اسرائیلی تعلیمی نصاب کی جھلکیاں

دوسری قسط:
دو معروف آنجہانی یہودی مصنفین اسرائیل شہاک اور مارٹن میزنسکی اپنی کتاب اسرائیل میں بنیاد پرستی (ترجمہ محمد احسن بٹ، شائع شدہ جمہوری پبلی کیشنز لاہور) میں لکھتے ہیںکہ اسرائیل کے تعلیمی اداروں میں طلبہ کو یہودیوں کی بنیادی مذہبی کتاب تالمود کا مطالعہ ضرور کروایا جاتا ہے۔ تعلیمی حکام اپنے طلبہ کو ہدایت دیتے ہیںکہ عبادت کرنے، خیرات دینے، یا دوسرے نیک کام کرنے کی بجائے تالمود کا مطالعہ ان کے لیے جنت میں داخلے کے لئے زیادہ بہتر ہے اور جو طلبہ تالمود کے مطالعے میں منہمک ہوتے ہیں وہ خود اپنے، اپنے خاندان، اپنے مالی معاونین اور دوسرے یہودیوں کے لئے بھی کسی حد تک جنت میں داخلے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ یہی مصنفین آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ریاست اسرائیل کے قیام کے چند سالوں کے بعد ہی اول درجے کے اسکولوں کی ریاضی کی کتابوں سے + جمع کا نشان ختم کر کے اس کی جگہ الٹےT کا نشان لگایا گیا تھا اورکہا گیا تھا کہ جمع کا نشان یہودی بچوں کو مذہبی اعتبار سے بگاڑ سکتا ہے۔ واضح رہے کہ یہی نشان وہاں آج تک جاری ہے۔ اسی ایک مثال سے بنیاد پرستی کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

اس وقت امریکا اور اسرائیل میں اَن گنت اسکول اور کالج ایسے ہیں جن میں مرد و خواتین کو تورات اور جدید علوم، دونوں کا عالم بنائے جانے کے کورس کروائے جاتے ہیں۔ ایک بڑا ربی، الزر، دونوں قسم کی تعلیمات کے بارے میں اصولی بات کہتا ہے کہ اگر تورات نہیں تو دنیا کا کوئی پیشہ نہیں، اگر آٹا نہیں ہے تو تورات نہیں اور اگر تورات نہیں تو آٹا بھی نہیں۔ نظم کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے تمام کاروباروں اور پیشوں کو صرف خدا کی ہدایت کے مطابق ہی چلانا چاہئے جس کے لئے تورات کے گہرے علم کی ضرورت ہے۔ اس طرح یہودی ربی اپنے طلبہ کو مذہبی بنیاد پرستی سے جان چھڑانے کی بجائے انہیں اس بنیاد پرستی کو اپنے ذہنوں میں مستحکم کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ تورات کی تشریح کرتے ہوئے یہودی مذہبی قوانین کی کتاب تالمود نے انسانی زندگی کے مختلف ادوار کا ایک نظام الاوقات پہلے ہی سے طے کر دیا ہے۔ تالمود کہتی ہے کہ پانچ سال کی عمر سے بائیبل (تورات و زبور) کو پڑھنا شروع کرو۔ تیرہ سال کی عمر میں مذہبی فرائض کی ادائیگی کے لئے اٹھ کھڑے ہو۔ پندرہ سال کی عمر سے تالمود کا مطالعہ کرنے لگو اور بیس سال کی عمر سے رزق کی تلاش کرنے نکل کھڑے ہو۔ (کتاب۔ تالمو د بے نقاب ہوتی ہے۔ ترجمہ راقم۔ باب Avot 5:21)

کوئی بھی فرد سوچ سکتا ہے کہ اس طرح کے نصاب پڑھائے جانے والے اسباق سے یہودی طلبہ کے اندر سوائے اس بنیاد پرستی کے دوسری اور کیا صفت پیدا ہوگی جسے اسلامی ممالک کے نصاب سے خارج کرنے کے لئے صیہونی اور امریکی مل کر احکام جاری کر رہے ہیں؟ عالمی طورپر نصاب میں تبدیلی کی جو مہم صیہونیوں نے ڈیڑھ سو سال پہلے شروع کی تھی جسے سب سے پہلے ایک امریکی صنعت کار اور فورڈ کار کے بانی ہنری فورڈ اول نے محسوس کیا تھا، اپنی کتاب دی انٹرنیشنل جیو(اردو ترجمہ۔ عالمی یہودی فتنہ گر۔ از میاں عبدالرشید۔ صفہ پبلشرز۔ لاہور) میں اس نے تفصیل دیتے ہوئے لکھا ہے کہ: ہماری اولادوں کو ان کے آباء و اجداد کے ورثے سے محروم کیا جا رہا ہے۔ جوانی کے ابتدائی ایام میں جبکہ لڑکے آزادی فکر سے نئے نئے روشناس ہوئے تھے، یہودی انہیں اپنے نرغے میں لے لیتے اور ان کے ذہنوں میں ایسے خیالات ٹھونس دیتے ہیں جن کے خطرناک نتائج کو ہماری اولاد اس وقت تک محسوس نہیں کر سکتی۔ وہ مزید لکھتا ہے کہ پروفیسروں اور طلبہ کو ساتھ ملا کر یہودی اپنے کام کو معزز بنا لیتے ہیں۔ یہ لوگ آرٹ، سائنس، مذہب، معاشیات اور سماجیات غرضیکہ ہر مضمون میں اپنے نظریات داخل کر دیتے ہیں۔ یہ یہودی طریقہ کار اب پوری طرح ظاہر ہوچکا ہے۔ یعنی پہلے طلبہ کو سکیولر بنائو۔ دوسرے الفاظ میں بچے کو یہ تعلیم نہ دو کہ اس کی تہذیب وتمدن کا تعلق ایک قدیم مذہب کے گہرے اصولوں سے ہے۔ یہی ہے وہ لبرلزم، یہودی جس کا اتنا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں! (باب۔ یہودی اثرات کے مختلف پہلو) (جاری ہے)