تیسری قسط:
نصاب میں عالمی طورپر تبدیلی کی یہ بات ہمارے سامنے اور زیادہ واضح ہوکر تب سامنے آتی ہے جب ہم صیہونیوں کے بڑوں کی مرتب کردہ قدیم دستاویز پروٹوکولزآف دی ایلڈرز آف زائینس کا مطالعہ کرتے ہیں جہاں انہوں نے عیسائی اور مسلم تعلیمی اداروں کے بارے میں صاف طورپر اپنے نظریات کو پیش کیا ہے۔ یہودی پروٹوکولز بیان کرتے ہیں کہ جب ہماری حکومت قائم ہوگی تو سب سے پہلے ہم یونیورسٹیوں کی تعلیم کی ازسرنو تنظیم کریں گے۔ اس مقصد کے لیے ایک خفیہ پروگرام کے تحت یونیورسٹیوںکے افسروں اور پروفیسروں کو نئے سرے سے تیار کیا جائے گا۔ نصابِ تعلیم سے ایسے تمام مضامین خارج کر دیے جائیںگے جو ہمارے لئے مشکلات پیدا کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ غیریہودی عوام کو ایک ایسا فرمانبردار وحشی جانور بنا دیا جائے جو خود سوچنے سمجھنے سے عاری ہو۔’یہی وہ رہنما خطوط ہیں جن کی بنیاد پر صیہونیوں نے پہلے تو عیسائی تعلیمی اداروں پر شب خون مارا کیونکہ تب وہ ان کے بدترین دشمن تھے اور اب وہ مسلم تعلیمی اداروں پر شب خون مار رہے ہیں جن کی ایما پر عقل و خرد سے عاری ہمارے حکمران، تعلیمی نصاب میں پرزور احتجاج کے باوجود مسلسل منفی تبدیلیاں کئے جا رہے ہیں۔
ہنری فورڈ اپنی مذکورہ کتاب میں سوال کرتا ہے کہ اب اس کا علاج کیا ہو سکتا ہے؟ پھر خود ہی جواب دیتا ہے کہ: علاج بالکل آسان ہے۔ یعنی طلبہ کو بتایا جائے کہ تمام افکار کی پشت پر وہ یہودی ہیں جو ہمیں اپنے ماضی سے کاٹ کر مستقبل کے لیے مفلوج کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں بتایا جائے کہ وہ ان لوگوں کی اولاد ہیں جو یورپ سے تہذیب وتمدن لے کر آئے ہیں۔ اب یہ یہودی ہمارے اندر آگھسے ہیں جن کی کوئی تہذیب ہے نہ مذہب اور نہ انہوں نے ماضی میں کوئی کارنامہ انجام دیا ہے اور نہ مستقبل کے بارے میں ان کے عزائم اعلیٰ ہیں۔
ایک اور مغربی مصنف اور کینیڈا کا بحری کمانڈر ولئیم گائی کار، اپنی معروف تصنیف Pawns in the Game میں کہتا ہے کہ ان کی قوت کا اندازہ لگانا ہو تو ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ان کے گماشتے اپنی صلاحیتوں کے باعث تاریخ کے اَن ہونے واقعات تک ہمارے تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ (ترجمہ۔ بساطِ عالم کے مہرے۔ راقم۔ باب بین الاقوامی سازش)۔ اسی دوران ایک اور کتاب Palestine In Israeli Books. Ideology and Propaganda in Educationبھی راقم کے مطالعے میں آئی۔ اسرائیل کے ایک پروفیسرNurut Peled.Elhana نے خود تحریر کی ہے۔ کتاب میں وہ لکھتا ہے کہ نصاب میں اسرائیل میں ہر بچے کو پڑھایا جاتا ہے کہ فلسطینی اپنی ہر نسل، ہمیں مٹانے کے لیے ہی جنم دیتے ہیں۔
اسکول کے طالب علم کی ایک ماں نے پروفیسر سے کہا کہ اسرائیلی اپنے بچوں کو دودھ کی بجائے نفرت پر پال رہے ہیں۔ پڑھایا جاتا ہے کہ اسرائیلی، روشنی اور ترقی کا ذریعہ ہیں اور عرب قدیم بدو لوگ ہیں۔ پروفیسر کہتا ہے کہ وہ وہاں مسلم علاقوں کے نام تک تبدیل کردیتے ہیں (تاکہ تاریخ سے رشتہ توڑ دیا جائے)۔ طلبہ کو پڑھایا جاتا ہے کہ فلسطینی اس ملک کے لئے اجنبی ہیں۔ ان کے ذہنوں میں کے جی ہی سے نفرت بٹھائی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسی وجہ سے ہم انہیں قتل کرتے ہیں، مارتے ہیں اور ان کے ساتھ کتوں والا سلوک کرتے ہیں۔ عرب کیا ہیں؟ محض صفر…! کتاب میں ایک تصویر دکھائی گئی ہے کہ چھوٹے چھوٹے طلبہ فلسطینیوں کے خلاف فائر کئے جانے والے میزائلوں پر مارکر سے With Love From Us لکھ رہے ہیں اور اساتذہ انہیں دیکھ رہے ہیں۔
