پاکستان کے سیاسی و آئینی ڈھانچے میں ایک بنیادی مسئلہ کئی دہائیوں سے جوں کا توں موجود ہے، وہ یہ کہ کیا قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کا اصل کام قانون سازی ہے یا ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی اور ان پر عمل کروانا؟ بدقسمتی سے پاکستان میں عوامی توقعات اور سیاسی روایت نے ان ارکان کو قانون سازوں کی بجائے عملی طور پر ٹھیکیدار بنا دیا ہے۔ ووٹر نمائندے کو ووٹ اس امید پر دیتا ہے کہ وہ سڑک پکی کرائے گا، نالیاں صاف کرائے گا، گیس کا میٹر لگوائے گا یا پانی کی لائن ڈالے گا۔ نتیجتاً قانون سازی، پالیسی سازی اور حکومتی نگرانی جیسے بنیادی کام پسِ پشت چلے جاتے ہیں اور اسمبلیاں ایک طرح سے بلدیاتی اداروں کے متبادل بن جاتی ہیں۔
آئینِ پاکستان واضح طور پر بتاتا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کا اصل کردار قانون سازی، پالیسی سازی، بجٹ کی منظوری اور حکومتی کارکردگی کی نگرانی ہے لیکن عملی صورتحال اس کے برعکس ہے۔ ترقیاتی فنڈز ان ارکان کو دیے جاتے ہیں جو بنیادی طور پر انتخابی فوائد، سیاسی مصلحتوں اور اثر و رسوخ کے تحت فنڈز تقسیم کرتے ہیں۔ اس سے ایک طرف پالیسی سازی کا عمل کمزور ہوتا ہے اور دوسری طرف کرپشن، اقربا پروری اور غیر شفافیت کے مواقع بڑھ جاتے ہیں۔ اگر ترقیاتی کاموں کا اختیار بلدیاتی نمائندوں کے پاس ہو جو روز عوام میں ہوتے ہیں اور مسائل کو بہتر جانتے ہیں، تو ترقیاتی عمل زیادہ شفاف، موثر اور تیز ہوسکتا ہے۔
پاکستان میں بلدیاتی نظام کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے وہ ہمارے انتظامی بحران کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ پہلے تو بلدیاتی انتخابات کرانے سے ہی گریز کیا جاتا ہے۔ اگر کسی عدالتی دباؤ، ازخود نوٹس یا عوامی احتجاج کے نتیجے میں انتخابات کرائے بھی جائیں تو منتخب بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات اور فنڈز نہیں دیے جاتے۔ انہیں ہاتھ باندھ کر کھڑا کر دیا جاتا ہے جبکہ ترقیاتی بجٹ صوبائی یا وفاقی حکومت کے ہاتھوں یرغمال رہتا ہے۔ یوں نہ تو مقامی مسائل حل ہوتے ہیں اور نہ ہی بلدیاتی نظام فعال ہو پاتا ہے۔ یہ صورتحال آرٹیکل 140ـA کی کھلی خلاف ورزی ہے جس میں واضح کہا گیا ہے کہ صوبے بااختیار مقامی حکومتوں کا نظام قائم کرنے کے پابند ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ آئین میں واضح ترمیم کی جائے جس کے تحت کسی بھی صوبائی یا وفاقی حکومت کے لیے بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کرنا یا منتخب اداروں کو تحلیل کرنا ناممکن بنا دیا جائے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ ہر حکومت اپنی سیاسی ضرورتوں کے مطابق بلدیاتی اداروں کو یا تو معطل کرتی رہی ہے یا انہیں اپنے ماتحت رکھنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں مقامی سطح پر جمہوریت کبھی بھی پوری طرح پنپ نہیں سکی۔ اگر آئین میں اس تاخیر یا مداخلت کی مکمل گنجائش ہی ختم کر دی جائے تو سیاسی انجینئرنگ، بااختیار میئرز کے خوف یا مخالف جماعتوں کے زیرِ اثر علاقوں کو کمزور کرنے جیسی روایات کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔
