غزہ میں حماس مخالف گروپوں کا ابھرنا کیا ظاہر کررہا؟

دنیا کی چند سب سے مظلوم اور ستم رسیدہ قوموں کی فہرست بنائی جائے تو تباہ حال فلسطینی سرفہرست آئیں گے۔ ان پر مظالم تو پون صدی سے ہو رہے ہیں، ہر قسم کی زیادتیاں، جبر، گھر بار چھن جانے، شناخت ختم کرنے کی کوششیں وغیرہ۔ اس کے ساتھ ایک اور المیہ آپس کی تقسیم اور اختلافات بھی ہیں۔ حماس کو پچھلے متعدد برسوں سے ویسٹ بینک کی فلسطین اتھارٹی کی جانب سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ محمود عباس جیسے فلسطینی لیڈر عملی طور پر قابض اور غاصب قوت اسرائیل کے آلہ کار ثابت ہوئے ہیں۔ اب پچھلے دو برسوں میں غزہ میں جو لہو کی ہولی کھیلی گئی، ساٹھ ستر ہزار جانیں گئیں، پورا انفراسٹرکچر تباہ وبرباد ہوگیا۔ جو خوش نصیب قیامت کے ان روزوشب میں سروائیو کر گئے، ان کے اندر بھی بمباری، گولیوں، بھوک اور تباہی کا ایسا ٹراما سرایت کر گیا ہے کہ شاید وہ زندگی بھر اس کے منفی نفسیاتی اثرات سے باہر نہ آ سکیں۔ جن معصوم بچوں نے یہ سب کچھ سہا ہے، کیا وہ نارمل زندگی گزار پائیں گے؟ ماہرین نفسیات اس حوالے سے شدید تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔

غزہ میں اب چند ہفتوں سے لولی لنگڑی سہی مگر بہرحال جنگ بندی ہو چکی ہے، امن معاہدے کی جانب پیش رفت جاری ہے، گو بہت سے مسائل اور چیلنجز ابھی موجود ہیں، مگر بہرحال امید کی ایک کرن تو نمودار ہوئی کہ شاید غزہ میں امن قائم ہوجائے اور آخرکار مقامی فلسطینی آبادی کے لئے زندگی آسان ہوجائے، تاہم اب ایک اور بڑا خطرہ نمودار ہو چکا ہے۔ ماہرین یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اسرائیل کی سرپرستی اور سپورٹ سے منظم انداز میں غزہ میں وارلارڈائزیشن (Warlordization of Gaza ) کی جا رہی ہے۔ پچھلے چند ماہ میں غزہ کے اندر کئی حماس مخالف گروہ ابھر کر سامنے آئے ہیں، جن کے پاس اسلحہ ہے، کچھ جنگجو بھی، وہ مختلف پاکٹس پر کنٹرول کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کا رویہ قبائلی وارلارڈز کا سا ہے یا کسی مافیا یا گینگسٹرز گروپوں جیسا۔ یہ گروہ نہ کوئی سیاسی تحریک ہیں، نہ کوئی منظم متبادل قوت۔ ان کی تشکیل زیادہ تر جنگ کے بعد پیدا ہونے والے سیکیورٹی خلا اور مقامی قبائلی ڈھانچوں کے نتیجے میں ہوئی ہے۔ بیرونی قوتوں، خاص طور پر اسرائیل نے اس خلا کو اپنے مفاد کے مطابق استعمال کیا، اور یوں غزہ کی اندرونی سیاست میں ایک نیا اور پیچیدہ فیکٹر داخل ہو گیا۔ یہ گروہ عمومی طور پر تین قسموں میں تقسیم ہوتے ہیں: (1)مقامی قبائل (Clan)اور مقامی ملیشیا، (2) سابق سیکیورٹی یا پولیس اہلکاروں کے دھڑے3) وہ عناصر جن کی حماس سے پرانی دشمنی یا ذاتی جھگڑے تھے۔

ان دھڑوں کے بارے میں عالمی میڈیا، مڈل ایسٹ کے ماہرین چار پانچ نکات پر متفق ہیں۔ پہلا یہ کہ ان گروپوں کو اسرائیلی انٹیلی جنس اور اسرائیلی فوج کی کھلی سپورٹ حاصل ہے، ان میں سے بعض کو ویسٹ بنک کی فلسطین اتھارٹی کی مبینہ سپورٹ بھی ہے۔ دوسرا ان گروپوں کو بنانے اور سپورٹ دینے کا واحد مقصد حماس کی گرفت کمزور کرنا ہے۔ تیسرا یہ کہ ان گروپوں پر لوٹ مار، داعش سے روابط، اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے ٹھوس الزامات ہیں۔ چوتھا یہ کہ یہ گروپ غزہ کے 53فیصد علاقے (جو اسرائیلی کنٹرول میں ہے) میں ہی فعال ہیں، خاص طور پر جنوبی غزہ (رفح، خان یونس) میں۔ پانچواں یہ کہ عالمی اداروں کے مطابق خطرہ ہے کہ غزہ میں بھی صومالیہ کی طرز پر صومالیائزیشن کی جائے، یعنی کئی طاقتور گروپ اور مرکزی اتھارٹی کی غیر موجودگی تاکہ علاقے میں خانہ جنگی اور لوٹ مار چلتی رہے۔