اسرائیل میں چونکہ فوجی ٹریننگ لازمی ہے، اس لئے بڑے ہوکر یہ لوگ جب حکومت یا فوج میں شامل ہوتے ہیں تو عربوں کے خلاف دماغ میں پہلے ہی سے بہت سا حقارت انگیز مواد جمع ہوتا ہے۔ اسی لئے کتوں سے بھی بدتر سمجھتے ہوئے وہ ان کے مکانوں کو بے رحمی کے ساتھ مسمار اور ان کے معصوم بچوں کو گولیوں سے چھلنی کرتے ہیں۔ ان کی زبان اور دلوں سے فلسطینی مسلمانوں کے خلاف آگ برس رہی ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان حقائق کے ہوتے ہوئے ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلی یہودی، کوئی نرم رویہ اختیار کریںگے یا عرب ومسلم ممالک کی چینخ و پکار پر کوئی حق عطا کریںگے؟ الا یہ کہ ان کے خلاف یا تو کوئی مضبوط و لگاتار سفارتی مہم شروع کی جائے یا ان کے ساتھ فی الواقع دودو ہاتھ کئے جائیں۔ دوسرا کوئی حل موجود ہی نہیں ہے۔
معروف چینل الجزیرہ نے ایک معروف یہودی موئرخ Ilan Pappeسے انٹرویو کیا تو اس نے اسرائیلی تعلیمی نصاب کے بارے میںمایوسی کا اظہار کرتے ہوے بتایا کہ اسرائیلی تعلیمی نصاب ایسا تشکیل دیا گیاہے کہ اس کے بعد وہاں سے متعصب اور جنونی طلبہ ہی برآمد ہوںگے۔ اس کا نصاب انجینئرڈ ہے۔ ایلن نے بتایا کہ 1999ء میں اس نے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ اسرائیلی نئی نسل کی نفرت کا یہ حال ہے کہ آپ انہیں فلسطینی کٹے پھٹے بچے بھی دکھائیںگے تو وہ خوش ہوکر کہیں گے کہ ‘بہت اچھا ہوا’۔ انسانیت کی تذلیل ان کے ڈی این اے میں شامل ہے۔ اس نے کہا کہ نئی اسرائیلی نسل دنیا کے لیے مزید خطرہ بنے گی۔ ققابلیمیں اس نے بتایاکہ البتہ امریکی یہودیوں کی نئی نسل میں یہ جنون نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کے طلبہ، حالات کو انسانی نکتہ نکاہ سے دیکھتے ہیں۔
٭شہاب نامہ: اس ضمن میں ایک اور چشم کشا حقیقت سابق معروف بیورو کریٹ، قدرت اللہ شہاب کے شہاب نامے میں پیش کی گئی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ فلسطینی مہاجرین کے بچوں کے لیے یونیسکو نے اپنے خرچ پر یروشلم، دریائے اردن کے مغربی کنارے West Bank اور غزہ کی پٹی میں بہت اسکول رکھے تھے۔ ان اسکولوں میں تربیت یافتہ مسلمان اساتذہ بھی یونیسکو کی منظوری سے تعینات ہوئے تھے۔ جب یروشلم سمیت ان علاقوں پر اسرائیل نے قبضہ کرلیا تو رفتہ رفتہ خبریں آنے لگیں کہ اسرائیلی حکومت نے ان اسکولوں کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ یونیسکو کے متعین کردہ مسلمان اساتذہ کو زبردستی گھر بٹھا دیا گیا ہے۔ ان کو تنخواہ تو باقاعدہ ملتی ہے لیکن کسی اسکول کے قریب بھی آنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اگر کوئی استاد کسی جگہ حرف شکایت زبان پر لاتا ہے تو و ہ اپنے بال بچوں سمیت ناقابلِ بیان مظالم اور تشدد کی زد میں آجاتا ہے۔ ان مسلمان اساتذہ کی جگہ ہر اسکول میں اب کٹر یہودی اسٹاف فلسطینی مہاجر بچوں کو پڑھانے پر مامور ہے۔ اس کے علاوہ ہر اسکول سے یونیسکو کی منظور شدہ درسی کتابیں بھی نصاب سے خارج کر دی گئی ہیں اور ان کی جگہ اب ایسی درسی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں جن میں اسلام، سیرت مبارکہ اورر عرب تاریخ و ثقافت کے خلاف انتہائی گمراہ کن، غلیظ اور شرمناک پروپیگنڈا ہوتا ہے۔ (جاری ہے)
