وزیرِ اعلیٰ خیبر پختون خوا سہیل آفریدی کی اپنے لیڈر سے ملاقات کی آٹھویں کوشش بھی ناکام ہو گئی۔ سہیل آفریدی کی بار بار پیش کی گئی ملاقات کی درخواستوں کو جیل حکام نے درخورِ اعتنا نہیں سمجھا۔ ملاقات کی مستقل ناکامی اور عدالتی احکامات کے باوجود ان پر عمل نہ ہونے کو انہوں نے ادارہ جاتی ناانصافی اور ”صوبے سے امتیازی سلوک” قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں جان بوجھ کر حالات کو خراب کیا جا رہا ہے۔ کیوں بار بار عدالتی احکامات نہیں مانے جا رہے۔ ایک صوبے کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے ملاقات کی اجازت نہ ملنے پر فیکٹری ناکے پر ہی پی ٹی آئی کارکنان، صوبائی وزراء اور ارکانِ اسمبلی سمیت احتجاجاً دھرنا دے دیا اور کہا کہ جب تک ان کی ملاقات بانی پی ٹی آئی سے نہیں کروائی جاتی وہ وہاں سے نہیں اٹھیں گے تاہم 27 نومبر کو دن کے پچھلے پہر سے لے کر پوری رات گزر جانے کے باوجود سہیل آفریدی سے کسی نے رابطہ نہیں کیا، چنانچہ فجر کی نماز کے بعد یہ دھرنا ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس سے پہلے پی ٹی آئی کے راولپنڈی سے ایک ایم پی اے نے میڈیا ٹاک میں یہ دھمکی بھی دی تھی کہ اگر ان کا مطالبہ نہ مانا گیا تو وہ راولپنڈی کے پی ٹی آئی ورکرز کو احتجاجی دھرنے میں بلوا لیں گے لیکن ان کی اس دھمکی کو کسی نے بھی اہمیت نہ دی۔ شاید مذکورہ ایم پی اے کو خود بھی اس دھمکی کے کھوکھلے پن کا احساس تھا۔
سنجیدہ حلقے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ چند روز پہلے بانی پی ٹی آئی کی بہنوں نے بھی ملاقات نہ کروائے جانے پر احتجاجاً دھرنا دیا تھا۔ اس وقت سہیل آفریدی نے ان کا ساتھ کیوں نہیں دیا تھا۔ بعض سیاسی مبصرین یہ تھیوری پیش کر رہے ہیں کہ پی ٹی آئی چونکہ مختلف دھڑوں میں بٹ چکی ہے، اس لیے ہر دھڑے کا سربراہ پارٹی ورکرز کی نظروں میں ہیرو بننے اور سرخرو ہونے کے لیے کوشاں ہے۔ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات یا ان کی رہائی سے کسی کو دلچسپی نہیں ہے۔ سہیل آفریدی کے حالیہ احتجاجی دھرنے کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس سے پارٹی کے اندر سہیل آفریدی کی مقبولیت میں اضافہ ہو گا۔ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہ ہونے کے بینیفشری ہر لحاظ سے سہیل آفریدی ہی ہیں۔ انہوں نے اپنی ملاقات نہ ہونے پر ایک صوبے سے امتیازی سلوک کہہ کر اپنے صوبے کو ایک مقبول بیانیہ دے دیا ہے۔ اس بات سے کے پی میں پی ٹی آئی کے لیے ہمدردی بڑھے گی۔ مستقبل میں اس سے وفاق اور کے پی کے درمیان کشیدگی بڑھنے کا امکان ہے۔ سہیل آفریدی کا یہ دھرنا صرف ایک احتجاج نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے اندر طاقت کا مظاہرہ، وفاق کیخلاف سیاسی دباؤ اور عمران خان کی رہائی یا ملاقات کیلئے بیانیہ مضبوط کرنے کا ایک قدم ہے۔ اپنا سیاسی قد اونچا کرنے کی سہیل آفریدی کی یہ ایک اہم کوشش تھی۔ انہیں خیبر پختونخوا میں سیاسی ہیرو کا درجہ مل سکتا ہے۔ مستقبل کی سیاسی صف بندی پر بھی اس کا اثر پڑ سکتا ہے۔ اگر عمران خان طویل قید میں رہتے ہیں تو سہیل آفریدی اہم قومی لیڈر کے طور پر ابھر سکتے ہیں۔
