وزارت خزانہ نے مہنگائی کی شرح 5 سے 6 فیصد تک رہنے کا امکان ظاہرکردیا اور کہا ہے کہ خوراک کی قیمتوں، زرعی پیداوار کے دباؤ سے مہنگائی مزید بڑھنے کا امکان ہے، پاکستان کی معاشی صورتحال محتاط طورپرمثبت دکھائی دے رہی ہے۔وزارت خزانہ کی ماہانہ اقتصادی آوٹ لک رپورٹ کے مطابق صنعتی سرگرمیوں میں بتدریج بہتری جاری ہے، معاشی اصلاحات کے نفاذ سے اقتصادی سرگرمیوں میں استحکام آرہا ہے، زرعی شعبے کا مجموعی منظرنامہ ملا جلا رجحان ظاہر کررہا ہے اور مناسب زرعی اِن پٹس کی دستیابی سے صورتحال بہترہونے کی توقع ہے۔وزارت خزانہ نے کہا کہ ربیع سیزن کے دوران زرعی سپلائی کے استحکام کا امکان ہے، مالی نظم وضبط میں بہتری اور محصولات میں اضافہ ہوا ہے۔ ترسیلات زرمیں اضافہ، معاشی صورتحال مزید مستحکم دکھائی دے رہی ہے۔
وزارت خزانہ کی اس رپورٹ میں ملکی معیشت سے متعلق حسب توقع اور حسب معمول ”سب اچھا” کی نوید سنائی گئی ہے اور دعوی کیا گیا ہے کہ مالی نظم و ضبط میں بہتری آچکی ہے اور محصولات میں اضافہ ہوا ہے جو حکومت کی نظر میں بہترین معاشی کار کردگی کی علامت ہے جبکہ دوسری جانب اسی رپورٹ میں ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مہنگائی بڑھنے کا امکان ہے۔اس خبر کے ساتھ ہی وفاقی ادارہ شماریات کی ہفتہ وار جائزہ رپورٹ بھی چھپی ہے جس کے مطابق گزشتہ کئی ہفتوں کی طرح اس ہفتے بھی مہنگائی میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ معیشت کی بحالی اور بہتری کے سرکاری دعووں کا منہ چڑانے کے لیے کافی ہے کیونکہ عوام کی نظر میں معیشت کی ترقی اور اقتصادی استحکام کا بیرو میٹر اشیاء صرف کی قیمتیں ہوتی ہیں۔معیشت کی ترقی اعدادو شمار کے گورکھ دھندے سے نہیں عام آدمی کی قوت خرید اور معیار زندگی کو دیکھ کر پرکھی جاسکتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں عام آدمی،محنت کش طبقے اور ملازم پیشہ افراد کے لیے معمول کی زندگی کی گاڑی کھینچنابھی کارے دارد بن چکا ہے۔حکومت کے کاغذات اور اعدادو شمار میں مہنگائی بھلے پانچ سے چھ فی صد ہو،عوام کے لیے گزشتہ صرف پانچ سالوں کے اندر ہر چیز کی قیمت دوگنی تگنی ہوچکی ہے اور اس کے مقابلے میں تنخواہوں اور اجرتوں میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہوا ہے۔یہ سب اس کے باوجود ہوا ہے کہ ان چار پانچ برسوں کے دوران عوام کھاتے پر کھربوں روپے کے قرضے لیے جاچکے ہیں۔
اب یہ قرضے جاتے کہاں ہیں؟اس بابت خود قرضہ دینے والے ادارے آئی ایم ایف کی گزشتہ ہفتے چھپنے والی یہ رپورٹ پاکستانی قوم کے لیے نہایت چشم کشا ہے کہ پاکستان میں کئی ہزار ارب روپے سالانہ کرپشن اور بد عنوانی کی نذر ہوجاتے ہیں۔یعنی ایک طرف عالم ہے کہ ملک قرض میں لی گئی سانسوں پر چل رہا ہے اور ہر چند ماہ بعد نظام تنفس کو رواں رکھنے کی خاطر سانسیں مستعار لینے کیلئے پھولتی سانسوں، کانپتی ٹانگوں اور لرزتے ہاتھوں کے ساتھ ہر طرف ہاتھ پیر مارنا پڑ رہے ہیں، مسلسل بڑھتا ہوا قرض قوم کیلئے بری طرح وبالِ دوش بن چکا ہے اور اس بوجھ میں ہر لمحہ ہونے والے اضافے سے قوم کی کمر زمین سے چپکتی چلی جا رہی ہے اور دوسری جانب ملک میں کرپشن کی لوٹ سیل لگ چکی ہے اور طبقہ اشرافیہ اور مخصوص ذہنیت کے حامل با اختیار افراد اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھورہے ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نیب کے قانون کے خاتمے نے ملکی خزانہ لوٹنے کے عادی گروہوں اور طبقات کو بالکل ہی بے خوف کردیا ہے اور اب وہ دونوں ہاتھوں سے لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہیں۔
