استثنائی قوانین اور تاریخِ اسلام!

یہ چھٹی صدی ہجری کی بات ہے۔ مصرو شام میں ایوبی سلطنت کمزور ہوچکی تھی اور جگہ جگہ ”ممالیک” امرائے سلطنت خود مختار ی کا اعلان کرکے حکمرانی کرنے لگے تھے۔ یاد رہے کہ ممالیک مملوک (غلام) کی جمع ہے اور ممالیک وہ ترک سردار تھے جو پہلے ایوبی حکمرانوں کے غلام اور نوکر تھے اور فوجی خدمات سرانجام دیتے دیتے ایوبی سلطنت کے زوال سے فائدہ اٹھاکر حاکم بن گئے تھے۔ اس زمانے میں شام کی ایوبی سلطنت کے قاضی القضاة (چیف جسٹس) شیخ عزالدین بن عبدالسلام تھے۔

قاضی عزالدین نے ممالیک کے اقتدار کے عروج میں ان کے حق حکمرانی کو چیلنج کیا اور سر منبر یہ فیصلہ دیا کہ چونکہ ممالیک امرائے سلطنت” کو شرعی اور رائج الوقت طریقے سے آزاد نہیں کیا گیا، لہٰذا یہ حکمران بننے کی اہلیت نہیں رکھتے، یہ دراصل شام کے بیت المال کی ملکیت ہیں، ان کو سرِعام بازار میں نیلام کیا جائے، کوئی ان کو خریدے اور پھر آزاد کردے اور لوگ انہیں اپنے حاکم تسلیم کرلیں تو پھر یہ قانون کے مطابق بادشاہ کہلانے کے مستحق ہوں گے۔ متکبر ممالیک حکمران قاضی کے اس فیصلے کو کیسے برداشت کر سکتے تھے؟ لہٰذا وہ عدالت کے حکم پر بپھر گئے۔ قاضی عز الدین کو ”ترغیب و ترہیب” ہر ممکن طریقے سے راضی کرنے کی بھر پور کوشش کی لیکن ان کی ”نہ” کو ”ہاں” میں تبدیل کرنے والا کوئی حربہ کامیاب نہ ہوسکا۔ ملک کے علماء مشایخ اورعوام عدالت کے ساتھ تھے۔ احتجاج ہوئے، جلوس نکلے، لاٹھی چارج، گرفتاریاں ہوئیں لیکن مطالبہ وہی ایک تھا۔ بالآخر ممالیک امرائے سلطنت کو عدالت اور عوام کے سامنے سرنگوں ہونا پڑا۔ چنانچہ قاضی عز الدین کی نگرانی میں ان کو نیلام کرنے کے لیے بولی لگائی گئی۔ فروخت کا عمل ہوا۔ بھاری بھر کم رقم وصول کرکے ملکی خزانے میں جمع کروادی گئی۔ اسی وجہ سے تاریخ میں قاضی عز الدین عبد السلام کو ”سلطان العلمائ” اور ”بائع الملوک” (بادشاہوں کو نیلام کرنے والا) کے لقب سے یادکیا جاتا ہے۔