آئین میں یہ درج ہونا چاہیے کہ بلدیاتی انتخابات وقت پر ہوں، بلدیاتی نمائندوں کو مستقل مدت ملے اور سب سے بڑھ کر انہیں فنڈز اور انتظامی اختیارات دینا حکومتِ وقت کی آئینی ذمہ داری ہو۔ مزید یہ کہ اختیارات کی منتقلی محض کاغذی نہ ہو بلکہ عملی طور پر بھی ضلع، تحصیل اور یوسی کی سطح پر فیصلہ سازی ممکن ہو۔ آج بھی ایک یونین کونسل سیکریٹری سے لے کر تحصیل میونسپل آفیسر تک، بیشتر عہدوں پر صوبائی بیوروکریسی کے نمائندے بیٹھے ہوتے ہیں اور منتخب کونسلرز ان کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ جب تک اس ڈھانچے میں بنیادی تبدیلی نہیں آتی، مقامی حکومتیں نام کی حد تک رہیں گی۔
اس کے علاوہ آئین میں یہ بھی شامل کیا جائے کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کسی بھی صورت ترقیاتی فنڈز کا براہِ راست استعمال نہیں کر سکتے۔ اس اصول کی خلاف ورزی نے نہ صرف اختیارات کی اصل روح کو مسخ کیا بلکہ بدعنوانی کا دروازہ بھی کھولا۔ ایک ایم این اے یا ایم پی اے جب ترقیاتی بجٹ کی تقسیم میں براہ راست کردار ادا کرتا ہے تو پورا نظام سیاسی وفاداریوں، سفارش اور مخصوص گروہوں کی خوشامد کا شکار ہو جاتا ہے۔ ان کا کردار صرف نگرانی تک محدود ہونا چاہیے جبکہ عملی کام بلدیاتی سطح پر انجام دیے جائیں۔ اسمبلیوں کا دائرہ کار قانون سازی، پالیسی سازی اور حکومتی نگرانی ہے، سڑکیں، نالیاں اور گلیاں بنوانا نہیں۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں کوئی رکنِ اسمبلی نالی، سڑک یا کھمبا نہیں لگواتا۔ یہ کام کونسلر اور میئر کرتے ہیں۔ اسی لیے وہاں مقامی حکومتیں مضبوط، بااختیار اور مالی طور پر خود کفیل ہوتی ہیں۔ ان مقامی اداروں کے پاس اپنے ٹیکس، اپنی پولیس، اپنا پلاننگ بورڈ اور عوامی مفادات کے لیے فوری فیصلہ سازی کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اگر پاکستان بھی اسی اصول پر چل پڑے تو نہ صرف ترقیاتی منصوبوں میں شفافیت بڑھے گی بلکہ قانون سازی کا معیار بہتر ہوگا اور قومی و صوبائی ادارے غیر ضروری دباؤ سے آزاد ہو کر اپنی اصل ذمہ داری بہتر انداز میں ادا کریں گے۔ اس سے پاکستان کی حکمرانی کے ڈھانچے میں ایک موثر توازن پیدا ہوگا۔ جب قانون ساز صرف قانون سازی کریں گے اور بلدیاتی نمائندے ترقیاتی کاموں پر توجہ دیں گے، تو عوام کے مسائل تیزی سے حل ہوں گے، فائلوں کا بوجھ کم ہوگا، بیوروکریسی کے اختیارات میں بھی غیر ضروری وسط ختم ہوگا اور ملک کا نظم و نسق ایک بہتر سمت اختیار کرے گا۔
آخر میں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ مضبوط بلدیاتی نظام کسی بھی جدید ریاست کی بنیاد ہوتا ہے۔ پاکستان کو اس بنیاد کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ آبادی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی شرح، شہری مسائل، صفائی، پانی، تجاوزات، مہنگائی اور ٹرانسپورٹ جیسے مسائل صرف اسی وقت حل ہو سکتے ہیں جب فیصلے نیچے کی سطح پر ہوں اور عوام کا براہِ راست نمائندہ ان کا ذمہ دار ہو۔ ترقیاتی فنڈز بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے ہی خرچ ہونے چاہئیں اور قومی و صوبائی اسمبلیاں صرف ان کی نگرانی اور قانون سازی کریں۔ جب تک یہ تقسیم آئینی طور پر واضح اور محفوظ نہیں ہوگی، ہماری جمہوریت ادھوری، ترقیاتی عمل غیر متوازن اور قانون سازی کمزور رہے گی۔ پاکستان کی مضبوطی، ترقی اور شفاف حکمرانی کا راستہ بلدیاتی نظام کی مضبوطی سے ہو کر گزرتا ہے اور اس راستے پر چلنے کے لیے آئینی ترمیم ناگزیر ہے۔

