نئے عالمی نظام اور امریکی ایجنڈ ے کے تحت پورے عالم اسلام میں عموماً اور سرزمینِ پاکستان میں خصوصاً دوسری بڑی منفی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ اسکولوں، کالجوں اور جامعات کے تعلیمی نصابوں کو تبدیل کرنے اور انہیں لبرل بنانے کا کام بھی زور و شور کے ساتھ جاری ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ بطور انسانیت تمام انسان برابر ہیں لہٰذا بہت زیادہ بنیاد پرستی پھیلانے اور دوسرے مذاہب کے خلاف تعصبات کو جنم دینے والے مضامین کو درسی کتابوں سے نکال دینا چاہیے۔ یاد رہے کہ معرو ف فری میسنری تنظیم کا نعرہ بھی یہی ہے۔ مذہب انسانیت ہی فی الاصل مذہبِ محبت ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ گزشتہ سالوں میں ہمارے قومی نصاب سے سلطان صلاح الدین ایوبی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں مضامین اور بعض اسلامی نظمیں اور نعتیں بھی خارج از نصاب کر دی گئی تھیں۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں یہودیوں کے خلاف ہونے والی جنگِ خیبر اور گزشتہ دور میں بھارت کی جانب سے مسلط کردہ ستمبر کی جنگ کو بھی درسی کتابوں سے خارج کیا جا چکا ہے۔ حالانکہ ان معاملات پر ان دنوں پورے پاکستان میں بڑا واویلا مچا تھا اور ایک ہمہ گیر تحریک بھی چلی تھی لیکن جن منصوبوں کو صہیونی اور بھارتی ہدایات کے تحت دنیا بھر میں نافذالعمل ہونا ہوتا ہے، ان کے خلاف تمام احتجاج اور ہر قسم کا واویلا ہمارے ہاں بے معنی سمجھا جاتا ہے۔
ایک طرف ہمارے حکمرانوں کی ذہنی مرعوبیت کا درجِ بالا نمونہ ہے اور دوسری طرف خود صہیونیوں کا اپنا طرز عمل ہے جو ہر معاملے میں یکسو ہے اور جنہیں اپنے ہاں کسی قسم کی تبدیلی گوارا نہیں ہے۔ ذیل کے سطور کے ذریعے ایک جائزہ یہ لینے کی کوشش کی گئی ہے کہ خود اسرائیل میں تعلیمی اداروں میں نصاب کی کیا حالت ہے؟ اور وہاں طلبہ کو کیا پڑھایا اور سکھایا جا رہا ہے؟
امریکا میں مقیم ایک عرب عیسائی Steven Salatia نے اپنی کتاب Anti Arab Racism In The USA شائع شدہ امریکی تعلیمی نصاب کے بارے میں کافی کچھ تفصیل سے بتایا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ تل ابیب یونیورسٹی نے اپنے طلبہ کے لئے ایک کتاب شائع کی ہے جس میں واضح طورپر بتایا گیا ہے کہ یہودی ایک منصفانہ اور انسانی معاشرہ تشکیل دینے میں مصروف ہیں۔ یعنی وہ ان عربوں کے خلاف جنگ کرنے میں منہمک ہیں جو اسرائیلی کتابوں میں یہودیوں کو بہادر، محنت کش اور ملک کی ترقی میں مددگار کے طورپر پیش کیا جاتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ عرب ان تمام خصوصیات سے عاری ہیں۔ ان کتابوں میں عربوں کو ایک ایسی قوم ظاہر کیا گیا ہے جو کمتر، غیر مہذب، سست الوجود اور بے حس ہے۔ ان کے مطابق عرب قاتل ہیں، جلائو گھیرائو کرتے ہیں اور آسانی سے مشتعل ہو جاتے ہیں۔ یہ منتقم مزاج، بیمار اور شورکرنے والے لوگ ہیں، کتا ب اپنے طلبہ کو بتاتی ہے۔
اگرچہ اسرائیلی نصابوں میں حالات کے تحت بعض اصلاحات بھی کی جا رہی ہیں لیکن ان کا تعلق فلسطین اور اس کے باشندوں کے ساتھ نہیں ہے۔ ایک سترہ سالہ اسرائیلی طالب علم نے بتایا کہ اس کی کتابیں اسے بتاتی ہیںکہ ہر وہ کام جو یہودی کرتے ہیں، عمدہ اور قانونی ہوتے ہیں جبکہ عربوں کے ہر فیصلے غلطی سے پر ہوتے ہیں اور یہ کہ عرب ان یہودیوں کو فلسطین سے نکالنے کے ہمیشہ درپے رہتے ہیں۔ تعلیمی کتابوں میں اس طرح کے اسباق سمو کر وہاںکی حکومت یہودی طلبہ میں عربوں اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کو بالکل ہی ابتدا سے سمونے کی کوشش کرتی ہے۔
