دعوت و تبلیغ کے مقاصد اور دائرے

تیسری و آخری قسط:
(٤) اس کے ساتھ ہی ایک اور واقعہ بھی اس سلسلہ میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ غالباً 1988ء میں امریکا کے شہر اٹلانٹا میں بیپٹسٹ فرقہ کے ایک پادری صاحب سے میری گفتگو ہوئی، میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ کے معاشرے میں زنا، سود، شراب، عریانی اور ہم جنس پرستی کا جو ماحول بنا ہوا ہے، آپ اسے کیا سمجھتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہ گناہ ہے اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کی تعلیمات کی خلاف ورزی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ اس سلسلہ میں کیا کر رہے ہیں؟ کہنے لگے کہ اتوار کو چرچ میں بائبل کا درس دیتا ہوں اور لوگوں کو سمجھاتا ہوں۔ میں نے پوچھا کہ درس میں کتنے لوگ آتے ہیں؟ کہا کہ ڈیڑھ دو سو افراد ہوتے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ اٹلانٹا کی ایک ملین آبادی میں ہفتے میں ایک بار سو دو سو افراد کے سامنے درس دے کر کیا آپ اپنے فرض سے سبکدوش ہو جاتے ہیں اور کیا آپ قیامت کے روز حضرت عیسٰی علیہ السلام کے سامنے پیش ہونے پر اپنی اس کارکردگی سے انہیں مطمئن کر سکیں گے؟ پادری صاحب نے فرمایا کہ نہیں لیکن میں اس سے زیادہ کر بھی کیا سکتا ہوں؟یہ واقعہ آپ حضرات کی خدمت میں عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پادری صاحب سے تو میں نے سوال کر دیا لیکن بعد میں مجھے خیال آیا کہ یہی سوال اگر مجھ سے کیا جائے تو اس کا میرے پاس کیا جواب ہوگا؟ اس لیے یہ سوال اب آپ حضرات کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں کہ ہم سب کو مل جل کر اس نازک سوال کا جواب تلاش کرنا چاہیے۔

پادری صاحب کی بات چلی ہے تو ایک اور پادری صاحب سے ملاقات کا قصہ بھی عرض کر دیتا ہوں۔چودہ پندرہ سال قبل کی بات ہے کہ برطانیہ کے شہر نوٹنگھم میں مولانا محمد عیسٰی منصوری، مولانا رضاء الحق اور حاجی عبد الرحمان (آئرش نو مسلم) کے ساتھ پروگرام بن گیا اور ہم نے نوٹنگھم کے ایک پادری صاحب سے ملاقات کی۔ میرا سوال ان سے بھی یہی تھا کہ مغربی معاشرے میں زنا، شراب، سود، فحاشی اور عریانی کی جو یلغار ہے اس کو کہیں بریک لگنے کا کوئی امکان ہے؟ ان کا جواب نفی میں تھا۔ میں نے عرض کیا کہ آپ لوگ اس سلسلہ میں کیا کر رہے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم تو اس سلسلہ میں کچھ نہیں کر سکتے بلکہ ہم آپ لوگوں کی طرف دیکھ رہے ہیں اس لیے کہ اس کو روکنے کے لیے جس روشنی کی ضرورت ہے اس کی چمک ہمیں آپ لوگوں کی آنکھوں میں نظر آرہی ہے۔ تب سے میں اس سوچ میں ہوں کہ لوگوں کی ہم سے کیا توقعات ہیں اور ہم کن کاموں میں پڑے ہوئے ہیں۔

