ریٹائرمنٹ عمر کا وہ دور ہوتا ہے جب انسان نے اپنی پوری جوانی، تجربہ اور صلاحیتیں ملک و قوم کی خدمت میں صرف کر دی ہوتی ہیں۔ اب وہ چاہتا ہے کہ بڑھاپے کی اس نازک منزل میں اُسے عزت، سکون اور مالی تحفظ میسر ہو مگر افسوس کہ پاکستان کے ہزاروں سرکاری پنشنرز برسوں کی خدمات کے باوجود آج ایک ایسی محرومی کا شکار ہیں جو نہ صرف انتظامی نااہلی اور حکومتی بے حسی کی عکاس ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ انتظامی نااہلی اور حکومتی بے حسی سے زیادہ اس میں حکومتی بدنیتی شامل ہے جس نے ہزاروں سرکاری ملازمین کو ان کے جائز حق سے محروم کر رکھا ہے۔ حکومت آئی ایم ایف کے دباؤ پر ملک میں پنشن کا سسٹم ہی ختم کرنے کے در پے ہے۔ حالیہ عرصے میں متعدد ایسے قوانین پاس کیے گئے ہیں جن میں سرکاری ملازمتوں میں پنشن کی مراعات نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں۔
اب پنشنرز کے گروپ انشورنس کی ادائیگی بھی مشکل سے مشکل بنائی جارہی ہے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ دورانِ ملازمت ہر سرکاری ملازم کی تنخواہ سے گروپ انشورنس کی قسط باقاعدگی سے کاٹی جاتی ہے۔ مقصد یہ بتایا جاتا ہے کہ ریٹائرمنٹ یا وفات کی صورت میں ملازم یا اس کے لواحقین کو ایک مخصوص رقم ادا کی جائے گی تاکہ بڑھاپے یا سانحہ کے وقت مالی سہارا میسر ہو۔ لیکن عملی طور پر ہزاروں پنشنرز ایسے ہیں جنہیں ریٹائرمنٹ کے بعد آج تک یہ رقم نہیں ملی۔ گروپ انشورنس کی رقم کے حصول کے لیے سرکاری ملازم کو دورانِ ملازمت مرنا پڑتا ہے۔ یعنی پوری سروس کے دوران اپنی تنخواہ میں سے انشورنس کی قسطیں کٹوانے والا اپنی ہی رقم سے محروم ہوتا ہے۔ وہ خود اس رقم سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ اگر وہ خوش قسمتی سے اپنی ریٹائرمنٹ تک زندہ رہ جاتا ہے تو حکومت اسے لاکھوں روپے سے محروم کر دیتی ہے۔
یہ سوال اب قومی سطح پر اٹھنا چاہیے کہ جب حکومت نے ایک اسکیم خود بنائی، اس پر ہر ماہ قسط کاٹی گئی، تو پھر ریٹائرمنٹ کے بعد ادائیگی کیوں نہیں ہوتی؟ کیا یہ کھلی زیادتی نہیں کہ ایک شخص اپنی ملازمت کے دوران حکومتی وعدوں پر یقین رکھتے ہوئے باقاعدگی سے انشورنس کی رقم ادا کرتا رہے اور جب ادائیگی کا وقت آئے تو اسے اپنی ہی رقم سے محروم کر دیا جائے۔ یہ بہرحال زیادتی ہے۔
سرکاری پنشنرز وہ بزرگ شہری ہیں جنہوں نے سرکاری محکموں میں اپنی زندگی کے قیمتی سال خدمات انجام دیتے ہوئے گزارے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی واحد آمدنی پنشن ہوتی ہے جس میں موجودہ مہنگائی کے دور میں گزر بسر انتہائی مشکل ہو چکی ہے۔ ان میں سے بیشتر افراد دل، گنٹھیا، شوگر اور بلڈ پریشر جیسے دائمی امراض میں مبتلا ہیں۔ یہ بزرگ اپنی زندگی کے اس مرحلے میں کسی خیرات کے نہیں بلکہ حق دارانہ ادائیگی کے منتظر ہیں۔ وہ حکومت سے بھیک نہیں مانگ رہے بلکہ اپنا حق یعنی گروپ انشورنس کی رقم طلب کر رہے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں سینئر سٹیزنز کو خصوصی سہولیات، طبی مراعات، سفری رعایتیں، اور انشورنس کی فوری ادائیگی کی جاتی ہے۔ وہاں یہ سوچ غالب ہے کہ”جس نسل نے ملک بنایا، اب ملک ان کی خدمت کرے۔ ”مگر افسوس، ہمارے ہاں یہ طبقہ محرومی، بیماری اور انتظار کی صلیب پر لٹکا ہوا ہے۔
اگر حکومت خود ہی اپنے متعارف کردہ منصوبوں پر عمل نہیں کرتی تو پھر ایسی اسکیمیں متعارف کرانے کا مقصد کیا ہے؟ گروپ انشورنس کی قسطیں وصول کرنے کے باوجود ادائیگی نہ کرنا ایک انتظامی جرم اور اخلاقی غفلت ہے۔ اس ناانصافی پر متعلقہ محکمے، آڈیٹر جنرل، اور وزارتِ خزانہ کو وضاحت دینی چاہیے۔ متاثرہ پنشنرز کو بھی چاہیے کہ محض حکومتی مہربانی کے انتظار کی صلیب پر نہ لٹکے رہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا پر حکومتی ناانصافی اور زیادتی کے خلاف آواز اٹھائیں۔ ہر سرکاری ملازم کو چاہیے کہ وفاقی و صوبائی محتسبِ اعلیٰ کی خدمت میں درخواست دے جہاں سرکاری اداروں کی غفلت پر قانونی کارروائی ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ گاہے گاہے چیف سیکرٹری اور فنانس ڈیپارٹمنٹ کو تحریری درخواست دے کر یاد دہانی کروائی جائے۔ چیف جسٹس آف پاکستان اور ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کو خطوط لکھے جائیں کہ وہ اس اہم مسئلے پر از خود نوٹس لے کر پنشنرز کو ان کا حق دلوائیں۔
یہ بوڑھے پنشنرز وہ لوگ ہیں جنہوں نے ملک کے نظام کو اپنے کندھوں پر اٹھائے رکھا۔ اب وقت ہے کہ ریاست اپنے ان محسنوں کے کندھوں سے محرومیوں کا بوجھ اتارے۔ گروپ انشورنس کی رقم ان پر احسان نہیں بلکہ واجب الادا حق ہے۔ ایک مہذب ریاست اپنے شہریوں کے حقوق ادا کرنے میں تاخیر نہیں کرتی۔