حیفہ کے ایک اسکول کی چھٹی جماعت کے ستر فیصد یہودی طلبہ نے بتایا کہ عرب باشندے قاتل، اغوا کنندہ، جرائم پیشہ اور دہشت گرد ہوتے ہیں۔ اسی اسکول کے اسی فیصد طلبہ نے بتایا کہ عرب لوگ گندے ہیں اور ان کے چہرے دہشت ناک ہیں۔ ان کے نوے فیصد طلبہ نے اظہار رائے کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل پر فلسطینی عربوں کا کوئی حق نہیں ہے۔ (اقتباس ختم) اب تک جو کتابیں اسرائیل میں شائع ہوتی چلی آرہی ہیں، ایک امریکی مصنف وایڈیٹر کوہن کے مطابق ان میں سے کتابوں میں فلسطینیوں کے بارے میں توہین آمیز منفی تبصرے پائے جاتے ہیں جن میں عربوں کو تشدد پسند، برائی کا سرچشمہ، جھوٹے، لالچی، دو چہروں والے اور غدار قرار دیا گیا ہے۔ ان خصوصیات کے علاوہ مذکورہ مصنف کوہن نے نوٹ کیا کہ رسوا کرنے کی خاطر عربوںکے لئے مذکورہ کتابوں میں مندرجہ ذیل الفاظ بھی بار بار استعمال کیے گئے ہیں۔
ایدیٹر کوہن لکھتا ہے کہ عربوں کے بارے میں یہ خرافات، عبرانی، یہودی ادب و تاریخ کا ایک بڑا حصہ ہیں۔ حضرت اسحاق علیہ السلام کے مقابلے میں وہ حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی اولاد کے لئے ابتدا ہی سے دشمنی بھرا ہوا رویہ رکھتے ہیں۔ اسرائیلی مصنفین خود بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں تاکہ اس طرح یہودی طلبہ عربوںکے ساتھ معاملہ کرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔
ایک بار سابق اسرائیلی صدر موشے کٹسائو katsav نے کہا تھا کہ ہمارے اور دشمنوں کے درمیان ایک بڑا خلا ہے اور یہ خلا محض صلاحیتوں کے لحاظ سے نہیں ہے بلکہ اخلاق، تمدن، انسانی جانوں کی حرمت اور ضمیر کے لحاظ سے بھی ہے۔ فلسطینی وہ لوگ ہیں جو ہمارے براعظم اور ہماری دنیا سے تعلق ہی نہیں رکھتے۔ ان کا تعلق ایک دوسری کہکشاں سے ہے۔ کتاب کا مذکورہ مصنف اسٹیون سیلیٹا کہتا ہے کہ رات کو اسرائیلی ایک پرسکون نیند لیتے ہوں گے کیوںکہ ان کی نصابی کتابیں اپنا کام خوب کر رہی ہیں۔
اسرائیلی تعلیمی اداروں کے مختلف درجات میں یہودیوں پر ہٹلر کے مظالم کا فرضی قصہ ہولوکاسٹ کے نام سے پڑھایا جانا بھی لازمی ہے تاکہ ان کی آنے والی نسلیں اپنے باپ دادا کی قربانیوں اور یہودی قوم کے دنیا بھر میں مظلوم ہونے کی حالت سے واقف ہو سکیں۔ ظاہر ہے کہ ظلم و ستم کے تفصیلی اور بار بار کے مطالعے سے ان کے اندر انتقام کا شدید ردعمل پیدا ہونا لازمی ہے۔ یہودی شریعت کے مطابق دنیا بھر میں پائے جانے والے تمام غیریہودی بشمول عیسائی اور مسلمان چوپائے ہیں لہٰذا اسی بنیاد پر ان کی ہر سطح کی درسی کتابوں میں یہودی طلبہ کو اصرار کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے کہ وہ اپنے علاوہ باقی تمام قوموں کو گویم، رذیل اور چوپائے سمجھیں۔ افسوس کہ آج کوئی عیسائی اور مسلم حکمران اسرائیل سے نہیں مطالبہ نہیں کرتا کہ وہ بھی اپنے نصاب سے دیگر قوموں کے بارے میں نفرت انگیز سوچ کو جنم دینے والے اسباق خارج کر دے۔ بقول ایک مغربی دانشور کے کہ دنیا کے امن کو تاراج کرنے سے اگر کسی قوم کو دلچسپی ہے تو وہ صرف یہودی قوم ہے۔ (جاری ہے)

