرا بدن آپ کے بدن سے مَس ہو جائے (اس کی برکت سے مجھے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی)۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے لیے خیر کی دعا فرمائی۔ (الجامع الصحیح للسنن والمسانید، ج: 14، ص: 421)”

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں فتحِ مکہ کے موقع پر قریش کی ایک عورت نے چوری کی۔ قریش کو (اپنی رسوائی کی) فکر لاحق ہوئی تو انہوں نے کہا: کوئی ہے جو اس معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کرے۔ سب نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب اسامہ بن زید کے سوا یہ کام کوئی نہیں کر سکتا۔ اس عورت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا۔ اُسامہ بن زید نے اس کی سفارش کی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا اور فرمایا: کیا تم اللہ کی حدود میں سفارش کرتے ہو۔ اُسامہ نے عرض کی: یارسول اللہ! مجھے معاف فرما دیجیے۔ پس جب شام کا وقت آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا: تم سے پہلی قومیں اس لیے ہلاک ہوئیں کہ جب اُن میں سے کوئی معزز شخص چوری کرتا تو اُسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی نچلے طبقے کا آدمی چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے، اگر (بفرضِ مُحال) فاطمہ بنتِ محمد بھی چوری کرتیں تو میں ضرور اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔ پھر آپ نے حکم فرمایا اور اس عورت کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ (مسلم: 1688)”۔

امام بیہقی نے لکھا: ”حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی عدالت میں (خلیفۂ وقت) حضرت عمر اور حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہما اپنا مقدمہ لے کر پیش ہوئے، جب امیرالمؤمنین عدالت میں داخل ہوئے تو (قاضی) حضرت زید بن ثابت اپنی نشست سے احتراماً اٹھ گئے اور عرض کی: امیر المؤمنین! یہاں تشریف رکھیے، حضرت فاروق اعظم نے فرمایا: یہ تم نے پہلی ناانصافی کی، میں اپنے فریقِ مقدمہ کے ساتھ بیٹھوں گا، پھر فریقین ایک دوسرے کے برابر بیٹھ گئے۔ حضرت اُبی بن کعب نے دعویٰ پیش کیا اور حضرت عمر فاروق نے اس دعوے کو قبول کرنے سے انکار کیا (شریعت کا اصول ہے کہ مدّعی اپنے دعوے کے ثبوت کے لیے گواہ پیش کرے، اگراس کے پاس گواہ نہ ہوں اور گواہوں کی عدم دستیابی کی صورت میں مُدّعیٰ علیہ قبولِ دعویٰ سے انکاری ہے، تو اُسے قسم دی جائے گی)، پس (قاضی) حضرت زید بن ثابت نے فریقِ مقدمہ اُبی بن کعب سے کہا: امیر المؤمنین کو حلف دینے سے معاف رکھو، حضرت عمر نے شریعت کے تقاضے کے مطابق قسم کھائی اور کہا: جب تک (قاضی) زید بن ثابت کے نزدیک عمر اور دوسرا فریق برابر نہ ہوں، انھیں کوئی مقدمہ سپرد نہ کیا جائے، (السنن الکبریٰ للبیہقی: 20463)”۔ امیر المؤمنین حضرت عمر نے اصولِ قضا کے تحت (قاضی) حضرت زید بن ثابت کی غلطی کی نشاندہی کی، تو انھوں نے اسے تسلیم کیا اور اسے توہینِ عدالت پر محمول نہیں کیا۔

امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک نصرانی کے مقابل اپنی زِرہ کے مقدمے میں قاضی شریح کی عدالت میں پیش ہوئے۔ قاضی شُریح کو آفتاب نصف النہار کی طرح یقین تھا کہ زِرہ حضرت علی کی ہے اور وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں، لیکن اسلامی قانونِ عدل کے مطابق ان کے پاس گواہ نہیں تھے، کیونکہ آپ نے اپنے بیٹے حسن اور غلام قنبر کو بطور گواہ پیش کیا۔ قاضی نے کہا: بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں اور غلام کی گواہی آقا کے حق میں معتبر نہیںہے، اس لیے اُن کے خلاف فیصلہ دیا۔ یہ منظر دیکھ کر نصرانی حیران ہوگیا کہ مسلمانوں کا خلیفہ ایک غیرمسلم کے مقابل مساوی حیثیت میں عدالت میں پیش ہو رہا ہے۔ قاضی نے اُس کے خلاف فیصلہ صادر کیا اور انہوں نے اس فیصلے کو خوشدلی سے تسلیم کرلیا۔ اس پر نصرانی نے اعترافِ جرم کیا کہ آپ نے یہ زِرہ لشکر کے کسی آدمی سے خریدی تھی اور پھر آپ کے خاکستری اونٹ سے یہ گر گئی اور میں نے اِسے اٹھا لیا۔ مثالی عدل کا یہ منظر دیکھ کر نصرانی ایمان لے آیا، کلمۂ شہادت پڑھا۔ حضرت علی نے وہ زِرہ اُسے ہبہ کردی اور اس کا دو ہزار درہم وظیفہ مقرر کیا۔ پھر وہ حضرت علی کے ساتھ رہا یہاں تک کہ جنگِ صفین میں جامِ شہادت نوش کیا، (السنن الکبریٰ للبیہقی، ج: 10، ص: 136، ملخّصاً)”۔

نوٹ: یہاں مشابہت صرف خلیفہ کے عدالت میں پیش ہونے کے اعتبار سے ہے، ورنہ آج کے حکمرانوں کوحضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما سے وہ نسبت بھی نہیں جو ذرّے کو آفتاب اور قطرے کو سمندر سے ہے۔ یہ خلفائے کرام خود عدالت میں پیش ہوئے تاکہ ہر ایک کو معلوم ہو جائے کہ قانون کی نظر میں حاکم اور رعایا برابر ہیں۔

حضرت عبید بن عمیر بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ حضرت عمر کہیں جارہے تھے کہ اُن کی نظر ایک شخص پر پڑی جو ایک عورت سے باتیں کر رہا تھا۔ حضرت عمر نے اُسے دُرّہ لگایا۔ اُس نے کہا: امیر المومنین! یہ عورت میری بیوی ہے۔ آپ نے فرمایا: پھر راستے میں کھڑے ہوکر کیوں اپنی بیوی کے ساتھ گفتگو کر رہے ہو، اس سے لوگ بدگمانی میں مبتلا ہوں گے۔ اُس نے کہا: ہم مسافر ہیں، مدینۂ طیبہ میں ابھی داخل ہوئے ہیںاور اپنے لیے ٹھکانا تلاش کر رہے ہیں۔ حضرت عمر نے اپنا دُرّہ اُس کے حوالے کیا اور فرمایا: مجھ سے قصاص لو۔ اُس نے کہا: امیر المومنین! یہ آ پ کا حق ہے، آپ نے پھر اُس سے کہا: مجھ سے قصاص لے، اُس نے کہا: یہ آپ کاحق ہے، آپ نے سہ بارہ فرمایا: اُس نے کہا: امیر المومنین! میں نے آپ کو معاف کیا۔ (اِزَالَةُ الْخِفَائ، ج: 4، ص: 52)”۔ (جاری ہے)