ارباب اختیار کو اس امر کا ادراک ہونا چاہیے کہ کسی ملک کے حالات جس اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں تو وہاں پھر گھٹن بڑھ کر ایک لاوے کی شکل اختیار کرلیتی ہے جس کو باہر آنے کے لیے بسا اوقات کوئی معمولی جنبش کافی ہوجاتی ہے۔مقام شکر ہے کہ پاکستان دفاعی نقطہ نظر سے آج بھی دنیا کا قابل لحاظ ملک ہے اور دفاع کے ہر شعبے میں الحمد للہ آبادی اور معیشت میں خود سے کئی گنا بڑے حریف بھارت کو ٹکر دیتا ہے، تاہم دفاعی طاقت بھی معیشت پر منحصر ہوتی ہے، ایک کمزور اور ابتر معیشت زیادہ دیر اپنی پشت پر بڑی دفاعی طاقت کا بوجھ نہیں اٹھاسکتی۔ اس ضمن میں بجاطور پر سوویت یونین کی مثال دی جاتی ہے، جو اسلحے اور دفاع میں سپرپاور تھی، مگر معیشت کے قدم لڑکھڑاگئے تو اس کی ساری طاقت پاش پاش ہوگئی۔ ہمیں بھی یہ حقیقت پیش نظر رکھنا ہوگی کہ مانگے تانگے اور قرض کے پیسوں سے نہ صرف ہم اپنی معیشت کو مضبوط نہیں بناسکتے، بلکہ اس سے ناقابل تسخیر دفاع کو بھی دوام نہیں بخشا جا سکتا۔ مستحکم معیشت مضبوط اور ناقابل تسخیر دفاع کیلئے بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ غربت اور بے روزگاری اس وقت پوری قوم کیلئے بہت بڑے بلکہ حقیقی چیلنج ہیں، یہ چیلنج معاشی ابتری کی پیداوار ہے اور معاشی ابتری کے نتیجے میں نہ صرف ملک میں غربت اور بے روزگاری تباہ کن صورت اختیار کرتی جا رہی ہے، بلکہ اس نے ملک کا بال بال قرض میں بھی جکڑ دیا ہے۔ معیشت کی اس ابتر صورتحال نے ایٹمی پاکستان کو بھکاری، سدا کا محتاج اور مقروض کی شناخت کے ساتھ دنیا بھر میں بے وقعت کرکے رکھ دیا ہے۔ پاکستان نے الحمد للہ اپنا دفاع مضبوط کرلیا ہے، اب وقت آگیا ہے کہ دفاع کو موجودہ خطوط پر برقرار رکھنے اور دنیا میں اپنی حیثیت منوانے کیلئے غربت کے خاتمے اور معاشی استحکام کو ہدف بنالیا جائے۔
وطن عزیز میں گزشتہ کئی مہینوں کے دوران اعلیٰ سطح پر سیاسی سرگرمیوں اور پارلیمنٹ کی کارروائیوں کا محور چھبیسویں اور ستائیسویں ترمیم رہی ہیں اور اب اٹھایئسویں ترمیم کی بھی بازگشت سنائی دے رہی ہے اور اپوزیشن اتحاد کی ساری سیاست ایک شخص کی قید سے رہائی کے ارد گرد گھومتی دکھائی دے رہی ہے۔ ان تمام سرگرمیوں اور ترمیمات میں عام آدمی کا کونسا مفاد پوشیدہ ہے؟ اس سارے عرصے میں عوام کے مسائل بالخصوص مہنگائی پر منتخب ایوانوں میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کتنی بحث ہوئی ہے اور عوام کو ریلیف دینے کے لیے منتخب اسمبلیوں نے کونسی تجاویز زیر غور آئیں اور حکومتوں نے کیا اقدامات کیے ہیں؟ یہ سوالات ہیں جو اس وقت عام آدمی کے ذہن میں کلبلارہے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ ملک کے ارباب اختیار کو اگر اپنے اختیارات میں اضافے اور اپنے اقتدار کے تحفظ کا انتظام کرنے سے کچھ فرصت ہو تو انہیں اب کچھ قوم کی بھی فکر کرنا ہوگی عام آدمی کو مہنگائی کے عفریت سے تحفظ دلانے اور عوام کے حقیقی مسائل کو حل کرنے پر بھی توجہ دینا ہوگی۔

