ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ملک کی برآمدات سو رہی ہیں، درآمدات دوڑ رہی ہیں اور تجارتی خسارہ ناچتی پھر رہی ہے۔ 2025ء کے ان 4ماہ کی بیرونی تجارت کی کارکردگی کا جب موازنہ گزشتہ سال کے اسی دورانیے سے کریں تو برآمدات شور مچا رہی تھیں کہ ہماری سانسیں بند ہو رہی ہیں۔ بیرونی تجارت واضح کر چکی ہے کہ جولائی تا اکتوبر 2025ء برآمدات 10ارب 44کروڑ ڈالرز کے باعث برآمدات میں گزشتہ سال کے اسی مدت کے مقابلے میں 4فیصد کمی ہوئی ہے اور درآمدات 23ارب 10کروڑ ڈالرز کے ساتھ ساڑھے 15فیصد اضافے کی چوکڑی بھر رہا ہے اور ان 4ماہ میں 12ارب 66کروڑ ڈالرز کا تجارتی خسارہ ہوا جو بیان کر رہا ہے کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 39فیصد اضافہ ہوا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ برآمدات مشکلات میں گھری ہوئی ہے۔ بجلی گیس کے نرخ، پانی کی قلت، ٹیکسوں کی بھرمار، سرمایہ کی کمی اور بہت سی باتوں نے اس کا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔اشرافیہ اورامراء بڑی بڑی لگژری گاڑیاں، قیمتی فرنیچر، کراکری، کھانے پینے کی اشیاء باہر سے ہی منگوانے کا ترجیح دیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے صنعتی ملکوں نے بیرون ملک سیل لگائی ہوئی ہے اور پاکستان کے امیر امراء اشرافیہ کا طبقہ آن لائن آرڈر کرکے منگوا لیتا ہے۔ غیرضروری اشیاء کی خریداری پر اربوں ڈالر ادھر سے ادھر چلے جاتے ہیں۔ جبھی تو تجارتی خسارہ اعلان کرتا پھرتا ہے کہ مجھے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اگر برآمدات کم ہوں گی تو لازمی طور پر درآمدات زیادہ ہوں گی۔ اسی لیے تو یہ تجارتی خسارہ 39فیصد بڑھ کر ناگہانی آفت وبلامشکل اور مصیبت بن کر معیشت کے سامنے کھڑا ہوگیا ہے۔ کیا حکام، کیا افسران اور غریب عوام تشویش میں مبتلا ہیں۔ معیشت لڑکھڑا رہی ہے۔ اس کے جو بداثرات پڑ رہے ہیں اور آیندہ ظاہر ہوں گے، اس سے معیشت لرزہ براندام ہے اور ہر طرف بے یقینی کی فضا موجود ہے۔ غربت بڑھ رہی ہے۔ سیلاب سے متاثرہ عوام اب تک اپنے پیروں پر کھڑے نہ ہوسکے۔
ایسے میں عالمی جریدے کی خبر کی سرخی ہمارا منہ چڑا رہی ہے۔ عالمی جریدے کے مطابق ”پاکستان میں بے یقینی کا خاتمہ ہوا ہے اور معیشت دوبارہ مستحکم ہو رہی ہے۔” یقینا عالمی جریدے کے پاس اپنے تجزیے کے لیے اعدادوشمار ہوں گے،ہم تو یہ کہتے ہیں کہ تیری آواز مکے اور مدینے! مگر ہمارے سامنے جو زمینی صورت حال ہے اور درآمدات و برآمدات کے سرکاری اعدادو شمار ہیں،وہ ہ عالمی جریدے کی رپورٹ پر ہماری خوشی کو غارت کررہے ہیں۔ ہم اوپر ان اعدادوشمار کا حوالہ دے چکے ہیں۔ کسی بھی ملک کی معیشت کی مضبوطی ماپنے کا پیمانہ اس ملک کی درآمدات اور برآمدات میں تناسب ہوتا ہے۔ہمارے ہاں برآمدات کی مکمل حوصلہ شکنی ہو رہی ہے کیونکہ بجلی گیس کی بڑھتی ہوئی لاگت، کرنسی اور دیگر بہت سی وجوہات کے باعث برآمدات کم ہو رہی ہیں اور دوسری جانب درآمدات بے لگام ہیں۔ کام کی چیزوں کی درآمد نہیں بڑھ رہی۔ چھوٹی بڑی مشینریوں کی درآمد میں اضافہ کی بجائے صرف موبائل فونز کی درآمد کئی گنا بڑھ رہی ہے۔ یعنی ہم دیگر ممالک کی مصنوعات کے لیے صرف کنزیومر بن رہے ہیں۔ تو ایسی صورت میںتجارتی خسارہ کا اتنا زیادہ بڑھ جانا درحقیقت خطرے کی گھنٹی ہے۔
اب ہم کیا کریں؟ کرنے کو تو بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ برآمدات کو مصنوعی عارضی سانس نہیں اصل آکسیجن دیں۔ کم لاگت، کم توانائی کے نرخ، سرخ فیتے کا خاتمہ، تاجر کو مراعات، سہولیات، باہر ملک جاکر آرڈرز کے حصول کے سلسلے میں سفارت خانے کی مدد، اعانت اور بہت سی باتیں ہیں تاکہ برآمدات میں اضافہ ہو۔اب یہ صورت حال ہوگئی ہے کہ برآمدات رو رہی ہیں، درآمدات ہنس رہی ہیں اور خسارہ سر چڑھ کر ناچ رہا ہے اور عالمی جریدہ کہہ رہا ہے کہ بے یقینی ختم اور معیشت دوبارہ مستحکم! ایسے میں برآمدات احتجاج کریں گی کہ ہماری رفتار تو 4فیصد کم ہوئی، کیا اس کو استحکام کہتے ہیں، درآمدات بھی کہہ سکتی ہیں کہ ہم تو ساڑھے پندہ فیصد بڑھ گئے، ہم سمجھے کہ کچھ خفگی کا اظہار ہوگا، پابندی کی باتیں ہوں گی مگر عالمی جریدے کا شکریہ، اس کے مطابق تو یہ بھی استحکام کا حصہ ہے، اب ہماری موجیں ہی موجیں ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ تجارتی خسارہ عالمی جریدے کی رپورٹ کو پڑھ کر خوشی سے کودنے لگے کہ عوام تو کہتے تھے کہ میں جب بڑھ جاؤں تویہ بحران کی علامت ہے، خطرے کی گھنٹی ہے، مگر عالمی جریدے کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ استحکام کا حصہ ہے۔ اور پھر آخر میں تجارتی خسارے نے شاید دھیرے سے یہ بھی کہا ہو کہ ”اگر اسی کو بے یقینی ختم اور معیشت کا استحکام کہتے ہیں تو اگلے 4ماہ میں، میں ملکی معاشی تاریخ کا عظیم کارنامہ انجام دوں گا۔”