ان حماس مخالف دھڑوں میں سے چند ایک کا مختصر تذکرہ ضروری ہے۔ پاپولر فورسز: رفاح کے رہائشی یاسر ابوشباب کی قیادت میں کام کرنے والی پاپولر فورسز ایک حماس مخالف ملیشیا ہے، جسے اسرائیلی فوج اور امریکا کے قائم کردہ ”غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن” کی حمایت حاصل ہے۔ اس تنظیم کی قیادت میں موجود بعض افراد کے بارے میں رپورٹ ہے کہ ان کے داعش سے روابط رہے ہیں۔ یہ گروہ 2025کے اوائل میں سامنے آیا اور حالیہ اسرائیلی فضائی حملوں کے دوران حماس کے ٹھکانوں کی نشاندہی اور کارروائیوں میں اسرائیل سے تعاون کرتا رہا۔ اس کے جنگجوؤں کی تعداد 500سے 700کے درمیان بتائی جاتی ہے، جبکہ اس کے جنوبی غزہ میں موجود مرکزی اڈے کے اندر 800سے 1000کے قریب عام شہری بھی رہتے ہیں۔ برطانوی چینل سکائی نیوز کی ڈیٹا اینڈ فارنزک یونٹ کے مطابق پاپولر فورسز اور اس سے منسلک گروہ مجموعی طور پر تقریباً 3000جنگجوں پر مشتمل ہیں۔ یہ گروہ کرم ابو سالم کراسنگ کے قریب اس امدادی راہداری پر تعینات ہے جہاں اسرائیل، غزہ اور مصر کی سرحدیں ملتی ہیں۔ اپنے اس اسٹریٹجک مقام کے ذریعے یہ گروہ امداد روکنے اور لوٹنے کی وارداتوں میں شامل رہا۔ یاسر ابوشباب کا مجرمانہ ماضی اس وقت سے بہت پہلے کا ہے جب وہ ملیشیا لیڈر بنے۔ وہ پہلے لوٹ مار کے ایک نیٹ ورک کے سربراہ تھے اور 2015میں حماس نے انہیں چوری اور منشیات کے مقدمات میں گرفتار کیا تھا، مگر وہ اکتوبر 2023کی جنگ کے دوران جیل توڑ کر فرار ہو گئے۔ اب ابوشباب کی قیادت میں پاپولر فورسز امدادی قافلوں اور اسرائیلی کنٹرول کے قریب کام کرنے والے امدادی ٹرکوں کو روکنے کے باعث بدنام ہو چکی ہے۔ اگرچہ یہ گروہ محدود ہے اور حماس کے لیے براہِ راست بڑا چیلنج نہیں بنتا، لیکن مسلسل اشتعال کا باعث ضرور بن رہا ہے۔

پاپولر آرمی، نادرن فورسز: یہ گروہ پاپولر فورسز کی ہی چھتری تلے کام کرتا ہے۔ اس کے رہنما اشرف المنسی ہیں اور اس گروہ کے زیادہ تر ارکان سابق منشیات فروش ہیں، اور اس کے اسرائیلی فوج سے براہِ راست روابط موجود ہیں۔ یہ دھڑا حماس کے یونٹس سے وقفے وقفے سے جھڑپوں میں شامل رہا ہے۔

کاؤنٹر ٹیررازم اسٹرائیک فورس: یہ گروہ اگست 2025میں قائم ہوا اور اس کے سربراہ حسام (ہسام) الاستل ہیں۔ یہ گروہ بنیادی طور پر جنوب مشرقی خان یونس میں سرگرم ہے۔ حسام الاستل نے ماضی میں اسرائیل میں کام کیا۔ بعد میں وہ فلسطینی اتھارٹی کی سیکیورٹی سروس سے وابستہ رہے۔ پھر وہ پاپولر فورسز میں شامل ہوئے، اور آخرکار اپنی تنظیم بنا لی۔ ان پر الزام ہے کہ وہ 2018میں کوالالمپور میں حماس کے انجینئر فادی البطش کے قتل میں موساد کے شریکِ کار تھے۔ گروہ عملی طور پر بہت چھوٹا ہے، صرف 40جنگجو۔ یہ گروہ اسرائیلی کنٹرول کے علاقوں سے چند میٹر کے فاصلے پر موجود ہے اور اسے شِن بیت (Shin Bet) یعنی اسرائیل کی داخلی انٹیلی جنس کا براہِ راست تعاون حاصل ہے۔ الاستل باقاعدہ اسرائیلی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ”اسرائیل سے مکمل تعاون ہی بقا کا واحد راستہ ہے۔”