زندگی کا ایک اور تجربہ اور مشاہدہ عرض کرنے میں بھی شاید کوئی حرج نہ ہو کہ ایک دفعہ لندن میں مولانا محمد عیسٰی منصوری، مولانا مفتی برکت اللہ اور راقم الحروف کا یہ پروگرام بن گیا کہ مختلف مسلم ممالک کی اسلامی تحریکات کے جو نمائندے لندن میں بیٹھے ہوئے ہیں ان سے ایک اجتماعی ملاقات کر لی جائے۔ ان دنوں میں ورلڈ اسلامک فورم کا چیئرمین تھا، چنانچہ ہم نے مسلسل ورک کر کے کم و بیش تیرہ ممالک کی اسلامی تحریکات کے نمائندوں کو جمع کر لیا جن کا اجلاس راقم الحروف کی صدارت میں ہوا۔ میں نے ان دوستوں کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ قیامِ خلافت اور نفاذِ شریعت کے لیے الگ الگ کام کرنے اور متفرق طور پر اپنی توانائیاں خرچ کرنے کی بجائے کسی ایک ملک کو فوکس کر لیا جائے اور سب مل کر اپنی صلاحیتیں اور توانائیاں وہاں خرچ کریں۔ اگر کسی ایک جگہ ہم اسلامی نظام قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے تو باقی ممالک میں کام کو آگے بڑھانا آسان ہو جائے گا۔ میری اس رائے سے سب نے اتفاق کیا اور کم و بیش ہر تحریک کے نمائندے نے رائے دی کہ اس کے لیے پاکستان ہی سب سے زیادہ موزوں ہے اور پاکستان کے دینی حلقے اور علماء کرام ہی اس سلسلہ میں سب سے زیادہ مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ ان کی باتیں سن کر میں خوش تو ہو رہا تھا لیکن اس سے کہیں زیادہ اندر ہی اندر میں پریشان بھی ہو رہا تھا کہ ”اندر کی بات” تو میں ہی جانتا تھا۔ میں علماء کرام سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا ہمیں کس نظر سے دیکھ رہی ہے اور ہم سے کیا توقعات وابستہ کیا ہوئے ہے، مگر ہم کس دنیا اور ماحول میں مگن ہیں کہ ہمیں سرے سے ان مسائل اور ان کے بارے میں اپنی ذمہ داریوں کا کوئی احساس ہی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے، آمین یا رب العالمین۔

حضرات علماء کرام! میں نے جو کچھ عرض کیا ہے اور جن معاملات کی طرف آپ حضرات کی توجہ دلانے کی کوشش کی ہے ان کا ایک اہم دائرہ اور شعبہ تبلیغی جماعت کا یہ دعوت و تبلیغ کا دائرہ بھی ہے اور میں علماء کرام سے اس کام کے ساتھ وابستہ رہنے کی درخواست کرتا رہتا ہوں۔ میں نے اس کام کے ساتھ تعلق کے جو فوائد محسوس کیے ہیں ان میں سے چند ایک کا ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے: ٭نیکی اور خیر کے ایک عمومی کام میں کسی درجے میں شرکت ہو جاتی ہے جو باعثِ خیر و ثواب ہے۔٭اعمالِ خیر کی پابندی کی عادت بنتی ہے مثلاً ذکر و اذکار، نوافل، تلاوت اور بعض دیگر اعمالِ خیر کا معمول بن جاتا ہے اور عادت بن جاتی ہے۔ حکیم الامت حضرت تھانوی کا ایک ملفوظ کسی جگہ پڑھا تھا کہ خیر کے کاموں کی عادت تم بنا لو، اسے عبادت کی شکل اللہ تعالیٰ خود ہی دے دیں گے۔ میرے خیال میں یہ عادت کسی کامل شیخ کی عملی صحبت یا تبلیغی جماعت کے بغیر نہیں بنتی۔٭ڈسپلن پیدا ہوتا ہے اور اوقات کی قدر ذہن میں جگہ بناتی ہے۔ ڈرتے ڈرتے عرض کرتا ہوں کہ سب سے زیادہ مصروف طبقہ ہم علماء کرام کا ہوتا ہے اور سب سے زیادہ فارغ بھی ہم ہی ہوتے ہیں۔ ہماری فراغت عام طور پر ہماری سب سے بڑی مصروفیت ہوتی ہے اور کچھ شخصیات و افراد کے استثنا کے ساتھ وقت کی قدر و قیمت کا ہمیں کوئی احساس نہیں ہوتا۔ ہر کام وقت پر کرنا اور ہر وقت کو کسی نہ کسی طرح استعمال میں لانا ہو تو اس کے لیے تبلیغی جماعت کے ساتھ وقت لگانا بہت مفید ہے۔ پروٹوکول میں کمی آتی ہے جو ہمارے بہت سے کاموں میں رکاوٹ بنا رہتا ہے۔ اپنی اپنی جگہ تو ہم خود ہی امیر ہوتے ہیں اور خود ہی فیصلے کرتے ہیں، یہاں ہم مامور ہوتے ہیں، چٹائیوں پر سونا ہوتا ہے، سب دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر اعمال میں شریک ہوتے ہیں اور امیر کے فیصلے کے پابند ہوتے ہیں۔ مجھے تو سچی بات ہے کہ مامور بن کر بے حد خوشی ہوتی ہے۔ جب کوئی دوست اس دوران کسی کام کے لیے کہتا ہے اور میں خود فیصلہ کرنے کی بجائے یہ کہتا ہوں کہ ”امیر صاحب سے پوچھ لیں” تو بے حد روحانی سکون ملتا ہے۔