چوتھی اور آخری قسط:
قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ ایگزیکیوٹو بورڈکے ہر اجلاس میں عرب ممالک کے نمائندے اسرائیل کی ان مذموم حرکات کا کچا چٹھا کھولتے تھے اور ثبوت میں ان کتابوں کے نمونے بھی پیش کرتے تھے جو ا س نے یونیسکو کے قائم کردہ اسکولوں میں زبردستی رائج کی ہوئی تھیں۔ صحیح حالات کا جائزہ لینے کی غرض سے دوبار ایک معائنہ ٹیم اسرائیل گئی لیکن دونوں بار ہمیں یہ رپورٹ ملی کہ عربوں کے الزامات کی تصدیق میں مقامی طورپر کوئی ثبوت نہیں مل سکا ہے۔ اس کی وجہ غالبا یہ تھی کہ ٹیمیں اسرائیلی حکومت کے ساتھ پہلے سے اپنا پروگرام طے کرکے وہاں جاتی تھیں اور معائنہ کے روز اسرائیلی حکام متعلقہ اسکولوں میں یونیسکو کے منظور شدہ اساتذہ اور کتابوں کی نمائش کا ڈراما رچادیتے تھے۔ ایگزیکیوٹو بورڈ میں عرب نمائندوں کے ساتھ میرے بڑے گہرے ذاتی تعلقات تھے۔ ہم لوگ آپس میں مل جل کر سوچاکرتے تھے کہ اسرائیل کی اس صریح دھاندلی اور اسلام دشمنی کا بھانڈا کس طورپر پھوڑا جائے۔ کافی سوچ بچار کے بعد سب کی یہی متفقہ رائے ہوئی کہ کسی قابل ِ اعتماد شخص کو خفیہ مشن پر اسرائیل بھیجا جائے اوروہاںسے وہ اسرائیل کے خلاف عائد کردہ الزامات کا ایسا ثبوت فراہم کرے جو ناقابل تردید ہو۔ کئی ہفتوں کی چھان بین کے بعد انجام کار قرعہ فال میرے نام نکلا۔ میں نے بھی اسے ایک چیلنج سمجھ کر قبول کرلیا۔ میرے دل میں ا یک لگن یہ بھی تھی کہ شاید اسی بہانے میرے ہاتھ ہزاروں فلسطینی بچوں کی کوئی خدمت ہوجائے جو اسرائیل کے قبضہ اختیار میں آکر ایسی کتابیں پڑھنے پر مجبور تھے جن میں دین ِ اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِ مبارکہ پر انتہائی رکیک، بے بنیاد اورگمراہ کن حملے کیے گئے تھے، چنانچہ میرا رابطہ ایک خفیہ تنظیم سے قائم ہوگیا۔ چند ہفتے مجھے پیرس، قاہرہ اوربیروت میں زیرِ تربیت رکھا گیا۔ اس کے بعد ایک جعلی ایرانی پاسپورٹ پر مجھے دس روز کیلئے اسرائیل بھیجنے کا پروگرام طے ہوگیا۔ اس زمانے میں سابق شاہ ِ ایران کی حکومت نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہوا تھا۔
تل ابیب کے ہوائی اڈے پر کسٹم والوں سے فارغ ہوکر جب میں ا پنا سامان لئے باہر نکلا تو اسرائیلی ٹورسٹ کارپوریشن کے ایک خوش لباس نوجوان نے لپک کر مجھے خوش آمدید کہا۔ گرم جوشی سے ہاتھ ملاتے ہوئے اس نے دبی زبان سے وہ شناختی الفاظ بھی ادا کیے جن کے متعلق مجھے پیرس میں آگاہ کردیا گیا تھا۔ جواباً میںنے بھی اپنے مقررکردہ شناختی الفاظ دہرائے۔ اس کے بعد مصطفی نے اگلے دس روز کیلئے میرا مکمل چارج سنبھال لیا۔
مصطفی اس نوجوان کا کوڈنام تھا۔ چھبیس ستائیس برس کا یہ پڑھا لکھا فلسطینی جوان کئی سال سے جان کی بازی لگا کر اسرائیل میں آزادی وطن کی خاطر طرح طرح کے خفیہ فرائض انجام دے رہا تھا۔ اسی کے زیر اہتمام میں یونیسکو کے قائم کردہ بہت سے اسکولوں میں گیا اور شر انگیز کتابوں کے نسخے حاصل کیے جو اسرائیلیوں نے یونیسکوکے منظور شدہ نصاب کی جگہ وہاں پر زبردستی رائج کر رکھے تھے۔ ان کتابوں پرمیں نے ہیڈماسٹروں اوردیگر کئی اساتذہ کے آٹو گراف بھی لئے۔ یہ یہودی ہیڈ ماسٹر اورر اساتذہ تھے جنہیں یونیسکو کو دھوکا دے کر مسلمان اساتذہ کی جگہ تعینا ت کیا گیا تھا۔ کئی جگہ میں نے ان کی بہت سی خفیہ تصویریں بھی اتاریں۔ ایک دو اسکولوں میں وہاں کے یہودی اسٹاف کے ساتھ میرا گروپ فوٹو کھینچاگیا۔ ایک اسکول میں ایک فلسطینی بچے کو انتہائی بے دردی کے ساتھ نہایت کڑی اورذلت آمیز سزا مل رہی تھی۔ اس کا قصور صرف یہ تھا کہ اس نے اپنی کتاب کا وہ حصہ پڑھنے سے انکار کردیا تھا جس میں رسول ِ اکرم ۖ کی شان میں انتہائی گستاخ الفاظ درج تھے۔ ہم نے خفیہ کیمرے کی مددسے اس سین کی پوری فلم اتارلی جس کی لمبائی دوسو فٹ سے بھی کچھ اوپر تھی۔ خد اکا شکر ہے کہ پیرس واپس آنے کے بعد اسرائیل سے لائی ہوئی میری شہادتوں کو یونیسکو والوں نے تسلیم کرلیا۔ ڈائرکٹر جنرل نے ایسے اقدامات کیے کہ مقبوضہ عرب علاقوں میں یونیسکو کے قائم کردہ تمام اسکولوں میں عربوں کا منظور شدہ درسی نصاب از سرِ نو رائج ہوگیا اور اسرائیل کی لگائی ہوئی شرانگیز کتابیں بھی منسوخ ہوگئیں۔ اس کے علاوہ آئندہ اس صورتِ حال پر کڑی نظر رکھنے کیلئے قابلِ اطمینان بندوبست بھی کردیا گیا۔ (شہاب نامہ)
کاش ہمارے مسلم حکمران سمجھ سکیں کہ جن صہیونیوںکی ایما پر وہ اپنے ہاں کے قدیم تعلیمی نصابوں کی مسلسل ادھیڑبن میں لگے ہوئے ہیں، انہوںنے خود اپنے ملک میں دوسروں کے خلاف نفرت، نسلی برتری، بنیاد پرستی اور دوسروں کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کو اپنی نصابی کتابوں کے ہر ہر صفحے پر بکھیرا ہے۔ عالمی امن کی خاطر اگر کسی اسلامی ملک کا تعلیمی نصاب تبدیل ہو نا ناگریز ہے تو انصاف کا تقاضا ہے کہ پھر ریاست اسرائیل کے تعلیمی نصاب کو بھی از سر نو ترتیب دیا جانا چاہیے۔ جس وقت عیسائی دنیا یہودیوںکو بری طرح ماررہی تھی اور پناہ کی تلا ش میں وہ ساری دنیا میں مارے مارے پھر رہے تھے، اس وقت مسلم اسپین میں یہودیو ں کو خوش آمدید کہا جارہا تھا اور پر سکون زندگی گزارنے کی سہولت دی جارہی تھی، یہی وہ مسلم ہسپانیہ تھا جہاں پہنچ کر یہودیوںنے اپنی علمی و تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارا تھا۔ اس بات کاا عتراف یہودی مفکرین آج بھی کرتے ہیں۔ دیکھیں امریکی ربی Benjamin Blech کی کتاب Jewish History and Culture, published by Alpha USA جس میں اس نے دل سے اعتراف کیا ہے کہ باقی عیسائی یورپ کو چھوڑ کر کریسنٹ اوراسٹار نے اس خطرناک دو رمیں جو سلوک ہمارے ساتھ کیا تھا، وہ اتنا شاندار تھا کہ بیان سے باہر ہے۔ The Crescent and The Cross۔ چنانچہ مسلم حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ یہودیوں کو مجبور کریں کہ اسرائیلی تعلیمی نصاب میں مسلمانوں کے اس احسان کو بھی سموئیں تاکہ اسرائیلی طلبہ کو بھی اندازہ ہوسکے کہ جب یہودی ہر طرف سے عیسائیوں کے ہاتھوں کھدیڑے جارہے تھے، اس وقت یہ مسلمان ہی تھے جنہوںنے انہیں امن اور تحفظ فراہم کیا تھا۔