قارئین! ذرا تاریخ اسلام کے اس نادر واقعہ کو دیکھیے اور پھر جگر پر ہاتھ رکھ کر ملک پاکستان کے اہم ترین افراد کے لئے مخصوص قانون سازی اور عدالتی استثنا پر ایک نظر ڈالیے۔ قانون کو تو نسیم ِصبح کی سبک خرام اور صبحِ نو کی طرح پاک و شفاف ہونا چاہیے نہ کہ اس طرح کہ آنے والی نسلیں کلنک کے اسی ٹیکے کو دیگر اقوام سے چھپاتی رہیں اور اپنے ماضی پر شرمسار رہیں۔ یاد رکھیے گا جس طرح عزالدین بن عبد السلام کے واقعہ نے امت کا سر فخر سے بلند کر دیا تھا، اسی طرح مخصوص افراد کو استثنائی اختیارات اور تحفظ فراہم کرنے والا قانون ہماری آنے والی نسلوں کا سر قیامت تک جھکائے رکھے گا۔ انصاف کے بارے میں حضرت علی نے کہا تھا: ”کوئی معاشرہ کفر کے ساتھ تو باقی رہ سکتا ہے لیکن انصاف کے بغیر نہیں۔” یہی وجہ تھی قرون اولیٰ میں امیرو غریب، خواندہ وجاہل، عوام وخواص، رعایا اور بادشاہ انصاف کے معاملے میں برابر ہوتے تھے۔ حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے آپ کو اس قانون سے بالاتر نہیں سمجھتے تھے۔ ایک دفعہ آپ نے مجمع عام سے مخاطب ہوکر فرمایا: ”اگر میں نے کسی کے ساتھ زیادتی کی ہو تو وہ مجھ سے بدلہ لے لے۔” حضرت عمر فاروق نے اپنے دورِ خلافت میں تمام منتظمین کو جمع کر کے فرمایا: ”ان میں سے اگر کسی نے انصاف میں کمی وکوتاہی کی ہو تو وہ بدلہ اسی وقت لے سکتا ہے۔” تاریخ ایسے واقعات اور مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ حکمرانوں نے احتساب کے لیے اپنے آپ کو عدالت میں پیش کیا۔ کوئی بھی سر براہ مملکت عدالت میں حاضری سے مستثنیٰ اور برا نہیں رہا۔ بڑے بڑے حکمران اور بادشاہ عدالت میں گئے۔ اپنے خلاف قائم ہونے والے مقدمات کا طوعاً و کرہاً سامنا کیا تو جان بخشی ہوئی۔ اب سوال یہ ہے جب پاکستان کا قانوں اسلامی اصولوں کے مطابق ہے تو پھر صدر مملکت اور دیگر کئی اہم افراد کو عدالت میں پیش کیوں نہیں کیا جاسکتا؟ جب معاشرے میں بگاڑ آتا ہے تو اس کی بنیادی وجہ انصاف کا فقدان ہوتا ہے۔ ایسے معاشرے اجڑ جاتے ہیں جہاں انصاف کے پیمانے بدل جائیں۔

مشہور واقعہ ہے ایک طوطا طوطی کہیں جارہے تھے راستے میں ایک ویران جگہ دیکھی۔ طوطی نے پوچھا: ”یہ شہر اور علاقہ کیوں تباہ ہوا؟” طوطے نے کہا: ”اُلوئوں کی وجہ سے، کیونکہ یہ منحوس جانور ہے۔ جہاں بیٹھتا ہے اسے ویران کردیتا ہے۔” اُلو کہیں قریب ہی بیٹھا سن رہا تھا۔ اس نے جواب دیا: ”نہیں! ایسا ہرگز نہیں! نحوست ہم اُلوئوں میں نہیں ہے بلکہ بے انصافی میں ہوتی ہے۔” ہاں! یہ سچ ہے جہاں انصاف کا پیمانہ کمزوروں کے لیے الگ ہو اور طاقتوروں کے لیے دوسرا ہو، وہ معاشرہ کبھی پُرامن نہیں ہوسکتا ہے۔ وہاں ایسی دہشت گردی جنم لیتی ہے جو سب کا امن وسکون غارت کرکے رکھ دیتی ہے۔ صدیوں پہلے نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاف سب کے لیے ایک جیسا ہونے کی تعلیم دی تھی۔ آپ نے ایک موقع پر یہاں تک فرمایا تھا: ”تم سے پہلے جو اُمتیں گزری ہیں، وہ اسی لیے تو تباہ ہوئیں کہ کمتر درجے کے مجرموں کو قانون کے مطابق سزا دیتے تھے اور اونچے درجے والوں کو چھوڑ دیتے تھے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے۔ اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں ضرور اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔” جس معاشرے میں بھی انصاف قائم ہوا، وہ مثال بن گیا۔ وہ ترقی کرگیا۔ وہاں رزق کی کشادگی ہوگئی۔ وہاں جرائم ختم ہوگئے۔ جب کبھی انصاف کے پیمانے بدل گئے۔ کمزورافراد اور طبقوں کے لیے الگ اور طاقت وروں کے لیے دوسرا وہاں افراتفری شروع ہوگئی۔ آج جگہ جگہ امن وامان کے گھمبیر مسائل ہیں۔ کہیں بھی امن وسکون نہیں۔ ہر جگہ بے چینی، اضطراب اور بے یقینی کی صورتِ حال ہے۔ اس وقت ہم امن و امان کے حوالے سے جو تباہی کے دہانے پر کھڑے ہے اور دہشت گردی نے سب کو اپنی لپیٹ میں لیاہوا ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟؟ افسوس کہ کوئی ”عزالدین” نہیں جو آج کے ”ممالیک امرائے سلطنت” کو کٹہرے میں لائے۔