شجاعیہ پاپولر ڈیفنس فورسز: اس گروہ کے رہنما رامی ہلس ہیں، جو غزہ کے تیسرے بڑے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ گروہ مشرقی غزہ سٹی میں قائم ہے اور اسرائیل کی مدد سے کام کرتا ہے۔ ہلس خاندان اور حماس کے درمیان تناؤ 2007کی غزہ جنگ سے ہے، جب حماس نے امریکا کی حمایت یافتہ فتح کے اس اقدام کو ناکام بنایا تھا جس کا مقصد انتخابات میں حماس کی جیت کو طاقت کے ذریعے ختم کرنا تھا۔ یہ ملیشیا دراصل درجنوں جنگجوؤں پر مشتمل ہے، جن کا انحصار ہلس قبیلے کے افراد پر ہیتاہم ہلس خاندان نے آفیشلی اس گروہ سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ قابض قوت کے خلاف فلسطینی مزاحمت کے ساتھ ہیں۔

المجایدہ اور دغمش قبائل: المجایدہ قبیلہ بنیادی طور پر خان یونس میں آباد ہے۔ حالیہ مہینوں میں حماس کے ساتھ متعدد مسلح جھڑپیں ہوئیں اکتوبر میں حماس نے ان کے مضبوط مرکز پر چھاپہ مارا تاکہ وہ افراد گرفتار کیے جائیں جو حماس کے اہلکاروں کے قتل میں ملوث بتائے گئے تھے۔ مقابلے میں دونوں طرف جانی نقصان ہوا۔ دغمش قبیلہ غزہ کے سب سے بڑے اور طاقتور قبائل میں سے ایک، تاریخی طور پر بھاری اسلحہ بردار۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلحہ رکھنا سرزمین کے دفاع کی ثقافتی روایت ہے۔ ان کے افراد کا تعلق فتح اور حماس دونوں سے ملتا ہے۔ اکتوبر کی جنگ بندی کے فوراً بعد دغمش قبیلے اور حماس میں جھڑپیں ہوئیں۔

تجزیہ کار اس پر متفق ہیں کہ ان حماس مخالف گروہوں، قبائل اور جرائم پیشہ نیٹ ورکس کی سرگرمیاں ٹرمپ انتظامیہ کے 20نکاتی امن پلان کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔ اس کے قوی امکانات ہیں کہ حماس مزید سخت موقف اختیار کرے گی اور غیر مسلح ہونے سے انکار کرے گی۔ داخلی خانہ جنگی سے مستحکم علاقائی سیکیورٹی فورس کا قیام مشکل ہو جائے گا۔ تباہ شدہ غزہ کی ازسرنو تعمیر بھی غیر یقینی ہو جاتی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے ان گروہوں کی حمایت دراصل وہی پرانی پالیسی ہے جسے ماہرین تقسیم کرو اور حکومت کرو کہتے ہیں۔ اسرائیل نے ایک زمانے میں لبنان میں بھی یہی خونی کھیل کھیلا تھا۔ اب اسرائیل مختلف دھڑوں کی باہمی دشمنیوں کو فلسطینی اتحاد کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے، تاکہ فلسطینی مزاحمت کو متحد ہونے سے روکا جا سکے۔ نتیجہ یہ کہ غزہ ایک ایسی سرزمین بنتی جا رہی ہے جسے ٹکڑوں میں بٹا ہوا، ایک دوسرے سے نبردآزما وارلارڈز کا علاقہ قرار دیا جائے، نہ کہ ایک متحد فلسطینی قوت۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم ممالک خاص کر وہ آٹھ ممالک جنہیں امریکی صدر ٹرمپ نے خصوصی طور پر اپنے امن فارمولے کی بریفنگ دی تھی، وہ سب ایک نکتہ پر متفق ہو کر امریکیوں اور مغرب سے یہ بات منوائیں کہ حماس کو کمزور کرنے کے لئے ان جرائم پیشہ وارلارڈز کو سپورٹ اور پروموٹ نہ کیا جائے۔ فلسطینی نظم ونسق چلانے کے لئے جو پولیس بنائی جائے اس میں بھی یہ متنازع لوگ شامل نہ ہوں۔ کوشش کرنی چاہیے کہ امن معاہدے میں پیش رفت ہو اور بات کسی نہ کسی طرح آزاد فلسطینی ریاست کی طرف جائے۔ اس کے بغیر مڈل ایسٹ میں امن قائم ہونا اور سکون لانا ممکن نہیں۔ یہ بات ہر ایک کو سمجھ لینی چاہیے۔