گردشی قرضے۔ اضافے کا خدشہ

پاکستان کی بجلی کی کہانی صرف لوڈ شیڈنگ کی نہیں، ہولناک گردشی قرضے کی بھی ہے جو دن بہ دن بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔آج سے 17سال قبل 2008ء میں جب گردشی قرضہ 105ارب روپے تھا، ہم اس سے چھٹکارا حاصل کرسکتے تھے، لیکن نئی حکومت نے اپنے قیام کے آغاز کے ساتھ ہی دنیا سے مالی امداد طلب کی تھی جو نہ مل سکی، بالآخر آئی ایم ایف سے تھوڑی اُمید پوری ہوئی اور یہ معمولی رقم بڑھتی چلی گئی۔ 2013ء میں جب میاں نواز شریف کی قیادت میں نئی حکومت آئی تو اس نے ہمت کی۔ 480ارب روپے ادا کیے۔ مگر چند سال بعد قرض پھر سانس لینے لگا۔ بڑھنے لگا اور پھیلتے ہوئے 2017ء تک 922ارب روپے کا گردشی قرضہ ہوچکا تھا۔ اس کے بعد ملک آگے بڑھنے کی کوشش میں لگا رہا۔ کارخانے دھیرے دھیرے چلتے رہے لیکن قرض دوڑتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ 2024ء تک 2400ارب روپے تک جا پہنچا۔

پاکستان کی معیشت کو اس وقت جن خطرناک مسائل کا سامنا ہے،ان میں گردشی قرضہ بھی شامل ہے۔یہ قرضہ محض اعداد نہیں، مزدور کی شام کا اندھیرا بن کر رہ گیا۔ آج روشنیوں کا شہر کہلانے والے کراچی میں چند پوش علاقوں کو چھوڑ کر ہرطرف لوڈ شیڈنگ کا راج ہے اور لوگوں کو سردیوں میں بھی ضرورت کے مطابق بجلی نہیں مل رہی تو اس کی ایک بڑی وجہ بھی گردشی قرضہ ہے۔ گاوں دیہات میں گھروں کے اندھیرے کے علاوہ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے ٹیوب ویل بند ہوئے تو پاس کھیت میں کھڑی گندم کی فصل پیاسی رہ گئی۔ ملک میں گندم کی پیداوار میں کمی ہوگئی۔ دیگر فصلوں کا حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ۔

موجودہ حکومت نے 2025ء میں ری اسٹرکچرنگ کی۔ کچھ ادائیگیاں ہوئیں اور قرض 2.3ٹریلین کے پہاڑ سے گھٹ کر 1.674ٹریلین روپے تک آگیا مگر یہ بھی کچھ کم رقم نہیں ہے۔گردشی قرضے کیوں بڑھتے چلے گئے؟ کیونکہ ریکوری کم ہوتی رہی۔ بل جمع نہ ہوئے۔ لائن لاسز کو کنٹرول کرنے کی اہمیت اور اسے اولین ترجیح دینے کی بات مختلف حکومتوں کی ترجیحات میں شامل نہ تھیں۔ حکومت کے وعدے برائے نام ہوتے رہے۔ ایندھن مہنگا ہوتا چلا گیا۔ بجلی مہنگی سے مہنگی ہونے کے باوجود وصولیاں کم ہوتی رہیں اور دیگر باتوں نے مل کر قرض کو ایسا تگڑا اور جاندار بنا دیا کہ بالآخر وہ گلے کا پھندا بن کر رہ گیا۔ یہ قرضے اسی طرح بڑھتے رہے تو ایک دن قوم اندھیرے میں رہ جائے گی۔

میرا یہ کالم ایک چیخ ہے، سوال ہے آخر ایسا کب تک چلتا رہے گا۔ قوم کو بجلی کے ساتھ وہ نظام بھی چاہیے جس میں عوام کے لیے بجلی کے بل ادا کرنے کی سکت ہو۔ بل جمع کرتے چلے جائیں، بجلی چوری کا سلسلہ بالکل ختم ہو جائے اور صارف، انڈسٹری اور حکومت سب مل کر روشنی کے چراغ جلائیں۔

روزنامہ اسلام میں بروز جمعہ مورخہ 28نومبر کو جو سب سے خطرناک، معیشت کو لرزا دینے والی خبر چھپ کر خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے، وہ یہ ہے کہ گردشی قرضہ 735ارب اضافے کے ساتھ 23سو ارب ہونے کا خدشہ۔ بتایا گیا کہ قرضے تھوڑا کم کرنے کے لیے 120ارب روپے کی پرنسپل ریسپنٹس اور 400ارب حکومت کی جانب سے پاور پلانٹس اور آئی پی پیز کو ادا کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ ڈی سی کمپنیوں کے نقصانات کم کرنے اور ریکوری بہتر کرنے کے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں تاکہ قرضے کے نئے اضافے کو کم سے کم کیا جاسکے۔ اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگر یہ اقدامات کامیاب نہ ہوئے تو قرضہ 23سو ارب روپے تک پہنچنے کا امکان باقی رہے گا۔ گردشی قرضوں کا اتنا بڑا بوجھ صارفین کے لیے بوجھ، عذاب اور مشکلات کا پہاڑ ہے ہی، اس کے ساتھ حکومت کے لیے بھی بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ پاور سیکٹری کی مالی بے ترتیبی سے توانائی کے عدم استحکام، لوڈشیڈنگ اور سرمایہ کاری کی کمی کا خدشہ بڑھ جاتا ہے جس سے معیشت اور عام عوام کو نقصان پہنچتا ہے۔

باربار قرضہ صاف کرنے کی حکومت کوشش کرتی ہے مگر اُصولی مسائل کے حل نہ ہونے کے باعث قرضوں میں مسلسل اتارچڑھاؤ آ رہا ہے اور سارا بوجھ صارفین پر سب سے زیادہ پڑ رہا ہے۔ صارفین کے لیے بجلی کے بل ہزاروں سے بڑھ کر بہت سے لوگوں کو لاکھوں میں ادائی کرنا پڑ رہی ہے۔ صنعتی شعبہ بجلی لاگت میں اضافے سے نالاں ہے۔ بہرحال حکومت کا فرض بنتا ہے اور اسے اولین ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ سب سے زیادہ متاثر ملک کی غریب عوام ہو رہی ہے۔

پاکستان میں گردشی قرضے بڑھانے کا ایک سبب ‘سود’ بھی ہے اور اس سود نے قوم کو ایسے کنویں میں دھکیل دیا ہے جہاں سے نکلنے کی رسی کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔ اگر سود سے نجات مل جائے تو بوجھ آدھے سے کم رہ جائے۔ پاکستان پر معاشی بحران لانے کا اصل مجرم سود ہے اور اس کا حل سود سے نجات ہے۔ حکمران ملکی معیشت کے بارے میں فیصلہ کرلیں کہ اسے سود سے پاک کرنا ہے۔ بینکوں نے حکومت سے جو قرض لیا ہے اس پر کئی ہزار ارب روپے سود کے ادا کرنے ہیں۔ اس راستے سے کوئی حل نکال لیں تو یہ گردشی قرضوں کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