جہاں تک سیاسی جماعتوں کے ردِعمل کا تعلق ہے تو مسلم لیگ ن اسے سیاسی ڈراما کہہ رہی ہے۔ اس کا موقف ہے کہ ملاقات سیکورٹی کی وجہ سے روکی گئی۔ وزیرِ اعلیٰ کو اداروں کو دباؤ میں لانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ پیپلز پارٹی اسے انتظامیہ پر حملہ قرار دے رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ کے پی حکومت کی پوری کوشش ہے کہ سسٹم کو ٹکراؤ کی طرف لے جایا جائے۔ مذہبی جماعتیں اسے شوبازی قرار دے رہی ہیں۔ ان کے نزدیک پی ٹی آئی اپنے کارکنان کو دوبارہ متحرک کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ میڈیا میں اس دھرنے کے بارے میں ملا جلا ردِعمل پایا جا رہا ہے۔ کچھ اسے جرات مندی اور کچھ صورتِ حال کو مزید بگاڑنے کا قدم کہہ رہے ہیں۔
معروف سیاسی تجزیہ کار حسن ایوب خان نے بڑی اہم بات کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سہیل آفریدی بار بار عدالتی حکم کی خلاف ورزی اور توہینِ عدالت کی بات کرتے ہیں جبکہ وہ خود عدالتی حکم کی پروا بھی نہیں کرتے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہری پور میں ضمنی انتخاب کے دوران انہوں نے انتخابی جلسے سے خطاب کر کے آئین و قانون کی خلاف ورزی کی جبکہ عدالت سے سزا یافتہ اور مفرور مجرم کو اسٹیج پر اپنے ساتھ کھڑا کر کے عدالتی احکام کی توہین کی۔ کتنے ہی عدالت سے سزا یافتہ مجرم اس وقت کے پی میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ سہیل آفریدی پہلے انہیں پکڑ کر قانون کے حوالے کریں، پھر دوسروں کی بات کریں کہ وہ عدالتی احکام نہیں مان رہے۔ حسن ایوب کا یہ بھی موقف ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو سیاست میں حصہ لینے سے نااہل کیا گیا ہے، اس لیے سہیل آفریدی سے ان کی سیاسی ملاقات کرانے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ درست ہے۔ اگر دیکھا جائے تو حسن ایوب خان کا موقف بڑا جاندار ہے۔ سہیل آفریدی یا ان کے ترجمان کو اس کا جواب دینا چاہیے۔
جہاں تک سہیل آفریدی کو ملاقات کی اجازت نہ دینے کا معاملہ ہے تو ان کی بہتری بھی اسی میں ہے کہ وہ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہ کریں، کیونکہ اگر ان کی ملاقات ہو گئی تو وہ اس ملاقات کا وزن نہیں اٹھا سکیں گے۔گنڈاپور نے متعدد مرتبہ وفاق پر چڑھائی بانی کے حکم پر ہی کی تھی۔ اگر سہیل آفریدی کو بھی ملاقات میں ایسا کوئی حکم مل گیا تو وہ سخت امتحان میں پڑ جائیں گے۔ 26 نومبر 2024 کے احتجاج کے بعد پارٹی ورکرز محتاط ہو گئے ہیں۔ پنجاب میں تو اب پی ٹی آئی کے ورکرز اور لیڈرز اپنے شہروں کے اندر احتجاج کے لیے نہیں نکلتے۔ کسی مرکزی احتجاج میں ان کا نکلنا بہت مشکل ہے۔ کے پی والے بھی گزشتہ احتجاج کے بعد سیانے ہو گئے ہیں۔ ہاں بذاتِ خود سہیل آفریدی اپنی مقبولیت میں اضافے اور بانی کی نظروں میں سرخرو ہونے کے لیے دھرنے اور احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔

