پنجاب میں ٹیچنگ لائسنسنگ نظام لانے کا فیصلہ

اچھا استاد قوم بناتا ہے۔ ایسا تبھی ممکن ہے جب نظام اس کی قدر کرے۔ اس کی قابلیت کو تسلیم کرے اور اس کا معیارِ زندگی بلند کرے۔ حکومت پنجاب نے فیصلہ کیا ہے کہ صوبے بھر میں اساتذہ کے لیے لائسنسنگ پالیسی کا اجراء کیا جائے۔ گورنمنٹ اور پرائیویٹ سیکٹر میں صرف لائسنس یافتہ اساتذہ ہی کو تدریس کے لیے چُنا جائے تاکہ صوبے میں معیارِ تعلیم بلند ہو سکے۔ اس کے لیے سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ تیزی سے ہوم ورک کرنے میں مصروف ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ آئندہ سال کے اوائل تک اس منصوبے پر قانون سازی کے لیے حتمی مسوّدہ تیار کر لیا جائے گا۔ صوبہ سندھ میں گزشتہ سال یعنی 2024 میں ٹیچنگ لائسنسنگ نظام کا اجرا کیا جا چکا ہے۔ پنجاب حکومت نے اپنے صوبے میں اس نظام کو شروع کرنے سے پہلے سندھ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے رابطہ کر لیا ہے تاکہ اس کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کے علاوہ درپیش مسائل، مشکلات، رکاوٹوں اور طریقہ کار کا بھرپور جائزہ لیا جا سکے۔

آئیے! اعداد و شمار کی روشنی میں جائزہ لیں کہ سندھ میں یہ نظام کس حد تک کامیاب رہا ہے۔ سندھ میں 2024ء میں پہلی مرتبہ حکومت نے ٹیچنگ لائسنسنگ نظام متعارف کروا کر تعلیمی شعبے میں بڑی اصلاحات کا آغاز کیا۔ جنوری 2024 میں لائسنسنگ ٹیسٹ میں تقریباً 4000 اساتذہ نے شرکت کی اور 646 اساتذہ کامیاب ہوئے۔ یعنی کامیابی کا تناسب 16 فیصد رہا۔ سرکاری سیکٹر کے اساتذہ میں کامیابی کا تناسب 14.7 فیصد جبکہ پرائیویٹ سیکٹر میں یہ تناسب 20.6 فیصد تھا۔ سب سے بہتر نتیجہ کراچی کا رہا جہاں کامیابی کا تناسب 31 فیصد تھا۔ صنفی تفریق کی بات کی جائے تو پرائیویٹ سیکٹر میں خواتین اساتذہ کے پاس ہونے کی شرح 27 فیصد اور مردوں میں یہ شرح 12 فیصد رہی۔ یہ نتائج زیادہ حوصلہ افزا تو نہیں ہیں تاہم تعلیمی اصلاحات کی جانب اہم پیش رفت کا آغاز ہو گیا ہے۔ اس پالیسی کا مقصد یہ ہے کہ ٹیچرز کو پیشہ ورانہ معیار پر لایا جائے اور اساتذہ کے پیشے کو بھی وہ وقار ملے جو مہارت پر مبنی دوسرے پیشوں طب، قانون اور انجنیئرنگ وغیرہ کو ملتا ہے۔ٹیچنگ لائسنسنگ کا امتحان دینے والے اساتذہ کا کہنا ہے کہ انہیں امتحان دینے سے پیلے کوئی کورس کروایا گیا نہ ہی سلیبس دیا گیا۔ مناسب راہنمائی نہ ہونے سے ٹیچرز بہتر نتائج نہ دے سکے۔ اساتذہ کی مجموعی رائے یہی ہے کہ یہ ایک اچھا قدم ہے مگر تیاری اور مسلسل تربیت کے بغیر امتحان پاس کرنا آسان نہیں۔

حکومت کی طرف سے لائسنس یافتہ اساتذہ کو گریڈ 16 کے عہدے کا اہل قرار دیا گیا ہے۔ یہ ایک اچھا قدم ہے۔ اس سے اساتذہ کی تنخواہ اور سماجی مرتبے میں اضافہ ہو گا۔ اس پالیسی کے نفاذ سے استاد اجرتی ملازم کے مرتبے سے ایک ماہر پیشہ ور کا اسٹیٹس حاصل کر لے گا۔ ماہرین نے اس قدم کو سراہا ہے کیونکہ لائسنسنگ کے ذریعے اساتذہ کی تدریسی صلاحیت میں بہتری کی توقع ہے۔ اس سے یقیناً تعلیمی معیار میں بھی بہتری آنے کی توقع ہے، البتہ ایک پہلو غورطلب ہے کہ جس قدر جوش و جذبے سے حکومت سندھ نے اس منصوبے کو شروع کیا تھا بعد ازاں اس قدر سنجیدگی نظر نہیں آئی۔ ایسی رپورٹس منظرِ عام پر آئی ہیں کہ لائسنسنگ کے عمل میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ جو اساتذہ ٹیسٹ دے چکے ہیں انہیں لائسنس دینے اور اس کے قانونی و انتظامی پہلوؤں میں تاخیر کا سامنا ہے جبکہ آئندہ بھرتیوں میں حکومت نے لائسنس یافتہ افراد کو ہی ٹیچر بھرتی کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

اب پنجاب کی صورتِ حال کی طرف آ جاتے ہیں۔ ٹیچر لائسنسنگ کا ڈول یہاں 2019ء میں اس وقت کے وزیرِ تعلیم مراد راس نے ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ وہ گاہے گاہے اس بیانیے کا اعادہ کرتے رہتے تھے مگر عملی طور پر وہ ہر معاملے میں گفتار کے غازی ہی تھے۔ ان کے کریڈٹ پر صرف ایک ہی اچھا کام ہے کہ انہوں نے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے تمام اساتذہ اور ملازمین کا ڈیٹا آن لائن کر کے ایک انقلابی قدم اٹھایا۔ اپنے دور میں وہ بار بار اعلانات کرنے کے باوجود ایک بھی نیا ٹیچر بھرتی نہیں کر پائے تھے۔ موجودہ وزیرِ تعلیم رانا سکندر حیات اس لحاظ سے ان سے بھی کئی قدم آگے بڑھ گئے ہیں کہ انہوں نے عملی طور پر ایک لاکھ سے زائد اساتذہ کی اسامیاں ختم ہی کردی ہیں۔ اسی ہزار کے قریب خالی آسامیاں ختم ہوئی ہیں جبکہ بیس ہزار کے قریب سرکاری سکولز کو آؤٹ سورس کر کے ان کی آسامیاں ختم کر دی گئی ہیں۔ اب یہ خوشخبری بھی سنا دی گئی ہے کہ آئندہ سے پنجاب میں مستقل ملازمت کسی کو بھی نہیں ملے گی۔ ان حالات میں ٹیچنگ لائسنسنگ پالیسی کا نفاذ کچھ زیادہ فائدہ مند نظر نہیں آتا۔ ملازمت میں عدم تحفظ کی وجہ سے بہت کم لوگ ٹیچنگ کی طرف رجوع کریں گے۔ موجودہ سرکاری ملازمین کا یہ خیال ہے کہ پنجاب میں ٹیچنگ لائسنسنگ نظام نیک نیتی پر مبنی نہیں ہے۔ یہ ان سے جان چھڑوانے کے لیے حکومتی بہانہ ہے۔ سندھ گورنمنٹ لائسنس ہولڈر پرائمری اساتذہ کو بھی سکیل نمبر 16 میں ترقی دینے کا اعلان کر چکی ہے۔ پنجاب میں ایسی کوئی سوچ نہیں پائی جاتی۔ بدقسمتی سے پنجاب میں اساتذہ کی بڑی تعداد وزیرِ تعلیم کے سابقہ رویّے سے شاکی ہے۔ جب شک کی دیوار درمیان میں ہو تو نیک نیتی بھی مشکوک ہو جاتی ہے۔ گزشتہ سال اساتذہ کے ٹیسٹ دینے کے معاملے میں وزیرِ تعلیم پنجاب نے اساتذہ کے خلاف باقاعدہ محاذ آرائی شروع کر دی تھی۔

ٹیچنگ لائسنسنگ کا نظام اسی وقت کامیاب ہو سکے گا جب سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر یعنی اساتذہ کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ ان کی مشاورت سے ضوابط طے کیے جائیں گے اور اس میں تدریج کا خیال رکھا جائے گا۔ کوئی بھی اچھا کام اسی وقت اچھا کہا جائے گا جب اس کا طریقہ کار درست اور بہتر ہو گا۔ زور زبردستی یا ناپسندیدہ طریقے سے کیا گیا اچھا کام بھی پسند نہیں کیا جاتا۔ رانا سکندر حیات کی خدمت میں عرض ہے کہ ٹیچنگ لائسنسنگ کے معاملے میں حسبِ سابق جلدبازی کا مظاہرہ نہ کریں۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کو صرف اعتماد میں لینا کافی نہیں، ان سے مشاورت بھی کریں۔ یہ بہت بڑا کام ہے جو بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ اگر اب انہوں نے اس کا بیڑا اٹھا لیا ہے تو سوچ سمجھ کر، مکمل ہوم ورک کے ساتھ آگے بڑھیں۔ اسے اپنی ضد یا انا کا مسئلہ بنا کر زبردستی لاگو کرنے سے اجتناب کریں۔ یہ صوبے کے تعلیمی مستقبل کا سوال ہے۔ اسے اپنے رویّے یا طریقہ کار سے متنازعہ نہ بنایا جائے۔ اگر خوش اسلوبی کے ساتھ یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچ گیا تو رانا سکندر حیات قوم کے ہیرو ہوں گے۔