اذان و نماز کا یکساں نظام۔ امکانات و خدشات

وفاقی حکومت کی جانب سے راولپنڈی اور اسلام آباد کی تمام مساجد میں اذان اور باجماعت نماز کیلئے یکساں اوقات کار کے نظام کو متعارف کروانے کا فیصلہ ہوا ہے۔اس کے علاوہ جمعہ کے خطبات کے لیے موضوعات کی ایک فہرست بھی طے کی جارہی ہے۔ مذکورہ خطبات اتحادِ امت، اصلاحِ معاشرہ اور نوجوانوں کی رہنمائی جیسے اہم عنوانات پر مبنی ہوں گے۔ مزید برآں مساجد کے نظم و نسق، سیکورٹی اور انتظامات کے لیے بھی مشترکہ سفارشات تشکیل دی جائیں گی جن پر عمل درآمد کی نگرانی وزارتِ مذہبی امور کرے گی۔ اس سلسلہ میں ”نظامِ صلوٰة” کو موثر بنانے کے لیے قانون سازی بھی زیرِ غور ہے۔

یہ خبریں نئی ضرور ہیں مگر کوشش نئی نہیں۔ حکومت ماضی میں بھی یکساں اذان و نماز کے اوقات کے نفاذ کی کوشش کرچکی ہے۔ 2015 میں مختلف مکاتبِ فکراہلِ تشیع، دیوبندی، بریلوی اور اہلِ حدیث کے علمائے کرام سے مشاورت کے بعد ”نظامِ صلوٰة” کا خاکہ پیش کیا گیا تھا۔ تاہم مذہبی حلقوں کے شدید ردعمل کے باعث یہ منصوبہ موخر کردیا گیا۔ بعدازاں 2018 میں ”یونیفائیڈ ٹائمنگ آف اذان اینڈ نماز ایکٹ” کا مسودہ بھی تیار ہوا مگر اختلافات کے باعث کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔ اس پس منظر کے بعد 2025 میں یہی سوال دوبارہ زندہ ہوگیا کہ کیا یہ کوشش اس بار کامیاب ہوسکے گی؟

ہمارے معاشرے کی ساخت اور مذہبی تنوع کو سامنے رکھیں تو کئی عملی سوالات جنم لیتے ہیں۔ پاکستان کی اکثریت اہلِ سنت والجماعت حنفی مکتب فکر سے تعلق رکھتی ہے، مگر خود حنفی مکتب بھی دو بڑے گروہ بریلوی اور دیوبندی میں تقسیم ہے۔ ان دونوں کی کئی مساجد کے اذان اورباجماعت نماز کے اوقات میں بھی فرق پایا جاتا ہے۔ دوسری طرف اہلِ حدیث کے اوقاتِ نماز حنفی مسلک سے خاصے مختلف ہیں۔ اسی طرح اہلِ تشیع کا نظامِ وقت سب سے منفرد ہے۔ ایسے میں سب سے بنیادی سوال یہ ہے کہ یکسانی کون سے مسلک کے وقت کے مطابق قائم ہوگی؟ کیا ایک مسلک کے ماننے والے دوسرے مسلک کے اوقات کی پیروی پر آمادہ ہوسکیں گے؟ اس کا جواب بظاہر نفی میں ہی دکھائی دیتا ہے۔

مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے تقاریر اور نشستیں ضرور موثر ہوسکتی ہیں، مگر عملی میدان میں مسالک کے اختلافات اتنے گہرے ہیں کہ انہیں ایک صف میں کھڑا کرنا آسان نہیں۔ ایسی فضا میں ایسا کوئی بھی منصوبہ جس میں ”مرکزی نظام” کا تاثر ہو، فطری طور پر اختلافات کو مزید بھڑکا سکتا ہے اور یہی کچھ رواں بحث میں بھی دیکھنے میں آرہا ہے۔ مذہبی حلقوں کے ایک بڑے حصے نے یکساں اوقاتِ اذان و نماز کے حکومتی اقدام پر سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ کچھ حلقے اسے ریاست کی جانب سے مذہبی امور پر غیر ضروری کنٹرول کی طرف قدم سمجھ رہے ہیں اور اندیشہ ظاہر کررہے ہیں کہ مستقبل میں احتجاجی تحریکیں سامنے آسکتی ہیں۔ ان خدشات کو یکسر رد بھی نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ مذہبی معاملات میں عوام کی حساسیت ہمیشہ بہت زیادہ رہی ہے اور پاکستان جیسے مذہبی جذبات رکھنے والے معاشرے میں چھوٹی سی چنگاری بھی بڑے بحران کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔

اس کے برعکس کچھ حلقے حکومت کے اس اقدام کا خیرمقدم کررہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یکساں اذان و نماز نہ صرف شہری نظم میں بہتری لا سکتی ہے بلکہ مسالک کے درمیان موجود فاصلے کم کرنے کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔ خصوصاً جمعے کے خطبات کے لیے منتخب موضوعات طے کرنے کی تجویز کو مثبت انداز میں دیکھا جارہا ہے، کیونکہ اس سے فرقہ واریت کے رجحانات کی حوصلہ شکنی ہوسکتی ہے اور معاشرتی اخلاقیات، وحدتِ امت اور اجتماعی فلاح جیسے موضوعات کو زیادہ موثر انداز میں اجاگر کیا جاسکتا ہے۔ اسی کے ساتھ بعض ماہرین یہ بھی رائے دیتے ہیں کہ اگر مشاورت کا دائرہ وسیع کیا جائے، تمام مکاتبِ فکر کے معزز علما کو اعتماد میں لیا جائے اور فیصلے یکطرفہ کے بجائے مشترکہ ہوں تو اس اصلاحی منصوبے کے نتائج کہیں زیادہ بہتر ہوسکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف شکوک و شبہات کم ہوں گے بلکہ ریاست اور مذہبی اداروں کے درمیان معاونت اور ہم آہنگی کا ماحول بھی پیدا ہوسکے گا۔

ہر معاملے کے دو پہلو ہوتے ہیں، مثبت بھی اور منفی بھی۔ اگرچہ حکومت کی نیت پر اعتراض یا تنقید کی گنجائش موجود ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر یہ منصوبہ پوری حکمت سے نافذ ہوجائے تو اس کے فوائد بہت نمایاں ہوسکتے ہیں۔ شہری سطح پر نظم میں بہتری، عبادات میں یکسانیت، مساجد کے انتظام میں مربوطی، خطباتِ جمعہ کی اصلاح اور نوجوان نسل کو اعتدال کی طرف راغب کرنے جیسے اہداف ایسے ہیں جو مجموعی طور پر معاشرتی استحکام کا باعث بن سکتے ہیں۔ تاہم اصل کامیابی اسی صورت ممکن ہے جب فیصلے جبر کے بجائے مکالمے، مشاورت اور باہمی احترام کے اصولوں پر قائم ہوں۔

لیکن سوال پھر وہی ہے کہ کیا یہ سب کچھ عملی طور پر ممکن بھی ہے؟ زمینی حقائق اور گزشتہ تجربات کو دیکھتے ہوئے کہنا مشکل ہے کہ 2015 اور 2018 کی ناکامی 2025 میں کامیابی میں بدل جائے۔ پاکستان کے مذہبی تنوع، فقہی اختلافات اور عوامی حساسیت کو سامنے رکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ ایسی یکساں پالیسی کا نافذ ہونا نہ صرف دشوار بلکہ شاید ناممکن ہے۔تاہم ایک اصولی بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ اگر ریاست کسی کام پر سنجیدگی سے کمر بستہ ہوجائے تو اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ دیر تک نہیں ٹھہر سکتی۔ مگر ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے اقدامات عوام اور مذہبی طبقات کے اتفاقِ رائے سے کیے جائیں، تاکہ اختلافات کی بجائے ہم آہنگی اور تعاون کی فضا قائم ہوسکے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت وقت اس نظام کے فوائد کی بابت پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر آگاہی پروگرامز کا اجرا کرے۔ یکساں اوقاتِ اذان و نماز کا تصور بظاہر ایک خوبصورت مقصد رکھتا ہے، مگر اس کی عملی شکل میں وہی چیلنجز موجود ہیں جو گزشتہ برسوں میں ہر بار اس منصوبے کو روک دیتے رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مذہبی معاملات میں اتفاقِ رائے صرف سرکاری اعلامیوں سے نہیں پیدا ہوتا بلکہ اس کے لیے خلوصِ نیت کے ساتھ مسلسل مکالمہ، فریقین کی شرکت اور اعتماد سازی کے اقدامات ضروری ہوتے ہیں۔ اگر حکومت اس منصوبے کو کامیابی سے ہم کنار کرنا چاہتی ہے تو اسے علما کی مشاورت کو محض رسمی کارروائی نہیں بلکہ پالیسی کا بنیادی حصہ بنانا ہوگا۔ عوامی سطح پر بھی ایسے اقدامات درکار ہیں جن کے ذریعے لوگوں کو یہ یقین دلایا جائے کہ یہ اصلاحات مسالک کی شناخت مٹانے کے لیے نہیں بلکہ نظم، ہم آہنگی اور سہولت کے لیے ہیں۔ بصورتِ دیگر ہر قدم میں غلط فہمیوں اور مخالفت کا امکان برقرار رہے گا۔ موجودہ حالات میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مستقبل قریب میں بھی اس منصوبے کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں۔