تعلقاتِ عامہ اور پبلک ڈیلنگ کا فن کچھ نہ کچھ سیکھ لیتے ہیں۔ کس ماحول میں اور کس سطح کے آدمی سے کس طرح بات کرنی ہے اور غیر متعلقہ افراد کو کس طرح بہلا پھسلا کر اپنی راہ پر لانا ہے اس کا طریقہ معلوم ہوتا ہے بلکہ اس کا عملی تجربہ بھی ہوتا ہے۔ ہم علماء کرام عام طور پر اس فن سے نابلد ہوتے ہیں۔ ہماری گفتگو کی ایک ہی سطح ہوتی ہے اور ہم ہمیشہ ایک متعین فریکوئنسی سے بات کرتے ہیں جو ایسے لوگوں کے سروں کے اوپر سے گزر جاتی ہے جن کی فریکوئنسی ہمارے ساتھ سیٹ نہیں ہوتی۔ میں اس سلسلہ میں اپنا ایک ذاتی تجربہ اور واقعہ آپ حضرات کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے دورۂ حدیث 1969ء میں جامعہ نصرة العلوم گوجرانوالہ سے کیا تھا، سالانہ امتحان اس زمانے میں ہمارے ہاں تقریری ہوا کرتا تھا۔ مخدوم العلماء حضرت مولانا مفتی بشیر احمد پسروری بخاری شریف کے امتحان میں ممتحن تھے اور بلوچستان اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر مولوی شمس الدین شہید دورۂ حدیث میں ہمارے ساتھی تھے۔ ہم تیرہ چودہ ساتھی تھے اور اکٹھے ہی امتحان دے رہے تھے۔ حضرت پسروری نے مولوی شمس الدین شہید سے بخاری شریف کی ایک حدیث کی عبارت پڑھوائی اور پھر ہم سب سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میں تم سے اس حدیث کے حوالے سے فقہی مذاہب اور ان کے دلائل نہیں پوچھوں گا اس لیے کہ یہ سب کچھ تم لوگوں نے رٹا ہوا ہوگا، میرا تم سے سوال یہ ہے کہ یہ حدیث اگر تمہیں کسی دور دراز گاؤں میں خالصتاً اَن پڑھ دیہاتی ماحول میں بیان کرنی پڑے تو کیسے بیان کرو گے؟ اس پر میں نے ٹھیٹھ دیہاتی لہجے میں اس حدیث پر پانچ سات منٹ تقریر کی تو حضرت پسروری بہت خوش ہوئے اور امتیازی نمبروں سے نوازا۔ میری آج کی گزارش یہ ہے کہ اس فن سے عام طور پر ہم ناواقف ہوتے ہیں حالانکہ یہ ہماری بہت اہم دینی ضرورت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ تبلیغی جماعت کے ساتھ وقت لگانے، قریہ قریہ پھرنے اور طرح طرح کے لوگوں سے بات چیت کرنے سے اس فن میں بھی کچھ نہ کچھ شدبد ہو جاتی ہے اور تعلقاتِ عامہ کا ہنر تھوڑا بہت آجاتا ہے۔

٭ایک دوسرے کے ساتھ میل جول سے بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوتا ہے۔ ہمارے درمیان بہت سے معاملات میں غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں، تبلیغی حلقوں میں علماء کرام کے بارے میں بدگمانیاں موجود ہیں اور علماء کرام کے حلقوں میں تبلیغی جماعت کے بارے میں بدگمانیاں دیکھنے اور سننے میں آتی رہتی ہیں۔ اس کا حل بھی یہ ہے کہ میل جول بڑھایا جائے، ایک دوسرے کی کمزوریوں اور مجبوریوں کو سمجھا جائے اور افہام و تفہیم کے ساتھ باہمی بدگمانیوں اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس لیے کہ نہ علماء کرام فرشتوں میں سے ہیں اور نہ ہی تبلیغی جماعت فرشتوں کی جماعت ہے، کمزوریاں دونوں طرف موجود ہیں۔ یہ فطری بات ہے کہ کوئی کام جوں جوں پھیلتا ہے اور اس کے دائرے میں وسعت پیدا ہوتی ہے، اسی حساب سے غلطیوں کا امکان بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ غلطیاں وہی کرے گا جو کام کرے گا اور جتنا زیادہ کام کرے گا غلطیاں بھی اسی حساب سے زیادہ ہی کرے گا۔ اس کا علاج غلطیوں کو بلاضرورت اجاگر کرنا اور محاذ آرائی کرنا نہیں بلکہ افہام و تفہیم کے ساتھ ان کی طرف توجہ دلانا ہے اور وہ باہمی میل جول کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے۔